لفظوں کی خالی قبریں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 18 فروری 2017

دوہزار چارسوسال گذرچکے ہیں، ہم آج بھی سقراط کے بے ڈول پیکرکو چشم تخیل سے دیکھ سکتے ہیں۔ وہ ہی لبادہ جس پر شکن پڑی ہوئی ہیں وہی خراماں،خراماں چلنے کا انداز منڈی میں سے گذر رہا ہے۔ سیاسیات کی ہاؤ ہو سے بالکل غیرمتاثر اپنے علمی شکاروں کو روک رہا ہے نوجوانوں کو اورعالموں کو جمع کررہا ہے، یہاں تک کہ انہیں بہلا پھسلا کر معبدکے برآمدوں کے کسی سایہ دار گوشے میں لے آتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ ہاں فرمایے تو سہی کہ آپ کامطلب کیاہے جو اصطلاحات آپ استعمال کرتے ہیں ان کی تعریف توکیجیے۔

وہ کہتا تھا کہ بحث وگفتگو کے بغیر زندگی انسان کے لیے بے معنیٰ ہے، چنانچہ اس کا شغل یہ ہی تھاکہ روح انسانی میں جھانک کر دیکھے، مفروضات کو بے نقاب کرے اور مسلمات کو معرض بحث میں لائے اگر اشخاص عدل کے متعلق بڑھ چڑھ کر باتیں بناتے بن سوچے تو وہ بڑے آرام سے ان سے پوچھتا ’’انصاف کیاہے ‘‘ ان مجرد الفاظ سے تم کیا مراد لیتے ہو، جن کے ذریعے تم یوں آسانی سے زندگی اور موت کے مسائل حل کر لیتے ہو عزت، نیکی،اخلاق ، حب الوطنی کے کیا معنیٰ ہیں تم اپنی ذات سے کیا مراد لیتے ہو خیر یا نیکی کیا ہے؟ بہترین مملکت کیسی ہوتی ہے؟

آج جب میں پاکستان میں جہالت کو وحشیانہ رقص کرتے ہوئے دیکھتا ہوں جب میں لوگوں کو ان کا مطلب جاننے بغیر الفاظ کا بے رحمانہ استعمال کرتے ہوئے سنتا ہوں جب میں لوگوں کے ہاتھوں خیر، نیکی،ایمانداری، دیانت داری کا قتل عام اپنی ننگی آنکھوں سے دیکھتا ہوں، جب میں قول وفعل کے در میان لاکھوں میل کا خلا دیکھتاہوں تو میری آوارہ آنکھیں چاروں طرف سقراط کو ڈھونڈتی پھرتی ہیں کہ خداراکہیں سے سقراط آجائے اور ان عقل کے اندھوں کو بہلا پھسلا کر کسی سایہ دار گو شے میں لے جائے اور انہیں الفاظ کے اصل معنی سے آشنا کردے ان کے ذہنوں کے سیاہ اندھیروں میں روشنی کے دیے روشن کردے۔

ہم 70سالوں سے بھٹکتے پھررہے ہیں اندھیروں سے سر پھوڑتے پھررہے ہیں کسی کو اپنی منزل کا پتہ نہیں ہمارا سماج بوڑھا،لاغر ہوکر مرنے کے قریب ہے کسی کو اس کی فکر نہیں لفظ دھڑا دھڑمر رہے ہیں، سسک رہے ہیں جو زندہ باقی رہ گئے ہیں انہیں کوڑھ کا مرض لاحق ہوچکا ہے جن سے ڈر کر لوگ ان سے دور بھاگ رہے ہیں۔اسی لیے اب ہمارے سماج میں انسان کم اورگدھ زیادہ بستے ہیں جو انسانوں کے ساتھ ساتھ الفاظ کو بھی نوچ نوچ کرکھا گئے ہیں۔ اب چاروں طرف انسانوں اورالفاظ کی ننگی ہڈیاں بکھری پڑی ہیں۔ اب ہمارے سماج میں انسانوں کی دو قسم باقی رہ گئی ہیں۔

ایک قسم وہ ہے جن کے پاس طاقت، اختیار، آزادی، خوشحالی، روپے پیسوں کے ڈھیر،جاگیریں، ملیں، ہیرے جواہرات کے ڈھیرکے ڈھیر ہیں جنہیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری کا کیا مطلب ہے۔ اپنے جسم کے اعضا بیچنے، سارا سارادن رات بجلی،گیس، پانی کاانتظارکرتے رہنا، پبلک ٹرانسپورٹ میں ذلیل وخوار ہونا ہیپا ٹائٹس بی اور سی کے جراثیموں والا پانی پینا غلیظ گھروں اورگلیوں میں رہنا کچروں اورگندگیوں کے ڈھیر پر کام کرنے کے کیا معنیٰ ہیں۔ کرپشن، لوٹ مار،دوسروں کا حق کھانا، بھتہ خوری قبضے، کمیشن کھانا نیکی میں شامل ہے یا بدی میں ۔ غلیظ شان وشو کت، دیمک زدہ جراثیم آلودہ عیش وعشرت ، جھوٹے پرو ٹوکول، عام انسانوں کو ذلیل کرنا انہیں گالیاں دینے کے عام انسانوں پرکیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔

یاد رہے یہ چیزیں اور یہ باتیں انسان کے اندر وہ زخم پیداکردیتی ہیں جو اسے کبھی چین نہیں لینے دیتے ہیں اوروہ زخم اس وقت تک روتے رہیں گے جبتک ان کے پیدا کرنے والے برباد اور ذلیل و خوار نہیں ہوجاتے اوردوسری قسم ان انسانوں کی ہے جن کے لیے نیکی، خیر،ایمانداری، شرافت، دیانتداری، لحاظ،اخلاق ،احساس یہ سب الفاظ اب ان کے لیے بھوت بن گئے ہیں یہ بھوت سارا دن اور ساری رات ان کے اندر بھونکتے رہتے ہیں یہ انہیں جتنا چپ کرانے کی کو شش کرتے ہیں وہ اور زیادہ بھونکنا شروع کردیتے ہیں کیونکہ الفاظ کی بھی عزت ہوتی ہے جہاں ان کی بے حرمتی ہورہی ہوتی ہے تو وہ بھی انتقام لیتے ہیں پھر وہ کسی کوبھی چین سے رہنے نہیں دیتے ہیں۔ اسی لیے دونوں ہی اقسام ذلیل وخوار ، بے چین اور پریشان ہیں کیونکہ لفظ کبھی معاف نہیں کرتے اور تیزاب بن جاتے ہیں جو سب کو تھوڑا تھوڑا کرکے نگلتے رہتے ہیں، انہیں گلاتے رہتے ہیں ۔

آپ ایک چھوٹا سا تجربہ کرکے دیکھ لیں، ایسا کریں آپ 20کروڑ انسانوں میں سے کسی کی بھی آنکھوں میں جھانک کر دیکھ لیں جب آپ اس کی آنکھوں میں جھانک رہے ہوں گے تو آپ کو ان آنکھوں میںابلتے تیزاب کا ایک شوردکھائی دے گا اور جب آپ گھبرا کر اس کے ہونٹوں کی طرف دیکھیں گے تو خشک اور پاپڑی جمے ہونٹوں کی خاموشی کی چیخیں آپ کا دل دہلا دیں گی اور آپ دہشت زدہ ہوکر اس سے دوسری سمت میں بھاگنا شروع کردیںگے، جب آپ بھاگتے بھاگتے تھک جائیں گے اور آپ رک کر ہانپتے ہوئے زور زور سے سانس لے رہے ہوں گے تب بھی ان آنکھوں میں تیزاب کا شور اور ہونٹوں کی خاموشی کی چیخیں تمہارے کانوں میں اب بھی گونج رہی ہوںگی ۔ آپ کہیں بھی چلے جاؤ ان آوازوں سے کبھی پیچھا نہیں چھڑا پاؤگے ۔

جب کسی طاقتورکو اس کے جر م کی سزا نہیں دی جاتی تو وہ سزا پورے سماج میں تقسیم ہوجاتی ہے، چونکہ ہمارے سماج میں الفاظ کو ذلیل ورسوا کرنے والوں کوکبھی سزا نہیں دی گئی ہے۔اس لیے ان کی سزا پورے سماج میں تقسیم ہوگئی ہے اور ہم سب اپنے اپنے حصے کی سزاکاٹ رہے ہیں۔اس لیے ایسی تباہی جسے صرف انسان شروع کرسکتا ہے۔

انسا ن ہی اس کوروک سکتاہے، اس جیسا اورکوئی حکم خداوندی نہیں جو انجیل میں بار بار آیا ہو’’ہمارا فرض ہے کہ ہم عطا ہونے والی اچھائیوں کو اور دکھ دینے والی برائیوں دونوں کو یاد رکھیں۔‘‘ بلاشبہ ہم ماضی اور حال کو بھلانے کی کوشش کرسکتے ہیں کیونکہ نہیں کیا یہ انسان کے لیے فطری نہیں کہ جو کچھ اس کو دکھ پہنچائے یا شرمندہ کرے وہ اس کو دبائے ، لیکن تاریخ میں پہلی بار ایسا ہورہا ہے کہ ہم اپنے مردوں کو دفن نہیں کر پارہے ہیں مگر ان کی قبریں ہمارے اندرموجود ہیں۔کوئی بھی اس انسان کی اذیت اور تکلیف کا احساس کر ہی نہیں سکتا ہے جو اپنے اندرخالی قبریں لیے لیے پھر رہا ہو۔ہم سب اپنے سماج کے مرے ہوئے الفاظ کی خالی قبریں لیے لیے پھررہے ہیں ہم سے زیادہ دنیا بھرمیں کوئی اورتکلیف اور اذیت میں ہو ہی نہیں سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔