لہو میں لت لعل قلندر

جاوید قاضی  ہفتہ 18 فروری 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

وہ سب میرے سامنے کھڑے ہیں، بھٹائی، قلندر، سچل، سامی۔ وہ سب میرے سامنے پڑے ہیں، لہو میں لت پت، دھمال، رقص، چمٹے، گھنگھرو، عقیقوں کی انگوٹھیاں، عقیقوں کے ہار، کڑے، قلندر کے فقیروں کے لال کرتے، لال لہو میں لت پت، کسی معصوم بچے کا ہاتھ اس سے بچھڑا ہوا، گردنیں جسم سے جدا، اتنا لہو، اتنا لہو کہ لعل قلندر کی لالی ماند پڑ گئی۔ سرنگوں شام ہوگئی کربلا کی طرح۔ وہ میرے سامنے کھڑے تھے بھٹائی، قلندر، سخی شہباز، ایاز، سچل، سامی، جی ایم سید، حیدر بخش جتوئی، صوفی شاہ عنایت، مخدوم بلاول، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر، مائی بختاور، ہوشو شیدی، سب میرے سامنے کھڑے تھے، پوچھ رہے تھے، یہ لالی کس کی ہے، یہ لالی وہ تو نہیں جو لعل قلندر نے کہی تھی، سنی تھی اور سنائی تھی۔ یہ لالی انقلاب کی بھی نہیں ہے، یہ لالی وہ بھی نہیں ہے، جو کبیرؔ کہتے ہیں

لالی میرے لعل کی جِت دیکھوں تِت لال
لالی دیکھن میں گئی، میں بھی ہوگئی لال

یہ کس کا لہو تھا پھر؟ یہ کون تھے پھر؟ کہاں سے آئے تھے؟ کس قصور کی سزا ان کو ملی؟ میں نے کہا، میرے بھٹائی، میرے لعل قلندر، میرے سچل، میرے سامی، وہ مست تھے اور دھمال ان کا وہ قصور تھا جو لہو کی پچکاریوں میں پیوست ہے، وہ ناچتے تھے رومی کی طرح، چرخہ بن کر چلتے تھے، ان کی گردنوں میں کڑے ہوتے تھے، ہاتھوں میں کڑے اور بہت ساری انگوٹھیاں پہنتے تھے، پتھروں کی انگوٹھیاں۔ وہ جب گھنگھرو پہن کر ناچتے تھے تو ہونٹوں سے دم دم کہتے تھے، حق حق، دمادم، کہ جیسے طنبورے کی تان ہو۔ ان کے سینے جدائی سے پارہ پارہ تھے۔

ان کی آنکھیں محبوب کے خیال سے ریزہ ریزہ تھیں۔ یہ تھا ان کا قصور، یہ تھا ان کا خیال، ان کا رویہ، ان کا چولی و دامن اور ان کا سب کچھ، جس کی ان کو سزا ملی۔ وہ سزا اور جزا کے سارے استعاروں سے بھی بڑے تھے۔ وہ ہونے اور نہ ہونے کے زیاں و سود سے بھی بڑے تھے۔ وہ تھے نا تمہارے، قلندر تمہارے نام کی لال چولیاں پہن کر جھولے لعل تھے۔ تمہارے آشرم میں ان کو پناہ ملی تھی۔ ان کے دھمال پر ہزاروں زائرین آتے تھے۔ وہ قلندر تمہارے مداح تھے۔ ایک طرف مست تھے اور دوسری طرف مداح۔ ہر جمعرات کی شام جب دھمال ہوتا تھا، تو یوں کہو کہ پورا سندھ تمہارے محور پر چلتا تھا، قلندر سب کچھ لٹ گیا کہ جیسے کوئی قافلہ تھا بے پرواہ، بے فکر قافلہ، جسے کچھ بھی خبر نہ تھی کہ اب کی بار یہ رسم نہیں ہے کہ بے فکر رہو، اور پھر ڈاکوؤں نے اسی قافلے کو لوٹ لیا۔

وہ قافلہ قلندر تمہارے نام سے تھا، وہ قافلہ جس میں بچے، بوڑھے، بیوائیں، مرد و زن، طرح طرح کے مذاہب، طرح طرح کے فرقے کے لوگ تھے، طرح طرح کی سوچیں تھیں، خیال تھے ان کے، بس وہ پیار کرتے تھے، وہ پیار ہی جیسے ان کا سب سے عظیم مذہب تھا۔ تبھی تو تھے لعل، کہ قلندر تم خود بھی لعل تھے۔ آج سندھیوں کا جیسے سب کچھ لٹ گیا ہو، سب کچھ پھوٹ گیا۔ میں ان سندھیوں کو بہت جانتا ہوں، ان کی رگوں پر میرے ہاتھ ہیں کہ جیسے میں ان کا عکس ہوں اور وہ میرا عکس ہیں۔ ہزاروں سال کی تاریخ ہے اتنی قدیم کہ شاید ہی کوئی اور ہو۔ رومی کہتے ہیں۔’’وہ ہند ہے خدا کی عبادت کرتے ہیں مگر اپنے طریقے سے… وہ سندھ ہے خدا کی عبادت کرتے ہیں مگر اپنے طریقے سے… خدا سب کا ایک ہے مگر طریقے الگ الگ ہیں… جس طرح راستے بہت ہوتے ہیں اور منزل ایک۔‘‘

سندھ، پاکستان سے بھی پہلے تھا، ہندوستان سے بھی پہلے، وادی مہران میں طرح طرح کے مذاہب آئے، جین، بدھ، ہندو، عیسائی، سکھ، یہودی، مسلمان۔ ہزاروں سال کی تاریخ ہے اس کی۔ کبھی مذہب کے نام پر جنگ نہ ہوئی، مگر منزل مسجد گاہ سے جو ابتدا ہوئی ہے، اس کی کڑیوں سے جو کڑی اب بنی ہے وہ قلندر کی درگاہ ہے۔ ہمارے بڑوں کی ساری مزدوریاں و محنتیں، محبتوں کے لیے تھیں، امن و بھائی چارے کے لیے تھیں، ان کا ہدف ملا اور قاضی ہوا کرتے تھے، جن کو وہ فتنہ گر کہتے تھے۔ ان کا پیغام یہی تھا جو رومی کا تھا۔

فارسی سندھ کے پڑوس میں رہتے تھے، فارسی میں رومی، فرید الدین عطار، جامی، حافظ، خیام موجود تھے۔ یہ قلندر تھا، بھٹائی تھا، سچل تھا، سامی تھا، بلھا تھا، باہو تھا، کبیر، میرابائی۔ صدیوں کا یہ سفر تھا۔ یہ قافلہ ایک رات میں نہیں بنا تھا، جو کل سیہون شریف کے احاطے میں قلندر شہباز کے آنگن میں، جب ’’نعرہ مستانہ‘‘ فلک شگاف نعروں کے ساتھ دھمال میں محوِ خیال مست تھا، اَلوٹ تھا، تو ڈاکوؤں نے بالکل عین اس وقت انھیں لوٹ لیا۔یہ تو حقیقت کا ایک پہلو ہے، دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ جاگیرداروں، وڈیروں، طرم خانوں، نوابوں کا سندھ ہے، جہاں آج کل ہیپاٹائٹس کا ڈیرہ ہے، اسکول بند، اسپتالیں بند اور سب نواب، وڈیرے مال غنیمت پر پلتے ہیں۔

ان کو کوئی فکر نہیں ہے کہ رعایا مرے یا جیے، سب کو پتا تھا کہ جب وہ پیر شاہ نورانی کی درگاہ گئے تھے ’’ہنگلاج‘‘ اسی قافلے کو لوٹنے کے لیے، تو ہوش کے ناخن اسی وقت لے لینے تھے، کہ اب کی بار وہ قلندر کو آئیں گے۔ مگر یہ پیروں، وڈیروں کا سندھ پھر بھی سوتا رہا۔ ہاں مگر اگر زرداری کو قلندر جانا ہو تو سب کے سب جاگ پڑتے ہیں۔ اس کے جانے کے بعد ہفتہ پہلے قلندر کے مزار کی ہر دیوار اور چپہ چپہ چھانتے ہیں، ٹٹولتے ہیں۔ سیکڑوں کی تعداد میں پولیس کھڑی رہتی ہے، اتنی چوکس کہ جیسے سرحدوں پر کھڑی ہو۔ اور جیسے ہی صاحب نے حاضری دی تو پھر یہ آپ کو ان کی اگلی حاضری پر ملیں گے۔

سیکیورٹی کے سارے سسٹم حسبِ معمول خراب تھے۔ کاغذوں پر کل ملا کر 80 پولیس والے مزار کی سیکیورٹی کے لیے تعینات تھے، مگر حقیقت میں موجود آٹھ تھے، جِن کو یہ بھی پتا نہیں تھا پتلون کہاں پہنتے ہیں اور قمیض کہاں۔ قلندر کے مستوں کے پیٹ اندر ان کے پیٹ باہر۔ وہ حسبِ عادت مزار کی سیکیورٹی کم اور چائے کے ٹھیلوں کی زیادہ کرتے تھے اور خیرات کی بریانی کی دیگوں پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ اس پر ایک اور ستم مراد علی شاہ کے اس شہر میں ایمرجنسی ایمبولینسز ہی نہیں۔ کوئی پرسان حال سرکاری سطح پر نہ تھا، نہ ادویات تھیں، نہ آپریشن تھیٹر تھے، نہ کوئی اور سامان۔ لوگ اپنے پیاروں کو اسکوٹروں، تانگوں اور چنگچیوں پر اسپتال لے گئے۔

اسی طرح کا منظر تھا جب شکارپور کی امام بارگاہ پر حملہ ہوا تھا، سیکڑوں لوگ مارے گئے، ان کو بھی گدھا گاڑیوں پر اسپتال پہنچایا گیا تھا۔ میرا کامل یقین ہے کہ ان میں سے آدھے لوگ زندگی سے محروم نہ ہوتے اگر سیہون کے اسپتال فنکشنل ہوتے۔ان مزاروں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ اپنے انداز کے آشرم ہوتے ہیں۔ یتیموں، بیواؤں اور ذہنی معذور لوگوں کی پناہ گاہ ہوتے ہیں۔ ایک ایسی مملکت خداداد میں پیروں، وڈیروں کے سندھ میں جہاں ذہنی مریضوں کے اسپتال، نہ بیواؤں، یتیموں کے لیے سرکاری سطح پر پناہ گاہیں، وہاں پر سچل، سامی اور بھٹائی اور قلندر کے مزار اپنے لوگوں کو اپنے وجود میں پناہ دیتے ہیں۔مجھے جانا ہوگا اپنی آرام گاہ سے نکل کر قلندر کے پاس، اپنے سارے سکون کو توڑ کر، اپنے خاندان کے خوابوں کو چھوڑ کر، مفاد عامہ کے لیے، جس کے نام پر قلندر، بھٹائی، سچل، سامی، ٹریسا، ایدھی نے اپنی زندگی وقف کردی۔ آئیے کہ قلندر بنیے، قلندر کے نام کے سب لال پیراہن پہنیے کہ اس کے رنگ کی لالی لہو کی لالی سے اونچی ہو۔

خیر ہو تیری لیلاؤں کی، ان سب سے کہہ دو
آج کی شب جب دیے جلائیں اونچی رکھیں لو
(فیض)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔