سانحہ شاہ نورانی سے سیہون تک

ثروت خان  جمعـء 17 فروری 2017
سانحہ سیہون نے اگر ہماری ذمہ دار اور بااختیار قیادت کی روحوں کو نہ جھنجھوڑا تو، ایسی سرکار کی بے حسی پر افسوس نہیں بلکہ شرم کا مقام ہوگا۔

سانحہ سیہون نے اگر ہماری ذمہ دار اور بااختیار قیادت کی روحوں کو نہ جھنجھوڑا تو، ایسی سرکار کی بے حسی پر افسوس نہیں بلکہ شرم کا مقام ہوگا۔

کہا جاتا ہے کہ سانحات روح کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہوتے ہیں، یہ تحریر درگاہ شاہ نورانی میں میلے کے دوران جاری دھمال کے شور میں ہونے والے ایک دھماکے کی کڑی ہے۔ ٹھیک 3 ماہ قبل درگاہ کے صحن میں مٹُھی بھر دہشت گرد کے چٹکی بھر ساتھیوں نے خواتین اور بچوں سمیت 50 زائرین کو کامیابی سے نشانہ بنایا تھا۔ تاریخ دہرائی گئی، دن اور مقام تبدیل ہوا، سیہون میں واقع درگاہ لعل شہباز قلندرؒ کے احاطے میں ایک خودکش حملہ آور داخل ہوا۔ پچھلے واقعے سے زیادہ، یعنی 70 سے زائد افراد کو ہدف بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ گویا دشمن کی کمر تو ٹوٹ چکی تھی لیکن اُس کا باقی جسم قومی امن کو تباہ کرنے کے لئے سلامت تھا۔

رواں سال کو پاکستان کے لئے دہشت گردوں سے نمٹنے کا سال کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ کراچی، پشاور، لاہور، مہمند، ڈی آئی خان، آواران اور اندرون سندھ قلندر کی نگری بھی غیر محفوظ ثابت ہوگئی۔ صاف ظاہر ہے کہ میڈیا، پولیس اور فوج کے اہل کار نشانہ بن رہے ہیں۔ 5 دن کے اندر ملک کے ہر صوبے میں چند عناصر کی دہشت گرد کارروائیوں میں صرف 100 سے زائد افراد زندگی سے محروم نہیں ہوئے بلکہ اُن کے بچے کُچھے خاندان، بقیہ سانسوں تک زندہ لاش بن گئے۔

8 سو برس قدیم معروف بزرگ حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار پر جمعرات کی شام ہزاروں کی تعداد میں زائرین آتے ہیں۔ کیا درگاہ شاہ نورانی واقعے کے بعد، مزاروں کےعقیدت مندوں کی سیکورٹی کے لئے کوئی انتظام کیا گیا تھا؟ کالعدم تنظیموں کے نمائندوں کے ڈھٹائی سے ذمہ داری قبول کرنے والے پیغامات کی روایت کیا اِس جانب اشارہ نہیں کررہی کہ وہ ہماری سرزمین پر ہی پنپ رہے ہیں؟

درجنوں شہداء کے خون سے لعل شہباز قلندر کی درگاہ سرخ ہوگئی، اِس خون کا بدلہ لیں یا نہ لیں، زندہ افراد کی زندگی کو محفوظ بنانے میں مزید تاخیر سے کام نہ لیا جائے۔ کیا اِس وقت یہ کہنا ٹھیک نہیں ہوگا کہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا شکریہ ادا کرنے کا صحیح وقت ابھی نہیں آیا تھا۔ قوم کو اُن کی مضبوط قیادت پر پورا بھروسہ تھا۔ توقع ہے کہ موجودہ عسکری قیادت اور حکمراں جماعت بروقت درست فیصلے لے۔ قوم نیشنل ایکشن پلان کی اصطلاح سے صرف اس لئے واقف ہے کیونکہ امن کی جانب واحد حل اسی پلان میں پوشیدہ ہے۔

دسمبر 2014 سے 14 فروری 2017 تک بے شمار کارروائیاں کی گئیں، لیکن اثرات ندارد ہیں، کیا مجرمان کے خلاف موثر کارروائی میں نادیدہ رکاوٹیں کھڑی ہیں؟ ملک میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کا معاملہ تعطل کا شکار کیوں ہے؟

ماسکو کانفرنس میں شریک پاکستان، افغانستان میں امن کے قیام کی کوشوں میں پیش پیش ہے، جبکہ خود لہو لہو ہے۔ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف مسلسل استعمال ہورہی ہے، بھارت اور افغانستان کی بڑھتی ہوئی قربتیں بھی نظر انداز کرنے کے قابل ہرگز نہیں۔ خطے میں امن کے خواہش مند ملک کی اپنی خارجہ پالیسی ناکام کیوں نظر آرہی ہے؟ حالیہ دہشت گردی کے پیشِ نظر ملک کے تمام مزارات کو بند کرکے وہاں سیکورٹی بڑھادی گئی جبکہ پاک افغان سرحد کو فوری طور پر بند کردیا گیا۔ دہشت گردوں کو چھوٹ ملتی رہی اور 11 برسوں کے دوران کراچی، لاہور اور پشاور کے مزارات پر حملے ہوتے رہے، جن میں عبداللہ شاہ غازی اور بری امام کے مزارات بھی شامل ہیں۔

ملک کی عوام دہشت گروں کے لیے مسلسل آسان ہدف بنی ہوئی ہے۔ دسمبر 2014ء سے اب تک تعلیمی ادارے، اسپتال، تفریح گاہیں اور مذہبی اجتماعات کو بخشا نہیں جارہا۔ انتہا پسندی کے خلاف سیاسی جماعتیں متحد ہیں تو حکومت اور اعلیٰ عسکری قیادت اکھٹی کیوں نہیں؟ آج ملک سوگ کی کیفیت میں ڈوبا ہوا ہے، یہ کیفیت حکمرانوں کے محض تعزیتی بیانات، تفتیش اور تحقیقاتی کمیٹی سے نہیں بدلے گی۔ ملک کو اگر تا دیر امن کا گہوارہ بنانا ہے تو انتہا پسندی کے خلاف آپریشن کے اثرات کو زائل ہونے سے بچانا ہوگا۔ مٹھی بھر عناصر سے ’’آہنی‘‘ ضرب عضب کے ذریعے نمٹنا ہوگا۔ سانحہ سیہون نے اگر ہماری ذمہ دار اور بااختیار قیادت کی روحوں کو نہ جھنجھوڑا تو، ایسی سرکار کی بے حسی پر افسوس نہیں بلکہ شرم کا مقام ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
ثروت خان

ثروت خان

ثروت خان صحافی، کاپی رائٹر اور بلاگر ہیں، معاشرے کے مختلف مسائل ان کا موضوع تحریر ہیں۔ ٹوئٹر آپ ان سے whysarwat@ پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔