ہم بہادر پاکستانی

عبدالقادر حسن  اتوار 19 فروری 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

رہتا تو میں ایک بھرے پُرے آباد شہر میں ہوں اور مدتوں سے اس شہر میں مقیم ہوں کہ ماہ و سال کے ساتھ ساتھ دنوں کا ایک بڑا عرصہ بھی اس شہر کی نذر کر چکا ہوں۔ میں اپنے چھوٹے سے گاؤں کے مدرسے سے مزید تعلیم حاصل کرنے کیلیے ایک بڑے شہر میں منتقل ہو گیا۔ ایک بہت چھوٹا گاؤں جو بجلی سے بھی محروم تھا انگریز حکمرانوں نے ایک سڑک بنا دی تھی جو ہمارے گاؤں کے بیچ سے گزرتی تھی اور اس پر چلنے والی ٹرانسپورٹ ہمیں باہر کی دنیا سے ملاتی تھی۔

یہ واحد مشینی سواری تھی جو پہیوں پر چل کر ہمارے گاؤں کو دوسری دنیا سے ملاتی تھی لیکن اس سڑک پر سفر کوئی نہیں کرتا تھا سوائے فوجی ملازمین کے یا دوسرے شہروں میں کسی بیماری کے علاج کے لیے کوئی جاتا تھا تو گاؤں میں اس کی صحت کی کوئی اطلاع ایک بڑی خبر بن جاتی تھی یا پھر لوگ ضلعی عدالتوں میں کسی مقدمے کی تاریخ بھگتنے جاتے تھے اور عدالت کے کسی فیصلے کا گاؤں میں بے چینی کے ساتھ انتظار کیا جاتا تھا۔

یہ عدالتی فیصلے بعض اوقات انسانی زندگیوں کے فیصلے بھی ہوتے تھے اور کسی ایسے مقدمے کی سماعت بالعموم انگریز جج کرتے تھے جن میں موت کی سزا بھی ہو سکتی تھی مگر ایسے خطرناک مقدمے کے فیصلے کوئی مقامی جج نہیں کر سکتا تھا کہ دیہی زندگی میں ایسے فیصلے قانونی نہیں ذاتی سمجھے جاتے تھے اور مدعی یا مدعا علیہ انھیں دل پر لے لیتے تھے۔ جب تک برطانوی راج رہا فیصلہ کرنے والے محفوظ رہتے تھے۔ حکومت ان کے تحفظ کی ذمے دار ہوتی تھی کیونکہ وہ کسی مقامی نہیں برطانوی راج کے نمایندے ہوتے تھے اور ان کے فیصلوں کو تاج برطانیہ کے فیصلے سمجھا جاتا تھا۔

انگریز حکمران اپنے تاج کی حفاظت عین ایمان سمجھتے تھے اور یہی وہ جذبہ تھا جو ان کی حکمرانی کی اصل طاقت تھی۔ کوئی ڈیڑھ سو برس تک وہ ہندوستان جیسے بڑے ملک پر نہ صرف حکومت کرتے رہے بلکہ اس کی طاقت کو بیرونی فتوحات کیلیے بھی استعمال کرتے تھے۔ ہندوستان کے کتنے ہی پڑوسی ملک اگر برطانیہ کی قلمرو میں شامل تھے تو اس کی وجہ یہ ہندوستانی فوج تھی جو برطانوی حکومت کا دست و بازو تھی اور جس کی طاقت سے انگریزوں نے مشرق بعید اور مشرق وسطیٰ تک کے ملکوں پر حکمرانی کی۔

ہمارے گاؤں کے بزرگ سپاہی برطانوی  فوج کی فتوحات میں اپنا حصہ بیان کرنے سے باز نہیں آتے تھے اور عام سپاہیوں کی طرح وہ بھی اپنے جنگی کارناموں کا ذکر کرتے تھے جو انگریز افسروں کے تحت انھوں نے انجام دیئے تھے لیکن مجھے یاد ہے کہ ہمارے گاؤں کے نوجوان جنھوں نے اسکولوں میں برطانوی حکمرانی کے بارے میں کچھ پڑھ رکھا تھا اپنے پرانے سپاہی بزرگوں کو ان کے برطانوی دور کے فوجی کارناموں کے ذکر سے منع کرتے تھے اور بتاتے تھے کہ انگریز ہمارے قابض حکمران تھے اور انھوں نے کتنا عرصہ ہندوستان پر ناجائز حکومت کی تھی اور ہمارے نوجوانوں کو زبردستی اپنی فوج میں بھرتی کیا تھا لیکن جن بوڑھے سپاہیوں نے برطانوی فوج میں زندگی و موت کا مزا چکھا تھا اور ایک عمر برطانوی فوج میں بسر کر دی تھی وہ اپنی اس فوجی زندگی کے ذکر سے کیسے باز آ سکتے تھے۔

ہمارے علاقے کے ایک سپاہی یا کسی جونیئر افسر کو اس کی بہادری کے عوض بہت بڑا اعزاز ملٹری کراس دیا گیا تھا اور اس کا بت اس سپاہی کے گاؤں میں نصب کیا گیا تھا یہ بت ایک مدت تک کھڑا برطانوی دور کو یاد کرتا رہا پھر یاد نہیں کہ اسے یہاں سے کہاں لے جایا گیا سنا ہے کہ اسے برطانیہ کی کسی جنگی یاد گار میں منتقل کر دیا گیا تھا۔

برطانیہ نے اس غلام جانباز فوج کے عوض مشرقی دنیا کو فتح کر لیا تھا جب کہ پورے ہندوستان کو کنٹرول کرنے کے لیے برطانوی فوج صرف چالیس ہزار تھی جس نے لاکھوں کی آبادی کو غلام بنائے رکھا اور اسی غلام قوم سے نئی نئی سپاہ بھرتی کرتے اس سے دنیا فتح کی۔ مشرق وسطیٰ تک کے ممالک برطانوی تاج کی حکمرانی میں آ گئے اور مشرقی دنیا کے ملایا وغیرہ تو ہندوستان کا حصہ تھے۔

بات صرف قیادت کی تھی اور کسی محکوم کو قابو میں رکھنے کے ہنر کی تھی جو برطانوی فوجیوں اور حکمرانوں کو خوب معلوم تھا اور انھوں نے اپنے اس فوجی علم اور بھارت سے خوب فائدہ اٹھایا۔ انگریز تو بیرونی حکمران تھے اور قابض تھے لیکن سوال یہ ہے کہ ان سے آزادی کے بعد ہم کیا کر رہے ہیں اور اپنے اس فوجی اثاثے سے ہم نے کیا کچھ حاصل کیا ہے۔

ہاں ایک بات کا اعتراف ضروری ہے کہ اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن ملک کے مقابلے میں ہم نے اپنی آزادی بھی برقرار رکھی ہے اور ایک باعزت زندگی بھی۔ اگرچہ انگریز اس خطے میں مستقل بدامنی کے لیے کشمیر جیسا مسئلہ چھوڑ گیا تھا لیکن ہم نے اپنے بڑے پڑوسی سے کشمیر کا ایک بڑا حصہ بھی بچا لیا اور کشمیر کے تنازعے میں اپنی حیثیت بھی برقرار رکھی۔

بہرکیف اس کی داد ہمارے لیڈروں کو ملنی چاہیے اور ان سے بھی زیادہ اپنے عوام کو جنھوں نے اپنی قومی عزت کی رکھوالی میں کوئی کوتاہی برداشت نہ کی اور اپنے بعض کمزور حکمرانوں کو بھی مجبور کیا رکھا کہ وہ قومی وقار کی حفاظت میں کوئی کوتاہی نہ کریں۔ ہم پاکستانی اپنے بڑے دشمنوں کے باوجود اپنی آزادی کے ساتھ قائم ہیں اور رہیں گے۔ ہمارے اندر ایمان کی رتی ابھی روشن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔