سرکاری ملازمین کے گمبھیر مسائل پر بھی کوئی توجہ دے گا؟

رحمت علی رازی  اتوار 19 فروری 2017
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

وطنِ عزیز میں سرکاری اداروں کی کارکردگی ہمیشہ غیر مطمئن رہی ہے اور ہم نے ہمیشہ ہی مختلف محکمہ جات کی خرابیوں اور ان کے اسباب و علل پر قلم اٹھایا ہے ٗ بہ ایں ہمہ ہماری اولین کوشش یہ بھی رہی ہے کہ ادارہ جاتی جو رو ستم اور افسرانِ بالا کے ظلم و زیادتی کے شکار سرکاری ملازمین کی داد رسی اور حق جوئی کیلیے قرطاس و قلم کے ذریعے ابلاغی جہاد کریں، اور کیوں نہ ہو کہ ہمارے قارئین کرام میں سرکاری ملازمین کی ایک خاصی تعداد ہے جن کے خطوط اور ای میلز ہمیں گاہے بہ گاہے موصول ہوتی رہتی ہیں مگر حالاتِ حاضرہ کے عنوانات کی جانب راغب ہونے کے سبب گزشتہ چھ سات ماہ سے ہم اپنے کئی قارئین کے خطوط پڑھ پائے ہیں، نہ ہی ان پر رقمطرازی کا موقع نکال پائے ہیں۔

سرکاری ملازمین سے ہمارے عوام کو اکثر شکایات رہتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کے بھی کچھ مسائل ہیں جن پر روشنی ڈالنا ہمارا فرض اور انھیں حل کرنا حکمرانوں کا فرض بنتا ہے۔ اپنے شہریوں کو تعلیم، صحت، انصاف، روز گار اور چھت کی سہولت دینا ریاست کی آئینی ذمے داری ہے ٗ حکمران بجٹ کا زیادہ تر حصہ غیر ترقیاتی کاموں پر خرچ کررہے ہیں جب کہ عام عوام کی طرح ریاست کے ملازمین زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں ٗ تعلیم اور صحت انسانی زندگی کے انتہائی اہم شعبے ہیں مگر افسوس کہ ان پر بجٹ کا صرف تین فیصد خرچ کیا جارہا ہے جب کہ حکمران اپنی سیکیورٹی پر سالانہ7ارب روپے سے زیادہ خرچ کررہے ہیں ٗملک میں عادلانہ اور مساوات پر مبنی نظام ایک خواب بن کر رہ گیا ہے، ایک ایسا نظام جس میں عام آدمی کو بھی زندگی گزارنے کی وہی سہولتیں دستیاب ہوں جو حکمران طبقہ کو حاصل ہیں۔

سرکاری ملازمین ریاست کے ملازم ہیں، کسی فرد کے نہیں چنانچہ اگر کوئی حکومتی نمایندہ انھیں غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کیلیے تنگ کرتا ہے یا دھونس اور جبر سے اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتا ہے جو قومی مفاد کے خلاف ہوں تو ایسے احکامات ماننے سے صاف انکار کر دینا اور ہر چیز پر قومی مفاد کو مقدم رکھنا کو ئی غیر آئینی اقدام نہیں بلکہ ملک کی خدمت ہے۔

’’اسٹیٹس کو‘‘ کی قوتوں نے ریاست ، سیاست اور جمہوریت کو یرغمال بنا رکھا ہے ٗ تما م اداروں پر طبقۂ اشرافیہ کا تسلط ہے، جاگیر داروں اور سرمایہ داروں نے مزدوروں اور کسانوں کا استحصال معمول بنا رکھا ہے ٗ جب تک عوام 70سال سے اقتدار کے ایوانوں پر قابض کرپٹ اور بددیانت ٹولے کو نکال باہر نہیں کریں گے اور دیانتدار قیادت کا انتخاب نہیں کریں گے۔

قومی اداروں کی کارکردگی کو بہتر نہیں بنایا جا سکتا ٗکارخانوں کی پیداوار میں مزدوروں اور جاگیروں کی آمدن میں کاشتکاروں کو حصہ دار بنایا جانا چاہیے تاکہ ایک مزدور اور کسان جو ملک و قوم کیلیے اپنا خون پسینہ ایک کرتا اور محنت و مشقت کی صعوبتیں اٹھاتا ہے، اسے بھی پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہو، اس کے بچوں کو بھی تعلیم اور صحت کی سہولتیں مل سکیں اوروہ بھی زندگی کا کوئی لمحہ سکون اور آرام سے گزار سکے ٗاس جان لیوا مہنگائی کے ہر سفاک ہوتے دور میں مزدور کی کم سے کم تنخواہ تیس ہزار روپے ہونے کے ساتھ ساتھ اگر اسے پانچ بنیادی ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں میں سب سڈی دی جائے، پانچ بڑی بیماریوں کا علاج سرکاری اسپتالوں میں مفت ہو اور بچوں اور بوڑھوں کو گزارہ الاؤنس دیا جائے، تب ہی بندۂ مزدور کے اوقات کی تلخی میں کچھ کمی آسکتی ہے۔

گزشتہ دو سالوں میں اعداد و شمار کے جادوگر وزیر خزانہ نے مزدور کی کم سے کم تنخواہ پہلے 13 ہزار پھر اگلے بجٹ میں 14 ہزار مختص تو کی مگر وزیروں، مشیروں اور بیورو کریٹوں کے بنگلوں پر کام کرنیوالے ملازمین دن رات کی جانکاہ چاکری کے بدلے پانچ سے آٹھ ہزار ماہانہ وصول کرنے پر مجبور ہیں اور اس سارے سسٹم کی خرابی کے ذمے دار حکمران ہیں، ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عوام ہمیشہ دھوکا کھاتے اور اپنے ہاتھوں سے نا اہل لوگوں کو منتخب کرکے ایوانوں میں بھیجتے ہیں جو بعد میں عوام سے کیے گئے وعدوں کو بھول جاتے ہیں، وہ اسلیے کہ جو اللہ کے وفادار نہیں وہ عوام کے وعدوں کی کیا پاسداری کریں گے؟

موجودہ نظام کی وجہ سے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے ٗ ہمارے تعلیمی ادارے بھی دولت اور غربت کی بنیاد پر تقسیم ہوچکے ہیں ٗ امیروں کے کتے بھی مکھن کھاتے ہیں جب کہ غریب کا بچہ کوڑے کے ڈھیروں میں سے رزق تلاش کرنے پر مجبور ہے ٗ حکمران عوام کے لباس، گھر ، علاج او رتعلیم کے ذمے دار ہیںمگر موجودہ ’’اسٹیٹس کو‘‘ میں مساوات کا نظام ممکن ہی نہیں ہے‘ یہی فرسودہ نظام سرکاری اداروں میں بھی اعلیٰ و ادنیٰ ملازمین میں برہمن اور شودر کے ماحول کو جنم دیتا ہے۔ سرکاری اسپتالوں، پولیس اسٹیشنوں ،اسکولوں غرضیکہ کسی بھی محکمہ میں جانا اکثر و بیشتر انتہائی تکلیف دہ تجربہ ہوتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق 80فی صد سرکاری ملازمین گریڈ ایک سے 16تک میں کام کررہے ہیں۔ نرسز، ایلیمنٹری اساتذہ ، لیڈی ہیلتھ ورکرز، سٹیشن ہاؤس آفیسر، پٹواری اور اسی طرح کی ملازمتیں اس فہرست میں آتی ہے جو یہ استدلال پیش کرتی ہے کہ کوئی بھی پالیسی اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک پالیسی کی تشکیل کے مرحلے پر متعلقہ سرکاری ملازمین سے مشورہ نہیں کیا جاتا یا انھیں پیشِ نظر نہیں رکھاجاتا۔

یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے پالیسیوں پر عملدرآمد کرنا ہوتا ہے ٗ اگر میڈیکل کے شعبے پر ہی نظر دوڑائی جائے تو اس میں مریضوں کا عمومی واسطہ نرسوں سے پڑتا ہے ٗ کام کی زیادتی اور سینئر نرسوں اور اکثر اوقات ڈاکٹروں کے ناروا رویے کے باعث وہ بے لوث ہوکر کام کرنے کے جذبے سے محروم ہوچکی ہیں ٗ ایک نرس کو عموماًگیارہ مریضوں کے ساتھ پیش آنا چاہیے تاہم معروضی حقیقت یہ ہے کہ ایک وارڈ میں ایک نرس چالیس مریضوں کی دیکھ بھال کررہی ہے۔

پالیسی سازوں کے معاون طبی عملے کی اہلیت میں اضافے اور انسانی وسائل کی صلاحیت بڑھانے کے حوالے سے عمومی بے حسی کامشاہدہ دیکھنے میں آیا ہے نرسوں کے رویے پر بات کی جائے تو یہ اَمر بدقسمتی کا باعث ہے کہ ڈاکٹری کایہ مقدس پیشہ عوام کے لیے تکلیف کا باعث بن چکا ہے۔ جب حکومت نے طبی خدمات نجی شعبہ کے رحم و کرم پر چھوڑیں تو لالچ، بے حسی اور غیر پیشہ ورانہ رویہ معیار بن گیا۔ عوام کی زندگیوں میں ایک اور شعبہ بھی یکساں اہمیت رکھتا ہے اور وہ ہے محکمۂ پولیس جس میں کسی بھی شکایت کنندہ کا پہلا واسطہ عموماً سٹیشن ہاؤس آفیسر(ایس ایچ او) سے پڑتا ہے۔

عوام کی ایک عام شکایت یہ ہے کہ پنجاب کی پولیس بہت ظالم اور سرکش ہے تاہم پولیس افسران اس کا یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ کام کا طویل دورانیہ اوروسائل کی کمی نے ان کی پیشہ ورانہ زندگیوں کو بوجھ بنادیا ہے‘ پولیس اسٹیشنوں میں عملے کی کمی بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے‘ پولیس قوانین 1879ء کے مطابق 456افراد کے لیے ایک پولیس کانسٹیبل ہونا چاہیے مگرحقیقت یہ ہے کہ ایک ہزار افراد کے لیے ایک پولیس کانسٹیبل ہے۔

جب ڈولفن فورس قائم کی گئی تو نئے پولیس افسر بھرتی کرنے کے بجائے موجودہ فورس سے افسروں کی خدمات حاصل کی گئیں اور ان کا تبادلہ ڈولفن فورس میںکردیا گیا، اسٹریٹ کرائمز کی روک تھام کے لیے قائم کیے گئے اس خصوصی اسکواڈ کی وجہ سے اسٹریٹ کرائم میں مزید اضافہ ہوگیا اور دوسرا اس کی وجہ سے پولیس کی نفری میں مزید کمی واقع ہوئی ہے۔

پولیس کانسٹیبلوں اور نچلی سطح پر پولیس افسروں کی تعداد ناکافی ہے تاہم فنڈز کی کمی کے باعث نئے افسر بھرتی کرنے کا عمل مسدود ہے‘ کام کے طویل دورانئے کے باعث پولیس ملازمین کیلیے تھکاوٹ اور غیر پیشہ ورانہ طرزِ عمل نمایاں ہوجاتا ہے تاہم محکمہ پولیس کے اعلیٰ حکام یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ پاکستان یورپ میں نہیں ہے اور پولیس کو آٹھ گھنٹوں کی شفٹ کی توقع نہیں رکھنی چاہیے‘ پاکستان میں پولیس افسروں کا شہریوں کے حوالے سے تناسب 529شہریوں کیلیے ایک پولیس افسر کا ہے۔ پنجاب پولیس رولز1934ء کے مطابق اسے 450 شہریوں کے لیے ایک پولیس مین تک محدود کرتی ہے۔

پولیس ایکٹ1861ء جو کہ اب بھی پولیس کی قانون سازی کیلیے رہنما دستاویز ہے،نے چھ کیلیے ایک کے تناسب کا حکم دیا تھا۔ بعینہٖ تدریس کے شعبہ کا بھی کچھ یہی حال ہے جس میں ایک ٹیچر ایک وقت میں 50بچوں کے ساتھ تدریس کے فرائض انجام دیتا ہے ٗ ان حالات میں یہ امید کس طرح رکھی جاسکتی ہے کہ وہ پیشہ ورانہ کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا؟

ایک ٹیچر بالعموم چار مضامین پڑھاتا ہے، بہت سے بچوں کی کاپیاں اور پیپر چیک کرتا ہے، یوں یہ ایک نہ ختم ہونے والا کام بن جاتا ہے ٗاکثر اساتذہ اس تاسف کا اظہار کرتے پائے گئے ہیں کہ جب انھوں نے اس پیشے کا انتخاب کیا، کمیونٹی کی خدمت کرنے کے حوالے سے وہ خاصے پرجوش تھے لیکن اب ان کا جوش و جذبہ صرف کام کو نپٹانے اور ملازمت کو برقرار رکھنے تک محدود ہوگیا ہے ٗ اساتذہ کی ان شکایات کے ازالہ کیلیے تعلیم کے فروغ کے حوالہ سے حکومت ہزار دعوؤں کے باوجود کوئی غیر معمولی کارکردگی دکھانے میں ناکام نظر آتی ہے ٗ پنجاب میں 36فی صد بچے اسکول نہیں جارہے اور 69فی صد پانچ برس کی عمر تک اسکول چھوڑ دیتے ہیں ٗ اس پریشان کن صورتِ حال کی بیان کی گئی وجوہات میں تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی، تدریسی مواد کی قلت اور ناقص انفراسٹرکچر ہے جس پر اولین فرصت میں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ہم نے نادرا کے ادارہ میں موجودہ نقائص پر بھی دو تین کالم رسید کیے ہیں مگر نادرا ملازمین کی شکایت ہے کہ محکمہ کی خامیوں کے ساتھ ساتھ ملازمین کے بھی کچھ مسائل ہیں جنہیں خاطر میں لایا جائے تو نادرا مثالی کارکردگی کا حامل ہو سکتا ہے۔نادرا مملکت خداداد کے اہم اداروں میں سے ایک ہے لیکن اس کے ملازمین اور بطور ادارہ خود نادرا کو آج تک وہ اہم مقام نہیں ملا جو دیگر وفاقی اداروں کو حاصل ہے، حالانکہ نادرا واحد ادارہ ہے جو خسارے میں نہیں ہے، بلکہ مختلف پراجیکٹس کی مد میں اربوں روپے کمانے والا ادارہ ہے۔

نادرا کے اہم ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک تو وہ پاکستانیوں کو شناخت دے رہا ہے، دوسری جانب زندگی کے تمام شعبہ جات میں اس کے جاری کردہ قومی کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کے بغیر کاروبار ہو سکتا ہے نہ کوئی شہری بیرون ملک سفر کرنے کیلیے پاسپورٹ بنوا سکتا ہے، کوئی بھی شہری اندرون ملک جائیداد خرید سکتا ہے نہ کوئی بینک اکاؤنٹ کھولا جا سکتا ہے، اور نہ ہی طلبہ اس کے جاری کردہ ب فارم کے بغیر اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں داخلہ لے سکتے ہیں۔

ان تمام خصوصیات کے باوجود نادرا ملازمین کو دیگر وفاقی اداروں کے ملازمین کی طرح حیثیت دی گئی ہے نہ نادرا کو دیگر وفاقی اداروں کی طرح اہمیت ملی ہے، جس کی وجہ سے نادرا ملازمین کو مشکلات کاسامنا ہے اور ان کا مستقبل سوالیہ نشان بن چکا ہے ٗ ملازمین کی محنت نظر انداز کر کے کرپٹ لوگوں کی غلطیاں نادرا ملازمین پر تھوپ دی جاتی ہیں اور ان کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا کیا جاتا ہے جوحقیقت پرمبنی نہیں ہے‘ اہم سوال یہ ہے کہ نادرا میں کرپشن کس طرح اور کیوں ہوتی ہے ٗ اگر کسی ملازم سے سہواً کوئی کام ہو جائے تو اسے کرپشن نہیں کہا جا سکتا ٗ اگر کوئی ملازم دانستہ کوئی غلط کام کرتا ہے اور اس کے عوض وہ معاوضہ لیتا ہے تو پھریہ واقعی کرپشن ہے۔

نادرا جیسا اہم ادارہ 16 سال گزرنے کے باوجود سروس اسٹرکچر سے محروم ہے ٗ نادراملازمین 16سال گزرنے کے بعد بھی اپنی ملازمت کومحفوظ نہیں سمجھتے ٗ ان کے سر پر اب بھی تلوارلٹک رہی ہے کہ انھیں کسی نہ کسی بہانے سے جبری طور پر ملازمت سے برطرف کر دیا جا ئے گا ٗ نادرا ملازمین کو دیگر وفاقی اور صوبائی محکموں کے ملازمین کی طرح مراعات دی جا رہی ہیں نہ انھیں دیگر محکموں کی طرح پراپر اسکیل دیا گیا ہے ٗ اب بھی دیگر صوبائی اور وفاقی اداروں میں ڈیٹا انٹری آپریٹر کا اسکیل12 اور 14 ہے مگر نادرا جیسے اہم ادارے میں ڈیٹا انٹری آپریٹرز کو جونیئر کلرک سے بھی کم اسکیل دیا گیا ہے۔

اس کے باوجود نادراملازمین کو قصوروار ٹھہرایا جا رہا ہے ٗ فردِ واحد کی غلطی کی سزا پورے ادارے کو دی جا رہی ہے ٗ وزیر داخلہ کو تو نادرا ملازمین کی خامیاں تو نظر آ رہی ہے مگر نادرا ملازمین کے مسائل نظر نہیںآ رہے نہ ان کی محنت نظر آ رہی ہے ٗ ان کے سامنے نادرا ملازمین کی خامیوں کی نشاندہی تو کی جاتی ہے مگر ان کے اچھے کاموں کے بارے میں کوئی بریفنگ دی جاتی ہے نہ یہ بتایا جاتا ہے کہ نادرا ملازمین کو وفاقی اداروں کے ملازمین جیسی تنخواہ، گریڈ اور دیگر مراعات نہیں دی جاتیں ٗ کیا کبھی انھیں مینجمنٹ نے ملازمین کو درپیش مسائل کے بارے میں کچھ بتایا ہے؟

ہرگز نہیں! بحیثیت وزیرِداخلہ چوہدری نثار کایہ فرض بنتا ہے کہ وہ نادرا جیسے اہم ادارے کو دیگر وفاقی اداروں کی طرح اہم ادارہ بنائیں اور ملازمین کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں۔اس وقت نادرا ملازمین کے چیدہ چیدہ مطالبات یہ ہیں کہ اوّل توان کی یونین کو آئینی اور قانونی حیثیت دی جائے، ملازمین کو دور دراز علاقوں میں تعینات کرنے کی بجائے ان کے اپنے اضلاع میں تعیناتی عمل میں لائی جائے، 20 فیصد الاؤنس جس کی منظوری دیگر اداروں میں دی گئی ہے نادرا کے ملازمین کو بھی دی جائے، اگر دیگر اداروں کے ڈیٹا بیس ملازمین کو 12 اور 13 اس کیل ملتا ہے تو نادرا ملازمین کو بھی دیا جائے۔

دیگر سرکاری اداروں کی طرح نادرا میں بھی ملازمین کیلیے حج کوٹہ سسٹم رائج کیا جائے، نادرا ملازمین کیلیے پراجیکٹس الاؤنسز کی ادائیگی میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ ہو،تقرری و تبادلے کی پالیسی واضح ہو اور پسندو ناپسند کی بنیاد پر تقرریوں و تبادلوں کا خاتمہ ہو، نادرا ملازمین بلوچستان کا مطالبہ یہ بھی تھا کہ بلوچستان میں نادرا ملازمین کے خلاف انتقامی کاروائیاں بند کی جائیں اور ان کو دوران ِڈیوٹی تحفظ فراہم کیا جائے، اپنے علاقوں سے دور تعینات ملازمین کو رہائش سمیت دیگر سہولتیں دی جائیں، نادرا موبائل وین میں کام کرنیوالے ملازمین کے الاؤنسز میں اضافہ کیا جائے اور ڈیلیوری ملازمین کو خصوصی الاؤنس دیا جائے۔

ملازمین کی ترقی میرٹ اور سینیارٹی کی بنیاد پر ہو اور ایچ آر کی وضع کردہ پالیسیوں پر نظرثانی کی جائے، ملازمین کی مستقلی کے عمل کو فوری طور پر مکمل کر کے اسے فنانس ڈویژن اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے منظور کرایا جائے، نادرا ملازمین بلوچستان کو یوٹیلیٹی الاؤنسز دیئے جائیں، غیر قانونی بھرتیوں کے ذریعے نادرا کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے سے گریز کیا جائے، جیسا کہ اس سے قبل ریلوے اور پی آئی اے میں ہوتا رہا ہے۔ نادرا کی طرح بینک ملازمین کے ساتھ محکمانہ زیادتیوں کی داستانیں بھی اکثر سننے میں آتی رہتی ہیں۔ زیر نظر کالم کے حصہ اول میں ایک ریٹائرڈ بینک آفیسر ظفر اللہ خان کا ایک انتہائی اہم مکتوب بزبانِ کاتب خود پیش ہے:

محترم جناب رازی صاحب! میںروزنامہ ایکسپریس میں شائع کردہ آپ کے کالم ’’درونِ پردہ‘‘ کا مستقل قاری ہوں، آپ کے کالم میں قومی مسائل کے بارے میں بے لاگ تبصرے بے مثال اور عوام سے ہونے والی زیادتیوں اور بے انصافی کے خلاف آپ جو آواز اُٹھاتے ہیں، وہ یقینا قابلِ ستائش ہے اور مخلوقِ خدا کے مسائل کو اُجاگر کرنے میں آپ کی کاوشیں قابلِ قدر ہیں ،میں بھی اپنے ساتھ روا رکھی گئی بے انصافی، معاشی قتل اور انسانی استحصال کے خلاف آپ سے رابطہ قائم کرنے پر مجبور ہوا ہوں۔

میں اگر کسی محکوم ملک کا باشندہ ہوتا تو یقینا اس کے خلاف آواز نہ اُٹھاتا لیکن اپنے آزاد ملک کا آزاد باشندہ ہونے کے ناطے میں لب کشائی کرنے پر مجبور ہوں چونکہ میری آواز بہت کمزور ہے لہٰذا میری خواہش ہے کہ آپ میرے ہم آواز بن کر میری حق تلفی و زیادتی کو اربابِ اقتدار کے کانوں تک پہنچائیں۔ میرے اس معاملہ کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ جنابِ والا!میں ظفر اللہ خاں(ریٹائرڈ ایمپلائی یو بی ایل آفیسر، گریڈI-)بینک میں 39 سال سروس کرنے کے بعد 8 ستمبر 2016ء کو آفیسر گریڈI- آپریشن منیجر کی حیثیت سے ریٹائر ہوا ہوں۔

بینک کی جانب سے میری ماہانہ پینشن 3065/- روپے مقرر کی گئی اور یہ کہ تاحیات اسی شرح کے ساتھ پنشن کی ادائیگی بھی مختص کی گئی اور طے پایا کہ گورنمنٹ کی جانب سے اعلان کردہ کسی بھی اضافے کا اس پر اطلاق نہیں ہوگا۔مزیدبرآں میری اس پینشن کی شرح کا تعین اس کی 30 جون 2001ء کی بنیادی تنخواہ 7960/- روپے پر کیا گیا ہے جب کہ ریٹائرمنٹ کی تاریخ 8ستمبر 2016ء کو میری تنخواہ 53154/- روپے تھی۔ 30جون 2001ء کی اس بنیادی تنخواہ پر شرح کے ساتھ تاحیات 3065/- روپے پینشن کی ادائیگی میرے ساتھ انتہائی ظلم و زیادتی، بے انصافی اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ کسی بھی مہذب، باشعور اور متمدن ملک میں ایسی حق تلفی و زیادتی کے متعلق سوچا بھی نہیں جا سکتا اور نہ ہی دنیا کا کوئی مذہب، قانون اس جیسی بے انصافی کی اجازت دیتا ہے۔

یہ حق تلفی سراسر انسانیت اور اخلاقیات کی توہین اور انسانی استحصال کی ایک بھیانک اور بدترین شکل ہے اور یہ تقریباً ایک حساب سے یہ میرے ساتھ نیم سماجی دہشت گردی کے مترادف ہے۔ایک اندازے کے مطابق یہ پنشن کی شرح پاکستان میں سب اداروں کے مقابلہ میں قلیل ترین شرح ہے۔ آئینِ پاکستان تمام پاکستانیوں کے بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور حکومت کو بھی انسانی حقوق کا احاطہ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔

ایک موازنے کے مطابق میرے ہم مساوی گریڈ کے سرکاری ریٹائرڈ ملازمین بشمول  بینک آف پاکستان کے ملازمین کو آج کل چالیس پچاس ہزار کے قریب پنشن مل رہی ہے۔ اس طرح چالیس پچاس ہزار روپے کی جگہ تاحیات 3065/- روپے کی ادائیگی میرے ساتھ امتیازی سلوک کے مترادف ہے‘ اس طرح کا امتیازی سلوک نہ تو ہمارے مذہب میں ہے اور نہ ہی ہمارے آئین میں ہے کہ اس ملک کا ایک شہری تو اے کلاس کی سہولیات اور مراعات سے مستفید ہو جب کہ دوسرا شہری اس سے یکسر محروم ہو۔ یہ سراسر بنیادی انسانی حقوق کے صریحاً منافی ہے۔

1973ء کے آئین کا آرٹیکل 25(1) تمام پاکستانیوں کو مساوی حقوق دیئے جانے کی وکالت کرتا ہے۔ آئین میں جیسا کہ درج ہے ’’قانون کی نگاہ میں تمام شہری برابر ہیں اور مساوی قانونی تحفظ کے مستحق ہیں‘‘ بینک کا میرے ساتھ غیرمساویانہ اور امتیازی سلوک کیا آئین کی توہین کے زمرے میں نہیں آتا؟ میں نے 39 سال تک بینک کی خدمت کی اور اپنا خون پسینہ ادارے کو دیا لیکن ادارے نے مجھے گنڈیری کی طرح چُوس کر پرے پھینک دیا۔ بینک نے 3065/- روپے تاحیات پنشن دے کر میری زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے اور مجھے بے آسرا چھوڑ دیا ہے‘ اس طرح بینک گویا مجھے زندہ رہنے کا حق دینے سے بھی گریزاں ہے، کیا یہ ظلم و زیادتی نہیں؟

سوال یہ ہے کہ کیا یو۔بی۔ایل ریاستِ پاکستان کی دسترس سے باہر ہے اور کیا اس پر حکومتِ پاکستان کا کوئی قانون اور ضابطہ لاگو نہیں ہوتا؟ بینک کے اربابِ اختیار اپنے خودغرضانہ اور بے حسی پر مبنی رویے کے حق میں بے شمار دلائل کے انبار لگا سکتے ہیں لیکن میرے خیال میں بینک کے پروسیجر اور پالیسیاں انسانی ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں اور یہ ایسی الہامی کتاب تو نہیں جس میں زمینی حقائق و معروضی حالات اور عوامی فلاح کو پسِ منظر میں رکھتے ہوئے ترمیم کرنے کی گنجائش موجود نہیں ہے۔

یو۔بی۔ایل ہر سال سالانہ حسنِ کارکردگی کے نام پر اپنے افسران کو فارن ٹرپ پر بیرونِ ملک بھجواتا ہے جس پر اخراجات کی مد میں ایک خطیررقم خرچ کی جاتی ہے لیکن بینک کے پاس اپنے ریٹائرڈ ملازمین کو دینے کیلیے کچھ نہیں ہے۔ بینک نے اپنے پاس سے پنشن کی رقم کی ادائیگی نہیں کرنا ہوتی بلکہ یہ رقم ملازمین کی تنخواہ سے پنشن کی کنٹری بیوشن میں جمع کی گئی رقم سے ادا کی جاتی ہے‘ بینک یہ رقم اپنے قائم شدہ پینشن فنڈ میں جمع رکھتا ہے اور اس فنڈ میں جمع شدہ خطیررقم کو مختلف ذرائع میں انویسٹ کر کے منافع کی مد میں ایک اچھی خاصی رقم کماتا ہے لیکن بینک اس منافع کی رقم میں سے بھی ملازمین کو کچھ دینے کے لیے تیار نہیں۔ آخر میرے جیسے مظلوم ملازمین کے ساتھ کون انصاف کریگا؟

میری تنخواہ سے ہر ماہ اولڈ ایج بینیفٹ کی مد میں بھی ایک مخصوص رقم کی کٹوتی ہوتی رہی مگر جب میں نے اولڈ ایج بینیفٹ ماہانہ پنشن کی وصولی کیلیے متعلقہ گجرات آفس سے رابطہ کیا تو اس ادارہ کی جانب سے یہ سن کر میں حیران و پریشان ہو گیا کہ آپ کا نام ہمارے ریکارڈ میں رجسٹرڈ ہی نہیں ہے اور نہ ہی بینک نے آپ کی سیلری سے کاٹی گئی رقم ہمارے محکمہ کے پاس جمع کروائی ہے‘ لہٰذا آپ اولڈ ایج بینیفٹ کی کسی بھی سہولیات اور مراعات سے مستفید ہونے کے مستحق نہیں ہیں۔ گویا اب مجھے اولڈ ایج ماہانہ پنشن سے بھی محرومی کا سامنا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر ہماری تنخواہ سے منتھلی کنٹری بیوشن حکومت کی طے شدہ پالیسی کے مطابق کی جا رہی تھی تو پھر بینک نے یہ رقم آگے متعلقہ محکمہ کے پاس جمع کیوں نہیں کروائی؟ اگر ہم اولڈ ایج کی مراعات و سہولیات کیلیے کوالیفائی نہیں کرتے تھے تو پھر ہماری تنخواہ سے اس مد میں کٹوتی کرنے کا کیا جواز بنتا تھا؟ بینک نے یہ کٹوتی کر کے کس کی آنکھ میں دُھول جھونکی ہے؟

میں اس صورتِ حال پر انتہائی ذہنی اذیت کا شکار ہوں۔ زندگی انتہائی بے کیف اور بے رنگ ہو چکی ہے اور میں انتہائی مایوسی اور ناامیدی میں گھر چکا ہوں جس کے باعث میں انتہائی ڈپریشن اور فرسٹریشن کا مریض بن چکا ہوں‘ اور یہاں تک کہ اس ذہنی انتشار کے سبب مجھے اپنی مستقبل کی زندگی کے بارے انتہائی سنگین قسم کے خدشات لاحق ہو چکے ہیں ‘اگر خدانخواستہ میری زندگی کسی بڑے انسانی المیہ سے دوچار ہوئی تو اس کی ذمے داری کس پر عائد ہوگی؟

ہمارے ملک کے عوامی نمائندے اپنی تنخواہوں اور دیگر مراعات میں اضافہ کیلیے چند منٹوں میں قانون پاس کروا لیتے ہیں لیکن پرائیویٹ سیکٹر کے ملازمین کے مالی تحفظ اور سروس پروٹیکشن کیلیے اسمبلیوں میں آواز بلند کیوں نہیں کرتے اور اس کیلیے اسمبلیاں اچھی اور پائیدار قانون سازی کیوں نہیں کرتیں؟ ان پارلیمینٹیرینز کو بینک کی جانب سے اپنے ریٹائرڈ ملازمین کے ساتھ روا رکھا گیا ظلم کیوں نظر نہیں آتا؟

میں نے اپنی حق تلفی کے خلاف دادرسی کیلیے کئی مقتدر اداروں کو خطوط تحریر کیے مگر کسی نے بھی جواب دینا مناسب نہیں سمجھا،خدارا مجھ مظلوم پر ترس کھاتے ہوئے میری گزارشات کو اربابِ اختیار کے ایوانوں تک پہنچائیں تاکہ مجھ بے آسرا، بے بس اور لاوارث بینک پنشنر کو انصاف مل سکے۔

ہمارے اربابِ اختیار مغربی تہذیب کے بڑے دلدادہ ہیں اور ان کی روایات پر بڑی بے تابی کے ساتھ عمل پیرا ہوتے ہیں۔ وہاں سینئر سٹیزن کے ساتھ جو برتاؤ و سلوک ہوتا ہے اور ان کے حقوق کے تحفظ کیلیے جو قانون رائج ہیں، کیا ہمارے یہ اربابِ اختیار اس سے باخبر ہیں؟ وہ کیوں اپنے سینئر شہریوں کے حقوق کے تحفظ کیلیے مغرب کی پیروی نہیں کرتے اور ان کی فلاح و بہبود کیلیے مناسب قانون سازی نہیں کرتے؟ خدارا میرے ان مسائل کو اُجاگر کیجیے گا کیوں کہ آج کل صرف اور صرف پرنٹ و الیکٹرک میڈیا ہی دادرسی کے لیے ایک فورم اور طاقتور وسیلہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔