کوئی بتلاؤکہ ہم بتلائیں کیا

مقتدا منصور  اتوار 6 جنوری 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

ایک ہفتے میں کئی اندوہ ناک واقعات۔ گو ایک دوسرے سے مختلف، مگر انسان کے اندر چھپی درندگی اور سفلے پن کا کھلا اظہار۔ ایک طرف دہلی جیسے جاگتے شہر میں ایک تنہا لڑکی کے ساتھ بس میں بلاتکار اور تشدد اور پھر اس کی موت۔ دوسری طرف دادو کے ایک گائوں میں ایک مخبوط الحواس شخص کی پہلے توہین رسالت کے الزام میں گرفتاری۔ پولیس اور انتظامیہ پر عدم اعتماد کے شکار مشتعل اور بے قابو ہجوم کا اسے حوالات سے نکال کراس قدر تشدد کہ موت کے گھاٹ اتار دیا۔

مگر پھر بھی جذبہ ایمانی کی تسکین نہیں ہوئی، تو اس کی لاش کو الٹا لٹکا کر نذرآتش کر دیا۔ تیسری طرف کراچی جہاں قتل و غارت گری روز کا معمول بن چکی ہے، ایک پولیس افسر کے نو عمر خوبرو فرزند کو محض ذرا سی بات پر انا، خود سری، غرور و نخوت اور طاقت کے نشے کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ مگر پاکستان ہو یا بھارت قانون گھنائونے جرائم پر قابو پانے اور ان میں ملوث افراد تک پہنچنے میں حسب معمول ناکام ہے۔ دوسری طرف عوام  میں غم و غصہ کا موجودہ انداز نفسیاتی مرض کی شکل اختیار کر رہا ہے۔

کچھ لوگوں کا یہ اعتراض کہ سول سوسائٹی کا ان تینوں واقعات پر اتنا شدید ردعمل کیوں، حیرت کا باعث ہے۔ ان کا یہ جواز کہ جرائم کہاں نہیں ہوتے اور کب نہیں ہوئے، سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیونکہ دنیا کی معلوم تاریخ میں ذی شعور انسانوں کی اکثریت نے ہمیشہ جرم اور برائی کے خلاف نفرت کا اظہار کیا۔ ا ہل دانش نے ان کی مذمت میں صفحات کے صفحات سیاہ کیے۔ ماہرین قانون نے انھیں گرفت میں لانے کے لیے قانون سازی کی۔ یہ الگ بات ہے کہ قوانین میں رہ جانے والے بعض سقم، انتظامی اداروں کی مجرمانہ کوتاہیوں اور جرائم کے نئے طریقے دریافت ہو جانے کے سبب ان پر مکمل طور پر قابو پایا جانا ممکن نہیں ہے۔

مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ جرم کو نظرانداز اور مجرم کو کھلا چھوڑ دیا جائے۔ مجھے اس وقت جرمنی کا وہ یہودی وکیل یاد آ رہا ہے، جس نے 1950ء کی دہائی میں اپنی زندگی کا بیشتر وقت ان لوگوں کو تلاش کرنے اور ان کے خلاف مقدمات عدالتوں میں جمع کرانے میں صرف کیا، جن پر دوسری عالمی جنگ کے دوران جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا شک تھا۔ لوگ اسے سمجھاتے کہ وہ اپنا وقت اور پیسہ ایک ایسے کام میں کیوں صرف کر رہا ہے، جس کا اسے کوئی صلہ بھی نہیں مل سکے گا، کیونکہ بیشتر ملزمان عدم ثبوت کی بنا پر رہا ہو جاتے ہیں۔

وکیل کا جواب ان سب لوگوں کے لیے مشعل راہ ہے، جو جرائم پر ردعمل ظاہر کرنے پر اعتراض اٹھاتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ بیشک اسے اس کاوش کا کوئی صلہ نہیں ملے گا، لیکن وہ صرف یہ بتانا چاہتا ہے کہ جرم نہ قانون سے ماوراء ہے اور نہ مجرم کا بچ نکلنا ممکن ہے۔ ہر مجرم کسی نہ کسی وقت قانون کی گرفت میں ضرور آتا ہے، بشرطیکہ قانون میں جامعیت اور اسے نافذ کرنے والوں میں فعالیت ہو۔ یہی سبب ہے کہ جن معاشروں میں قانون کی بالادستی ہے، وہاں جرائم کی شرح بہت کم ہے۔

اسی طرح بعض لوگوں کا یہ اعتراض بھی بے بنیاد ہے کہ جب روزانہ ان گنت لڑکیوں کے ساتھ مختلف نوعیت کی زیادتیاں اور بلاتکار ہو رہا ہے، تو ایک لڑکی کے ساتھ ہونے والی اجتماعی زیادتی پر اتنا واویلا کیوں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب بھی کوئی ایسا واقعہ یا سانحہ منظر عام پر آیا عوام نے اس کے خلاف صدائے احتجاج ضرور بلند کی۔ معاملہ چاہے پاکستان میں ہندو لڑکیوں کے اغوا اور ان کی جبری شادی کا ہو یا پسند کی شادی کرنے پر کاری قرار دے کر ماری جانے والی کسی بدنصیب خاتون کا، متوشش شہریوں نے ہمیشہ آواز اٹھائی۔ جب سوات میں ملالہ یوسف زئی پر شدت پسندوں نے حملہ کیا، تو صرف پورا پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی ضمیر بھی سراپا احتجاج بن گیا۔

اس سانحے پر بھی بعض عناصر نے مختلف نوعیت کے اعتراضات اٹھائے تھے۔ دراصل ایک مخصوص Mindset ایسا ہے، جو عورت کو مردوں کے مساوی حقوق دینے کے حق میں نہیں ہے۔ یہ حلقے اسے مردوں کا دست نگر بنائے رکھنے کے لیے مختلف تاویلیں پیش کرتے ہیں۔ کبھی مذہب کے نام پر اس کی سماجی زندگی کو محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو کبھی سماجی روایات اور اقدار کا سہارا لے کر اس کے حقوق سلب کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ جب کسی خاتون کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر کوئی آواز اٹھتی ہے، تو یہ لوگ مختلف قسم کے اعتراضات کے ساتھ سامنے آ جاتے ہیں، تا کہ کسی نہ کسی طرح عورتوں کی سماجی آزادی اور معاشی با اختیاریت کا راستہ روکا جا سکے۔

اس میں شک نہیں خواتین کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی زیادتیاں برصغیر میں روز کا معمول ہے۔ اس کا سبب وہ صنفی امتیاز ہے، جو صدیوں سے اس خطے کے عوام کی سرشت میں شامل ہے۔ کبھی اسے صنف نازک قرار دے کر گھر کی چار دیواری میں مقید کر دیا جاتا ہے، تو کبھی خاندان کی عزت کے نام پر اس کی سماجی حیثیت کا گلہ گھونٹ دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ذات اور کردار بھی ہمیشہ نازیبا حملوں اور بہتانوں کی زد میں رہتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج بھی برصغیر میں بیشتر خواتین تعلیم یافتہ اور برسر روزگار ہونے کے باوجود معاشی اور سماجی با اختیاریت سے محروم ہیں۔

یہی وہ رویے اور سماجی ناہمواریاں ہیں، جو مسلسل عورت کے استحصال کا سبب بنی ہوئی ہیں اور جنہوں نے اس کی خود اعتمادی کو چھین کر اسے مرد کا دست نگر بنا دیا ہے۔ نتیجتاً ایک ایسا سماج جو عورت کو محض جنسی تسکین کا ذریعہ اور زر اور زمین سے بھی ارزاں تصور کرتا ہو، اس سے یہ توقع کس طرح کی جا سکتی ہے کہ وہ اس عورت کو مساوی درجہ دے سکے گا۔ حالانکہ سائنسی علوم نے ثابت کیا ہے کہ عورت صرف حیاتیاتی (Biologically) طور پر مرد سے مختلف ہے، جب کہ عقل و خرد اور جذبات و احساسات سمیت وہ تمام انسانی خواص اس میں مردوں کے مساوی موجود ہوتے ہیں، جنھیں صرف مرد اپنا خاصہ سمجھتا رہا ہے۔

مجھے اس وقت فیض احمد فیض کی پہلی برسی کے موقعے پر کراچی آرٹس کونسل میں ہونے والی ایک تقریب یاد آ رہی ہے، جس میں معروف ادیبہ عصمت چغتائی مرحومہ نے کہا تھا کہ ’’کچھ مرد عورت کو اس طرح مظلوم بنا کر پیش کرتے ہیں کہ ایسی عورت کے بارے میں میرے دل سے دعا نکلتی ہے کہ یہ کل کی مرتی آج مر جائے۔ جب کہ کچھ اس کے اعضاء کی پیمائش کو اپنا ہنر سمجھتے ہیں۔

البتہ میں فیض جیسے مردوں کی قدر کرتی ہوں جو عورت کو مرد کے مساوی درجہ دیتے ہیں اور اس کے جذبات و احساسات کی قدر کرتے ہیں۔‘‘ مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فیض جیسا سماجی شعور رکھنے والے کتنے مرد اس کرہ ارض خاص طور پر ہمارے اس برصغیر میں پائے جاتے ہیں، جو عورت کو اپنی جنسی تسکین کا ذریعہ سمجھنے کے بجائے ایک مکمل انسان سمجھتے ہوں۔ یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ معاشرے کی نصف آبادی کی صلاحیتوں کو محض اس لیے زنگ لگ رہا ہے کہ چہار سو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے خوف سے وہ باہر نکلنے سے گریزاں ہے۔

پاکستانی معاشرے میں عورتوں کے حقوق تو دور کی بات، مردوں کو مساوی شہری حقوق حاصل نہیں۔ ایک مخصوص مراعات یافتہ طبقہ طاقت کے نشہ میں بدمست کھلے عام بلا کسی خوف خطر انصاف و قانون کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔ اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کہیں سیاسی مصلحتیں اڑے آتی ہیں، کہیں دولت کی جھنکار قانون کے ہاتھ باندھ دیتی ہے۔ یوں با اثر گھرانوں کے نوجوان اور ان کے کاسہ لیس چھٹ بھیے شہروں کی گلی محلوں میں دندناتے پھرتے ہیں اور لوگوں کی عزت و آبرو اور زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ جنھیں پوچھنے اور ان کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں ہے۔

چھوٹے شہروں اور دیہاتوں کو تو چھوڑئیے کہ وہ اہل حکم کی جوتیوں کی خاک ہیں۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے اربن سینٹروں میں بھی طاقت کے بل پر رقصِ ابلیس جاری ہے۔  جہاں روزانہ درجن بھر لوگ طاقت و اختیار کی جنگ میں بھینٹ چڑھ جاتے  ہیں۔ حال ہی میں کراچی کی ایک پوش بستی میں ایک پولیس افسر کے جواں سال بیٹے کو جس طرح معمولی سی بات پر پیوند خاک کر دیا گیا، اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں سیاسی طاقت اور سماجی اثر و نفوذ کس حد تک معاشرے کی رگ و پے میں سرائیت کر چکا ہے کہ انصاف کی توقع دم توڑنے لگی ہے۔

ایک ایسے معاشرے میں جہاں پولیس افسران کی اولاد محفوظ نہیں اور پولیس اپنے ہی پیٹی بھائی کی رپورٹ درج کرنے سے گریزاں ہو، تو عام آدمی کی زندگیاں کس طرح محفوظ تصور کی جا سکتی ہیں۔ پورا شہر قاتلوں اور ان کے سرپرستوں سے واقف ہونے کے باوجود نہ پولیس ان تک پہنچ رہی ہے اور نہ حکومت کے کان پر کوئی جوں رینگ رہی ہے۔ یہی وہ رویے اور روش ہے، جو طاقت کے ناجائز استعمال(Power Abuse) کی حوصلہ افزائی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔

ایک ایسے ماحول میں جہاں درندگی اور وحشت سرِ بازار بال کھولے رقصاں ہو، دادو کے ایک چھوٹے سے قصبے میں ایک مخبوط الحواس شخص کی سنگساری اور بعد ازاں لاش کو جلائے جانے کے سنگدلانہ واقعے پر کیا تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ جنون ہے جس کی آبیاری خود ہمارے حکمرانوں اور منصوبہ سازوں نے کی ہے۔ جنہوں نے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر تحمل اور رواداری کی صدیوں پرانی روایات کو بیدردی کے ساتھ پیروں تلے روند ڈالا ہے۔ طاقت کے ناجائز استعمال، تکبر و نخوت اور جنون پسندی کی سرپرستی نے اس معاشرے کو تباہی کے آخری دہانے تک پہنچا دیا ہے، مگر اہل حکم کی آنکھیں اس کے باوجود نہیں کھل رہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔