کینیڈا کے اصل باشندے خودکشی پر مجبور

تزئین حسن  اتوار 19 فروری 2017
ان واقعات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو نا جائز قرار دے کر عیسائی راہبائیں مختلف طریقوں سے مار ڈالتی تھیں۔ فوٹو : فائل

ان واقعات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو نا جائز قرار دے کر عیسائی راہبائیں مختلف طریقوں سے مار ڈالتی تھیں۔ فوٹو : فائل

تیرہ سالہ ’شیرڈن ہوکیمو‘ دنیا کے امیر ترین ملک کینیڈا کی رہا ئشی تھی مگر اس نے اپنی غربت اور بیماری سے تنگ آ کر خود کشی کر لی۔ اہم بات یہ ہے کہ خود کشی کی کوشش کرنے والی وہ تنہا نہ تھی۔

کینیڈا کے مقامی اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے مطابق ستمبر 2015ء سے اپریل2016ء  تک سات مہینے کے عرصہ میں، 2000 نفوس پر مشتمل اس قبیلے کے پانچ فیصد افراد یعنی101 افراد اپنی معاشی کسمپرسی اور ذہنی بیماریوں کے با عث خود کشی کی کوشش کر چکے ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ 2006 ء سے دنیا میں ہیروں کی سب سے بڑی کاروباری کمپنی ’ڈی بیئرز‘ شیرڈن کے قبیلے ’اٹاواسپکاٹ‘ کی زمین سے ہیرے نکالنے میں مصروف ہے۔ ڈی بیئرز کینیڈا کی فیکٹ شیٹ کے مطابق ہیرے کی اس کان سے اب تک 27 ملین ٹن ہیرے نکالے جاچکے ہیں۔ کمپنی کے کارپوریٹ افیئرز کے ڈائریکٹر ٹام اَورمسبی کا کہنا ہے کہ اس کان سے نکلنے والے ہیرے شفافیت، قدرتی رنگ ، ہئیت اور معیار کے لحاظ سے دنیا میں سب سے منفرد ہیں مگر یہ قیمتی پتھر اوران سے حاصل ہونے والے ٹیکسز اور  رائیلٹی بھی اس قبیلے کی معاشی حالت میں تبدیلی نہ لا سکی۔

’اٹا واسپیکاٹ‘ نامی قوم ان 634 قوموں میں سے ایک ہے جو یورپی باشندوں کے کینیڈا میں قدم رکھنے سے پہلے یہاں آباد تھیں۔کینیڈا کے آئین کے مطابق آج یہ قومیں یا قبیلے ’’فرسٹ نیشنز‘‘ کہلاتے ہیں مگر عام طور سے انہیں ’’ایب اورجنل‘‘ یا کولمبس کی تقلید میں ’انڈین‘ کہا جاتا ہے۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق ملک میں فرسٹ نیشنز کی آبادی مجموعی طور پر14 لاکھ ہے۔

یاد رہے کہ کینیڈا کی مقامی قومیں بعد میں آنے والے یورپی اور نقل مکانی کرنے والوں کے مقابلے میں دور درازعلاقوں میں شدید خستہ حالی اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ ان کی سالانہ آمدنی ایک عام کینیڈین کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ معاشی سختیوں کی وجہ سے مقامی قبائل میں خود کشی کی شرح دوسری کمیونٹیز کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ کینیڈا کے کثیر الاشاعت اخبار ’گلوب اینڈ میل‘ کے مطابق عام کینیڈینز میں خود کشی کا رحجان دو سے چار فیصد ہے جبکہ فرسٹ نیشنز میں19 فیصد افراد میں خود کشی کا رحجان ہے جو دنیا میں کینیڈین حکومت کی بدنامی کا سبب بن رہا ہے۔ اگرچہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ ان خبروں پر بہت کم روشنی ڈالتے ہیں۔

’گلوب اینڈ میل‘ ہی کی رپورٹ کے مطابق فرسٹ نیشنز میں خود کشی اور ذہنی بیماریوں کی خطرناک حد تک بڑھتی ہوئی شرح کا سبب معاشی مشکلات، زندگی گزارنے کی غیر معیاری سہولتیں، ناقص انفراسٹرکچر، بے روزگاری، صحت اور تعلیم کی سہولتوں تک رسائی نہ ہونا ہے تاہم  سب سے بڑھ کر ماضی میں  یوروپی نو آبادیاتی  طاقتوں کا کردار  ہے۔ سوال یہ ہے کہ ماضی کی نوآبادیاتی پالیسیوں کا حالیہ خود کشی کے واقعات اور ذہنی بیماریوں سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟

نو آبادیاتی زمانوں میں یورپی اقوام خصوصاً برطانیہ نے مقامی آبادی کے خلاف انسانیت سوز جرائم کئے۔ اٹھارویں صدی میں کینیڈا کے میدانی زرخیز علاقوں میں مقامی قبائل کو ایک سازش کے تحت مہلک بیماریوں کے جراثیم سے بھرے آلودہ کمبل تقسیم کیے گئے جنہوں نے پورے پورے گاؤں کو موت کی گھات اتار دیا۔ مقامی قوموں کو ان کے علاقوں سے بے دخل کر کے مخصوص بنجر علاقوں میں دھکیل دیا گیا جنھیں آج بھی ’ریزرو‘ کا نام دیا جاتا ہے، ان کی زرخیز زمینوں اور فشنگ کے لئے مخصوص علاقوں پر یورپی امیگرینٹس کو آباد کر دیا گیا۔ انہیں ان کی خوراک کے ذرائع سے دور آباد کرکے فاقے اور قحط کے ذریعہ انہیں اپنی مرضی کے معاہدوں پر مجبور کیا گیا۔

سن 1876ء  میں کینیڈین پارلیمنٹ نے بدنام زمانہ ’انڈین ایکٹ‘ کا اعلان کیا جس کے مطابق ریزروز میں موجود فرسٹ نیشنز کو اپنے معاملات کا انتظام خود سنبھالنے کے حق سے محروم کردیاگیا، انہیں بغیر اجازت اپنے کلچرل لباس پہننے سے روک دیاگیا، ان کے مذہبی میلوں اور رسومات پر پابندی لگا دی گئی اور یہ سب قوانین بظاہراس یوروسنٹرک ذہنیت کے مطابق نافذ کیے گئے کہ دنیا میں صرف یورپی اقوام ہی تہذیب یافتہ ہیں اورانہی کو حق حاصل ہے کہ وہ باقی دنیا کی اقوام کو تہذیب سکھائیں۔

پچاس سالہ ’اینا میری سوئل‘ ایک مقامی یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ ان کے والد انڈین جبکہ والدہ کا تعلق پولینڈ سے ہے۔ وہ خود اپنے آپ کو ’ایب اورجنل‘ کے طور پر متعارف کراتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چند دہائیوں پہلے محض ’ایب اَورجنل ناچ‘ ناچنے پر لوگوں کو جیل بھجوا دیا جاتا تھا۔

کینیڈا کے پہلے وزیراعظم جان مکڈونلڈ کا کہنا تھا:’’Kill an Indian in the child ‘‘یعنی ایک انڈین کو بچپن ہی میں ختم کر دو۔ اس حوالے سے سب سے بڑا جرم ان کے بچوں کو زبردستی انکے والدین سے الگ کر کے چرچ کے زیر انتظام رہائشی سکولوں میں رکھنا تھا جہاں ان معصوم بچوں پر ایسے مظالم کیے گئے جن کا کسی مہذب معاشرے میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔

کینیڈین میڈیا کے مطابق یہ سکول 1876ء سے لے کر 1996ء تک یعنی آج سے 20سال پہلے تک، 120 سال تعلیم دینے اور تہذیب سکھانے کے نام پرپانچ سے اٹھارہ سال کی عمر کے معصوم بچوں کو شدید جسمانی، ذہنی اور جنسی اذیتیں دیتے رہے۔ ان سکولوں میں ’فرسٹ نیشنز‘ کے تقریباً 30 فیصد بچوں نے قیام کیا جن کی تعداد ڈیڑھ لاکھ بنتی ہے۔ آج یہ بچے نہ صرف شدید ذہنی بیماریوں کا شکار ہیں بلکہ ان کی آئندہ نسلیں بھی ذہنی طور پر نارمل نہیں ہیں۔ بیشتر بیروزگار، بے گھر اور نشے کے عادی ہیں اور یہی خود کشیوں کی بلندشرح کا سبب بتایا جاتا ہے۔

سن 2008ء  میں سرکاری سطح پر ان رہائشی سکولوں میں ہونے والی زیادتیوں کے خلاف بننے والے کمیشن نے، جسے Truth and Reconciliation  کا نام دیا گیا، سن 2015ء  میں 7000 طلبہ کے بیانات پر مشتمل رپورٹ پیش کی جس میں ظلم و بربریت کی ایسی کہانیاں شامل ہیں کہ انھیں سن کر روح کانپ جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان سکولوں کے قیام کا مقصد بچوں کو ان کے مذہب، خاندان، کلچر اور شناخت سے محروم کرنا تھا تاکہ مقامی قبائل کو یورو کینیڈین کلچر میں ضم کر دیا جائے اور ان قوموں سے ہونے والے معاہدوں کے حوالے سے سفید فام حکومتوں کی جو ذمہ داریاں بنتی ہیں حکومت ان سے آزاد ہو جائے اور ان کے وسائل اور زمینوں پر قبضہ مکمل کیا جا سکے۔

اس حوالے سے چرچ کا کردار بھی معنی خیز ہے کیونکہ 60 فیصد سکول کیتھولک جبکے باقی 40 فیصد عیسائیت کے دوسرے فرقے چلاتے تھے۔ رپورٹ کے مطابق ان رہائشی سکولوں میں بچوں کوزبردستی عیسائی مذہب کی عبادات  پر مجبور کیا جاتا۔ ان پر اپنی زبان بولنے کی پابندی تھی، زیادہ تر بچوں کو ان کے علاقے سے سینکڑوں میل دور واقع سکولوں میں رکھا جاتا تاکہ ان کا اپنے والدین اور کلچر سے تعلق ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے۔

اگر سکول والدین کی رہائش سے قریب ہوتے تو ہفتے میں ایک دفعہ 30 منٹ کے لئے انہیں ملنے کی اجازت ہوتی مگر اس دوران بھی بچوں کو اپنی زبان بولنے کی اجازت نہ ہوتی۔ اگر کوئی بچہ مقامی زبان بولتا ہوا پایا جاتا تو اسے سخت سزائیں دی جاتیں۔ اگر بہن بھائی یا دو بہنیں ایک سکول میں رہائش پزیر ہوتے تو بھی انہیں آپس میں بات کرنے کی اجازت نہ ہوتی۔

کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ان رہائشی سکولوں میں سے ہر ایک میں جنسی تشدد کے سینکڑوں واقعات ہوئے۔ کینیڈا کے صوبے البرٹا کے شہر ایڈمنٹن کے ایک پبلک سکول کی وائس پرنسپل مسز لینا کوریگن کا تعلق فرسٹ نیشنز سے ہے۔ ان کی دادی کی پرورش ایک رہائشی سکول میں ہوئی۔ مسز کوریگن اپنی دادی کی یادیں انہی کی زبانی دہراتی ہیں:’’ہمیں ہر رات سیڑھیوں سے سرخ بالوں والے پادری کے قدموں کی آواز آتی اور ہم میں سے ہر لڑکی یہ دعا کرتی کہ آج پادری کا انتخاب وہ نہ ہو۔‘‘

ان واقعات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو نا جائز قرار دے کر عیسائی راہبائیں مختلف طریقوں سے مار ڈالتی تھیں۔ مسز کوریگن کے مطابق ان کی دادی نے خود اپنی آنکھوں سے عیسائی راہباؤں کو نو زائیدہ بچوں کو ابلتے ہوے پانی میں ڈال کر موت کے گھاٹ اتارتے دیکھا۔ نوزائیدہ بچوں کے منہ پر تکیہ رکھ کر ہلاک کر دینا بھی معمول تھا۔ یاد رہے کہ اس جنسی استحصال سے لڑکے بھی محفوظ نہ تھے۔

اس حوالے سے کیوبیک صوبے کا ایک رہائشی سکول سینٹ اینس) ST ANN’S ( بہت بدنام ہے۔ یہاں بچوں کو سزا دینے کے لئے ایک بجلی کی کرسی استعمال کی جاتی۔ سزا دینے سے پہلے بچوں کو بتایا جاتا کہ تکلیف کے باوجود آواز نکالی گئی تو سزا کا دورانیہ بڑھا دیا جائے گا۔ بیمار بچوں کو ان کی قے دوبارہ پینے کا حکم دیا جاتا اور حکم عدولی پر سخت سزائیں دی جاتیں۔ ظلم و ستم سے تنگ آ کر یہ بچے بھاگنا چاہتے تو پولیس انہیں پکڑکر دوبارہ سکول انتظامیہ کے حوالے کر دیتی جو بھاگنے کے جرم میں باقی بچوں کو عبرت دلانے کے لئے انہیں اذیت ناک سزائیں دیتی۔

کینیڈا کی نیشنل براڈکاسٹنگ ایجینسی سی بی سی نیوز کے ایک مضمون کے مطابق 24 سے 42 فیصد بچے غذا کی کمی یا تشدد کا شکار ہوکر ہلاک ہوجاتے تھے۔ اسی مضمون کے مطابق1940 ء اور1950ء کی دہائیوں میں ان بچوں کو سائنسی تجربات کے لئے بھی استعمال کیا گیا جن میں بعض بچوں کو قصدا ً کم غذا دی جاتی اور تجربات کی کوالٹی بہتر کرنے کے لئے طبی امداد سے بھی محروم رکھا جاتا۔

اس تمام تر جسمانی اور ذہنی تشدد کے اثرات آج تک ان افراد اور ان کی آئندہ نسلوں میں موجود ہیں چونکہ یہ خود اپنے والدین کی محبت سے محروم رہے اس لئے انہیں اولاد کو محبت دینا اور انہیں خاندان کا ماحول فراہم کرنا بھی نہیں آتا۔ اس پر مزید ظلم یہ کیا گیا کہ رہائشی سکولوں میں انہیں کوئی ایسا فن نہیں سکھایا گیا جس سے یہ اپنی روزی کما سکیں۔ اٹھارہ سال کی عمر کے بعد جب انہیں اپنے خاندان سے ملنے کی اجازت دی جاتی تو بیشتر کے لئے اپنے کلچر کو قبول کرنا ممکن نہ رہتا کیونکہ سکولوں میں انہیں مسلسل اس کلچر سے نفرت کرنا سکھایا گیا تھا جبکہ ایک عام انڈین آج بھی اپنے کلچر اور رہن سہن کے بارے میں بہت حساس ہے اور اسے محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔

ماضی میں ’فرسٹ نیشنز‘ یا ’انڈینز‘ کے کلچر کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی اس پالیسی کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہیں اپنے ریزرو اور انڈین کی حیثیت چھوڑ دینے پر کینیڈا کی شہریت ، یونیورسٹیوں میں پڑھنے کا حق، شہروں میں ملازمتیں دینے اور کینیڈین فوج میں شامل ہونے کا لالچ دیا گیا مگر بہت کم انڈینز ایسے تھے جنہوں نے سفید فام حکومت کی ان ترغیبات کو قبول کیا۔ سوال یہ ہے کہ چار صدیوں تک محکوم رہنے کے باوجود یہ قومیں اپنے رہن سہن، عقائد اور رسومات سے کیوں چمٹی ہوئی ہیں؟ اس کا جواب دیتے ہوئے ایڈمنٹن شہر کی ایک مسلمان طالبہ اورفرسٹ نیشنز کے حقوق کے لئے سرگرم کارکن امیمہ حسن کا کہنا ہے:’’ فرسٹ نیشنز سے اپنے رہن سہن، رسومات اور عقائد کو چھوڑ دینے کی بات کرنا ایسا ہی ہے جیسے مسلمانوں کو امریکا یا کینیڈا کی شہریت کا لالچ دے کر اسلام چھوڑنے کا کہا جائے‘‘۔

وسائل سے بھرپور کینیڈا دنیا میں امیگرنٹس کی جنت کے طور پر مشہور رہا ہے مگر مقامی آبادی کے خلاف انسانیت سوز جرائم اور رہائشی سکول، اس کی تاریخ کا وہ تاریک باب ہیں جو صرف کینیڈا کی سفید فام حکومتوں کیلئے ہی نہیں بلکہ عیسائی مشنریوں کے کردار پر بھی ایک بدنما دھبہ ہیں۔ تاہم مسز کوریگن اس بات کی تعریف کرتی ہیں کہ ماضی قریب میں ہونے والے ان انسانیت سوز مظالم کے باوجود کینیڈا دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں نہ صرف ان جرائم کی چھان بین کی گئی بلکہ سرکاری سطح پر انسانیت کے خلاف ان جرائم کا اعتراف کرتے ہوئے ’فرسٹ نیشنز‘ سے معافی بھی مانگی گئی۔ یاد رہے کہ ان مظالم پرکیتھولک چرچ کے کردار پہ ویٹی کن نے بھی رسمی طور پر معافی مانگی ہے۔ وزیراعظم ٹروڈو کی قیادت میں کینیڈا کی حالیہ لبرل حکومت ان زیادتیوں کا ازالہ کرنے کے لئے پرعزم ہے مگر نوآبادیاتی دور کی وراثت آج بھی خودکشی کی شکل میں ان بدقسمت قوموں کا پیچھا کر رہی ہے۔

(اس مضمون کی تیاری میں ڈی بیئرز کینیڈا فیکٹ شیٹ، گلوب اینڈ میل، نیشنل پوسٹ کینیڈا، کینیڈا براڈ کاسٹنگ کارپورشن اور ٹروتھ اینڈ رکنسلیشن کمیشن کی رپورٹ سے مدد لی گئی ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔