پودوں کے ذریعے ہیموفیلیا کا علاج

ویب ڈیسک  اتوار 19 فروری 2017
جینیاتی طریقے سے پودے میں انسانی پروٹین پیدا کرکے ہیموفیلیا کے علاج میں ابتدائی کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔ فوٹو: فائل

جینیاتی طریقے سے پودے میں انسانی پروٹین پیدا کرکے ہیموفیلیا کے علاج میں ابتدائی کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔ فوٹو: فائل

فلوریڈا: امریکی سائنسدانوں نے پودے کے خلیات (سیلز) سے ایسی دوا تیار کر لی ہے جو ہیموفیلیا کے جینیاتی مرض کے علاج میں کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔

ہیموفیلیا کے مریضوں میں جینیاتی مسائل کی وجہ سے خون کے لوتھڑے نہیں بن پاتے اور معمولی سی چوٹ سے بھی خون مسلسل بہتا رہتا ہے لیکن پینسلوانیا اسکول آف ڈینٹل میڈیسن اور جامعہ فلوریڈا نے مشترکہ طور پر ایک طریقہ علاج وضع کر لیا ہے جس میں پودوں کے خلیات سے تیار کردہ دوا سے خون کے جمنے کے عمل کو ممکن بنایا گیا ہے۔

مالیکیولر تھراپی جرنل میں شائع رپورٹ کے مطابق امریکی سائنسدانوں کی تیار کردہ دوا جسم میں خون کے لوتھڑے بنانے والے عوامل کو روکنے کی بجائے اسے برداشت کرتی ہے اور اس دوا کو تجرباتی طور پر ہیموفیلیا کے مریض کتوں پر آزمایا گیا جس سے انسانوں کے علاج کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ 

پینسلوانیا یونیورسٹی کے پروفیسر ہنری ڈینیئل کے مطابق اس دوا کے ڈرامائی نتائج نکلے ہیں، ہماری دوا نے خون کے لوتھڑے بننے کے اوقات ٹھیک کر کے کتوں کی بیماری کو دور کرنے میں مدد دی۔ ان کے مطابق اب اس دوا کو انسانوں پر بھی آزمایا جا سکے گا۔

ہیموفیلیا کے مریضوں کو مزید پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے ایسی دوا مسلسل کھانا پڑتی ہیں جو خون جمنے میں مدد دے۔ اس کے لئے ڈاکٹر ہنری نے پودے کی مدد سے دوا سازی کا ایک پلیٹ فارم بنایا ہے جس کے لئے پودے میں جینیاتی تبدیلیاں کچھ اس طرح کی گئی ہیں کہ اس کے پتے خاص انسانی پروٹین تیار کرتے ہیں۔ ماہرین چاہتے تھے کہ مریضوں کے جسم میں وہ اینٹی باڈیز بننے سے روکی جائیں جو خون کے لوتھڑے بننے کے عمل کو روکتی ہیں۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کتوں پر تجربات سے پہلے بھی کئی ابتدائی آزمائشوں میں یہ طریقہ بہت مؤثر ثابت ہوا۔ ان کا خیال ہے کہ پودے میں تیار کردہ پروٹین جسم میں خون کے لوتھڑے بننے میں مدد دیتے ہیں اور اس طرح مریض کے کان اور ناک سے خون کا بے دریغ بہاؤ روکا جاسکتا ہے تاہم سائنسدانوں کے مطابق ہیموفیلیا بی کے لیے اگلے مرحلے میں تجربات کئے جائیں گے جو اس مرض کی قدرے مشکل اور پیچیدہ شکل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔