دہشت گردوں کو بخشنا خودکشی ہے

ایڈیٹوریل  ہفتہ 18 فروری 2017

سندھ کے علاقے سیہون شریف میں واقع درگاہ حضرت لعل شہباز قلندر میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں 72 افراد شہید جب کہ 250 سے زائد زخمی ہو گئے، جن میں سے بیشتر کی حالت تشویشناک ہے۔ دھماکا زائرین کے دھمال کے دوران ہوا، جمعرات کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد درگاہ کے اندر موجود تھی، خودکش بمبار کو کسی پر رحم نہ آیا، شہید اور زخمی ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

یاد رہے ایک ہفتہ سے بھی کم مدت میں دہشتگردی کی متعدد ہولناک وارداتوں نے صدمہ سے دوچار اہل وطن کے اعصاب نہ صرف جھنجوڑ کر رکھ دیئے ہیں بلکہ سندھ حکومت کے ارباب اختیار کو بھی دہشتگردی کی نئی لہر سے نمٹنے کی ناتدبیری کا ذمے دار ٹھہرایا ہے، حکام کو ٹی وی چینلز پر دکھی اور غمزدہ لواحقین کے احتجاج اور بے بسی کی تصویروں سے عبرت حاصل کرنی چاہیے، پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف علی زرداری سانحہ کا سنتے ہی ہنگامی طور پر کراچی پہنچے، اب وہ سندھ حکومت سے سکیورٹی لغزشوں کے اسباب دریافت کریں، ان سے پوچھیں کہ جمعرات کو اس قدر رش کے باوجود سکیورٹی کیوں ندارد تھی، کئی اموات زخمیوں کے بروقت اسپتال نہ پہنچنے کے باعث واقع ہوئیں۔

کیا قیامت کا منظر تھا کہ بے بس لوگ ایک صوفی برگ کی درگاہ پر ایمبولینسز کے منتظر رہے، سیہون شریف کی تحصیل نے تین وزرائے اعلیٰ دیئے مگر کوئی قابل ذکر اسپتال اور درگاہ کی ہمہ جہتی سکیورٹی کی کسی کو فکر ہی نہیں تھی۔ انفرااسٹرکچر غائب، تنگ گلیاں، جن سے گاڑیوں کو لاشیں لے جانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، عجیب دردناک افراتفری دیکھی گئی۔ ان ہی افسوسناک کوتاہیوں پر ذمے داران کی سرزنش ہونی چاہیے۔ وفاق بلا تاخیر راست اقدام کے لیے صف بندی کرے۔ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ ملک میں دہشتگردی کے خلاف کامیاب ضرب عضب آپریشن کے دوران عیار دشمن نے معنی خیز خاموشی اختیار کی تھی اور موقع ملتے ہی اہل وطن کے قتل عام کے لیے سرگرم ہو گیا، اس لیے شہدا کے خون کا تقاضا ہے کہ بربریت و انسان دشمنی کی سنگین وارداتوں پر کمربستہ دہشتگردوں سے اب ان کی ہی زبان میں بات ہونی چاہیے، یہ لاتوں کے بھوت سفارتی رابطوں، معاہدوں، کثیرالقومی مذاکرات اور جرگوں کے فیصلوں میں وقت کے ضیاع کا باعث بنتے رہے ہیں، اب انھیں سبق سکھانے کا وقت آ پہنچا ہے، مگر اس جوابی ’’وار‘‘ کو مکمل سیاسی، عسکری و قومی امنگوں اور نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کی حقیقی روح کے وسیع تر تناظر میں نتیجہ خیز بنایا جائے۔

حکمرانوں اور سکیورٹی حکام کو وقت کی نزاکت کا احساس دلانے کی چندان ضرورت نہیں، وہ بہتر جانتے ہیں کہ اس وقت قوم حالت جنگ میں ہے اور جب دشمن ہم وطنوں کو بے دریغ بہیمانہ موت سے ہمکنار کر رہا ہے تو اسے بخشنا اور مہلت دینا خودکشی ہے۔ ادھر ڈی آئی خان اور آواران میں دہشتگردوں کے حملے میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 8 افراد شہید ہو گئے، ڈیرہ اسماعیل خان میں تھانہ کینٹ کی حدود میں ٹاؤن پولیس کی موبائل وین پر موٹرسائیکل سوار 4 نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے اے ایس آئی اور 3پولیس کانسٹیبلز سمیت 5 افراد شہید ہو گئے۔

لاہور سانحہ کے فوری بعد سیہون شریف میں درگاہ لعل شہباز قلندر پر حملہ دراصل پاکستان پر حملہ ہے، پاکستانی قوم کے عزم و حوصلہ کو چیلنج کرنے اور اپنے شیطانی ایجنڈہ کی تکمیل کے لیے خطے کو آگ اور خون میں ڈبونے کے لیے راہ ہموار کرنا ہے، ایک بھاری بھرکم بے منزل بے نام بمبار سلیمانی ٹوپی پہن کر آتا ہے اور بلا روک ٹوک تمام سکیورٹی تصورات، اقدامات اور دعوؤں کو روندتا ہوا اپنے ہدف کو پا لیتا ہے اور ملکی سلامتی اور شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لیے کیے گئے انتظامات کا پول کھول دیتا ہے، اس ناکامی پر کسی قسم کی لاحاصل بحث و مباحثہ کی ضرورت نہیں، ملک پر ’’مونسٹرز اور زومبیز‘‘ نے حملے شروع کیے ہیں، ان حملوں کا جواب موثر طریقے سے دیا جانا چاہیے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ قوم کے خون کے ایک ایک قطرے کا فوری حساب اور بدلہ لیں گے اور اب کسی سے کوئی رعایت نہیں ہوگی۔

انھوں نے قوم سے اپیل کی کہ وہ پرسکون رہے، آپ کی فوج دشمن قوتوں کو کامیاب نہیں ہونے دیگی، ہم اپنی قوم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ علاوہ ازیں جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ دشمن ایجنسیاں علاقائی امن و استحکام سے کھیلنا بند کر دیں، ہم موجود تحمل کی پالیسی کے باوجود جواب دے سکتے ہیں، افغانستان میں دہشتگرد محفوظ پناہ گاہوں میں دوبارہ منظم ہونے اور ہمارے معاشرے میں مایوسی اور بے یقینی پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے درگاہ لعل شہباز قلندرؒ پر خودکش حملے کے بعد ٹویٹر پیغام میں کہا کہ دہشتگردی کی کارروائیوں کی ہدایات بھی افغانستان سے آ رہی ہیں۔ سیہون شریف دھماکے کے بعد طورخم پر پاک افغان سرحد بند کر دی گئی ہے۔ سیکیورٹی حکام نے سرحد کو ہر قسم کی تجارتی اور عام آمدورفت کے لیے بند کیا۔ علاوہ ازیں افغانستان کے ساتھ چمن بارڈر کو بھی غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ دور دراز علاقوں کے راستے سے سرحد عبور کرنیوالے مشکوک افراد کو گولی مارنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے واقعہ کی سخت مذمت کرتے ہوئے آئی جی پولیس سے فوری رپورٹ طلب کی ہے جب کہ اس سانحہ کے افسوس میں صوبہ بھر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے، وزیراعلیٰ ہاؤس میں ایمرجنسی سیل قائم کر دیا گیا ہے جب کہ وزیراعلیٰ سندھ، آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی کے ہمراہ سیہون شریف روانہ ہوئے، حکومت سندھ نے شدید زخمیوں کو کراچی منتقل کرنے کے احکام جاری کر دیے، آئی ایس پی آر کے مطابق نیول چیف نے بھی کراچی میں نیوی کے تمام اسپتالوں میں ہائی الرٹ جاری کر دیا اور یہ اسپتال ہیلی کاپٹروں سے منتقل ہونے والے زخمیوں کے علاج کے لیے تیار ہیں۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ نے خودکش حملے کی ابتدائی رپورٹ تیار کر لی ہے۔

ذرائع کے مطابق دھماکا خودکش تھا۔ دھماکے میں آٹھ سے دس کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا، بارود کے ساتھ نٹ بولٹ کا بھی استعمال کیا گیا۔ دھماکا شام 7 بجے کے قریب اس وقت ہوا جب احاطے میں زائرین بڑی تعداد میں دھمال ڈال رہے تھے، دھماکے کے بعد احاطے میں آگ لگ گئی، ہر طرف لاشیں اور انسانی اعضا بکھر گئے، جمعرات کو مزار پر عموماً معمول سے زیادہ رش ہوتا ہے، دھماکا ہوتے ہی بھگدڑ مچ گئی، متعدد افراد پیروں تلے دب کر کچلے گئے، مزار کے بعض حصوں کو بھی نقصان پہنچا۔ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے ایک ٹی وی سے گفتگو میں خودکش دھماکے میں 72 افراد کی شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ دھماکا مزار کے اندر ہوا، خودکش حملہ آور درگاہ کے گولڈن گیٹ سے داخل ہوا، دھماکے کے بعد مزار کے احاطے کو عوام کے لیے بند کر دیا گیا اور پولیس اور امدادی کارکنوں نے موقع پر پہنچ کر امدادی کارروائیاں شروع کر دیں، دادو، حیدرآباد اور جامشورو کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے، جہاں زخمیوں کو منتقل کیا گیا، جب کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ہدایات پر امدادی سرگرمیوں کے لیے پاک فوج، رینجرز اور میڈیکل ٹیمیں سیہون بھجوا دی گئیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کے ٹویٹ کے مطابق آرمی چیف کی ہدایت پر فوری طور پر پاک فوج، رینجرز اور میڈیکل ٹیمیں جائے حادثہ پر بھجوا دی گئیں ہیں جو امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں، آرمی چیف کی ہدایات پر سی ایم ایچ حیدرآباد میں بھی زخمیوں کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں، زخمیوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، پولیس کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق دھماکے میں 30 کلوگرام بارودی مواد استعمال کیا گیا، پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ اور ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی نے درگاہ حضرت لعل شہباز قلندر سہیون شریف پر حملے کو انسانیت پر حملہ قرار دیا ہے، اپنے بیان میں پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ نے مقامی ہندوؤں سے فوری طور پر زخمیوں کو خون دینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ درگاہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے قابلِ احترام ہے اور صدیوں سے امن و آشتی کی علامت کے طور پر جانی جاتی ہے۔سیہون شریف میں جن کے مزار پر دہشتگرد حملہ ہوا وہ سخی لعل شہباز قلندر کے نام سے مشہور ہیں۔

ان کا اصل نام سید عثمان مروندی تھا جو سندھ میں مدفون ایک مشہور صوفی بزرگ تھے۔ ان کے شاگردوں میں مخدوم بلاول، شاہ لطیف بھٹائی اور سچل سرمست شامل تھے۔ شیخ عثمان مروندی اکثر سرخ لباس زیب تن کیے رکھتے تھے، جس کی وجہ سے ان کا نام لال شہباز قلندر پڑ گیا۔ ان کا مزار سندھ کے علاقے سیہون شریف میں ہے۔ وہ ایک مشہور صوفی بزرگ، شاعر، فلسفی اور قلندر تھے۔ ان کا تعلق صوفی سلسلہ سہروردیہ سے تھا۔ ان کا زمانہ اولیائے کرام کا زمانہ مشہور ہے۔ مشہور بزرگ شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی، شیخ فرید الدین گنج شکر، شمس تبریزی، جلال الدین رومی اور سید جلال الدین سرخ بخاری ان کے قریباً ہم عصر تھے۔ حضرت شیخ عثمان مروندی المعروف لال شہباز قلندرؒ کا 571 واں عرس مبارک ہر برس شعبان کی 18 تاریخ سے سیہون شریف میں ہوتا ہے، جس میں 5 لاکھ سے زیادہ لوگ ہر سال شریک ہوتے ہیں۔ یہ عرس مبارک پاکستان بھر میں قلندری صوفی سلسلے سے وابستہ درویشوں اور فقیروں کے باہم میل ملاقات کا سبب بھی بنتا ہے۔

حضرت شیخ عثمان مروندی کے آباؤ اجداد بغداد سے ہجرت کر کے افغانستان کے علاقے مروند میں آباد ہوئے تھے اور ان کے والد محترم شیخ کبیرالدین سلسلہ سہروردیہ کے مشائخ میں شمار ہوتے تھے۔ خود حضرت شیخ عثمان مروندی بھی سلسلہ سہروردیہ سے وابستہ تھے۔ شیخ عثمان مروندی شہباز قلندرؒ1196 کے آس پاس افغانستان سے پاکستان آئے۔بہرحال دہشتگردوں نے ایک بار ریاستی رٹ اور سیکیورٹی کے نظام کو سبوتاژ کیا ہے، یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ بمبار مرد تھا یا عورت، یہ مخمصے جاری رہے تو دہشتگردوں کو مزید شہ ملے گی، فرانز فینن کا قول ہے کہ مختلف مائنڈسیٹ کی طرف سے پیداشدہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بھی مختلف مائنڈسیٹ لازمی ہے۔

ملکی بقا اور جمہوری عمل و سماجی شیرازہ بندی کو تتر بتر کرنے کا چیلنج دینے والی باطل قوتوں نے انسانیت کے خلاف سنگین جرم کا ارتکاب اور بیگناہوں کو قتل کیا ہے، اسلام کے انسان دوستی اور امن پسندی کے آفاقی پیغام کو مسخ کرتے ہوئے اپنے ناپاک عزائم ظاہر کر دیئے ہیں، لہٰذا حالت جنگ کا تقاضہ ہے کہ دشمن کو تنہا اور نہتا کیا جائے۔ مرگ انبوہ جشنے دارد کا منظرنامہ اب بدلا جائے، ازسر نو دہشتگردوں کا تعاقب کیا جائے اور اس حوالے سے ہمسایہ ممالک کے ساتھ موثر رابطہ کاری کی جائے تاکہ دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔