جس کی جتنی بچی ہے جی لو!!

شیریں حیدر  اتوار 19 فروری 2017
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

فیس بک کھولی کہ تازہ ترین اپ لوڈز چیک کروں، یہ سب کچھ اب عادت سی بن گئی ہے، خواہ آپ خاتون خانہ ہوں اور آپ کا کوئی ایسا اہم کام بھی فیس بک سے وابستہ نہ ہو- ’’جس کی جتنی بچی ہے جی لو!!‘‘ پہلا اسٹیٹس نظر آیا، سٹیٹس بھی کسی عام آدمی کا نہیں بلکہ نوجوانوں کے ایک ایسے نمائندے کاجنہیں اس ملک کا کل سنبھالنا ہے، سینہ تان کر دشمن کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔

ہم تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے غالبا اپنی عمر کی زیادہ تر پونجی کو خرچ کر لیا ہے۔ ہم یہ کہیں کہ جتنی بچی ہے جی لو تو اور بات ہے، مگر جنہیں ابھی جینا ہے ان کے منہ سے ایسی بات سجتی نہیں- میرے دل کو گویا کسی نے مٹھی میں لے لیا، یہ پڑھ کر مجھے لگا کہ ہم سب مر چکے ہیں، کیوں کہ امید مر چکی ہے۔

’’ہم سب کیا واقعی جی رہے ہیں؟‘‘ مجموعی طور پر لوگ مایوس اور خوفزدہ ہیں- دشمن کا وار رائیگاں نہیں گیا، اس نے پے در پے حملے کر کے ہمیں اتنے ناگہانی نقصانات سے دو چار کیا ہے کہ ہم سب واقعی اندر سے ڈر گئے ہیں- قیادت کا کہنا کہ کسی صورت میں ملک میں دہشتگردی کی اجازت نہیں دی جائے گی، کیا دہشتگرد آپ کی اجازت سے دہشتگردی کرتے ہیں؟ کیا آپ انھیں لائسنس جاری کرتے ہیں؟

ہمارے تو وہم و گمان میں نہیں ہوتا کہ اگلا وار کہاں اور کس طریقے سے ہونا ہے ان کا ہر وار عوام کے دلوں سے حکومت کا اور سیکیورٹی اداروں کا اعتماد چھین لیتا ہے- ہمارے ہاں سیکیورٹی کے ذمے دار لوگ سوچتے تو بہت ہیں مگر- ان کے ذہن پیسے سے وابستہ جرائم پر کام کرتے ہیں، دوسروں کی حفاظت، جس کا انھوں نے حلف اٹھایا ہوتا ہے، اس کے بارے میں سوچنے کا وقت کسی کے پاس نہیں ہے-

ملک میں جگہ جگہ اجتماعات ہوتے ہیں، ہوٹل، مارکیٹیں، مزارات، دربار، مساجد، جلسے ، جلوس، ٹریفک جام… جہاں جہا ں ایسے اجتماعات اور دہشتگردی کے امکانات ہیں وہاں لوگوں کے لیے داخلے اور اخراج کے لیے راستوں کا تعین اور داخل ہونے والوں کی چیکنگ کا نظام تو اس ملک میں معمول ہونا چاہیے جہاں ہم لگ بھگ دو عشروں سے دہشتگردی کے خلاف کھلی جنگ کا حصہ ہیں- ہم انتظار کرتے ہیں کہ ایک واقعہ ہو تو ہم اسی نوعیت کا دوسرا واقعہ ہونے سے روکیں- بیانات جاری ہوتے ہیں، اگلا حملہ ایک احتجاجی اجتماع پر ہو جاتا ہے ہماری سوچ اور عمل سے بھی تیز رفتاری سے۔

ذمے دار افراد آپ کو ٹی وی اسکرین پر بیٹھے بیانات دیتے نظر آئیں گے- ان کے ووٹوں سے برسر اقتدار آکر اختیارات کے مزے لوٹنے والے تو زندہ ہیں- آپ مزارات اور درباروں کو بند کرنے کا حکم اس وقت دیتے ہیں جس وقت ایک دربار پر سیکڑوں جانوں اور انسانی اعضاء کی قربانی دے چکے ہوتے ہیںاور اس پر مستزاد وہ قوتیں بھی ہیں جو کہتی ہیں کہ کوئی اور تو کیا ایک وہی دربار بھی بند نہیں ہو گا جسے انسان لہو سے لال کر دیا گیا تھا وہاں بھی معمول کی زیارت اور دھمال بھی ہو گی- عقیدت اپنی جگہ مگر حکومتی اور سیکیورٹی اداروں کے احکامات کی خلاف ورزی کو جرم سمجھا جانا چاہیے-

’’تمام صوبوں میں دہشتگردی کے واقعات کی لہر‘‘ سوشل میڈیا پر ایسے بیانات یوں لمحوں میں گردش کرتے ہیں جیسے یہ کوئی کارنامہ ہے جس کا کریڈٹ تمام صوبوں کو یکسا ں مل گیا ہے- باہر بیٹھے ہوئے لوگ دہل گئے ہیں کہ ان کے پیارے جانے کس طرح سانس بھی لیتے ہیں مگر یہاں آپ باہر نکلیں تو یوں لگتا ہے کہ کچھ ہوا ہی نہیں- وہی ٹریفک ہے، وہی ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں کے کنارے پیدل چلتے افراد، انھی میں وہ بھی شانہ بشانہ چل رہے ہیں جو اس ملک میں ناپاک اورمکروہ عزائم کے ساتھ داخل ہوئے ہیں یا یہیں کے رہنے والے ہیں اور جنت میں جانے کے لالچ میں ہمارے دشمن کا آلہء کار بننے کو تیار ہو گئے ہیں-

اگر ہمارا دشمن ہمارے ملک میں ہی رکھ کر ہمارے لیے یہ خود کش مجاہدین’’ ٹسٹ ٹیوب‘‘ کر رہا ہے تو ہماری ایجنسیاں کیوں ناکام ہیں ایسے مراکز کو ڈھونڈنے میں جہاں یہ عمل زور وشور سے جاری ہے؟ کیا کسی ایجنسی نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کون سے ادارے ہیں جہا ں یہ دہشتگرد اور خود کش حملہ آور تیار کیے جاتے ہیں؟ کیا حکومت یوں کھلے عام ان اداروں کو اجازت دے سکتی ہے کہ وہ اپنے نصاب پر ہمارے لیے ’ انسانی بم‘ تیار کریں؟

ہر دور حکومت میں یہ ہوتا رہا ہے- جہاں کوئی حادثہ ہوتا ہے وہاں پر سب سے پہلے فوج کیوں طلب کی جاتی ہے؟ رینجرز کے اختیارات کو گھٹانے اور بڑھانے کی کشمکش جاری ہے توکیوں ہر دہشتگردی کے واقعے کے بعد رینجرز کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے؟ آپ اس ملک میں ٹیکس جمع نہیں کر سکتے، بھوت اسکولوں کا خاتمہ نہیں کر سکتے، بجلی کی چوری کا نظام نہیں ختم کر سکتے، انتخابات نہیں کروا سکتے، سیلاب اور زلزلے سے نہیں نمٹ سکتے، مردم شماری نہیں کروا سکتے، مظاہرین کو منتشر نہیں کر سکتے…

ان سب کاموں کے لیے ہمیشہ فوج طلب کی جاتی ہے ہماری سول سیکیورٹی ایجنسیاں کیا اتنی بیکار ہیں، یہ فورس، وہ فورس ایلیٹ فرس، ایگل اسکواڈ، ڈالفن فورس اور جانے کیا کیا، کتنے ہی اسپیشل پولیس اسکواڈ تیار کر رکھے ہیں آپ نے جن کا موٹو ’’خدمت اور حفاظت‘‘ ہے مگر جہاں حادثہ ہوتا ہے، جہاں کام کرنا ہوتا ہے وہاں یہ سب incapable ہو جاتی ہیں- وہاں فوج اور رینجرز کو طلب کیا جاتا ہے تو پھر ان مختلف پولیس اسکواڈز کا کیا کام ہے؟ اسمارٹ وردیاں پہن کر، اچھی گاڑیوں میں شان سے بیٹھ کر شہر میں گشت کرنا، صرف show of power کے لیے؟ یا آپ لوگوں کی پروٹوکول ڈیوٹی کے لیے؟

اپنی ذاتی اور سرکاری رہائش گاہوں کی سیکیورٹی کے لیے حفاظتی باڑ لگانے، اپنے لیے بلٹ پروف اور بم پروف مواد سے بنی ہوئی گاڑیوں کے لیے جتنی رقوم آپ صرف کرتے ہیں اس رقم سے جانے اس ملک کے کتنے ہی اہم مقامات کی موثر سیکیورٹی کا بندوبست کیا جا سکتا ہے۔

میں آپ سے سوال کر سکتی ہوں کہ آپ میری حفاظت کے لے کیا کر رہے ہیں کیوں کہ آپ اس فرض پر مامور ہیں، ہماری جان، مال اور عزت کی حفاظت پر- ہمیں روٹی ، کپڑا اورمکان دینا آپ کی ذمے داری ہے کیوں کہ آپ ہم پر حاکم بنائے گئے ہیں- ایجنسیوں کو جب عوام کی بجائے حکمرانوں کی حفاظت کا بیڑا دیا جائے گا تو یہی ہو گا آپ کے وجود میں بھی ایک جان ہے اور ہمارے میں بھی، آپ کی جان اہم ہے تو ہماری بھی، ہمارے بچوں کی بھی-

اس دنیا میں چاہے آپ ہر hook or crook سے بچ کر نکل جائیے مگر ڈریں اس دن سے جب درجنوں، سیکڑوں، ہزاروں یا لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگ آپ کا گریبان پکڑے کھڑے ہوں گے اور آپ ایک ایسی ہستی کے سامنے ہوں گے جو ہمارے دلوں کے بھید بھی جانتی ہیں، وہ بھی جو ہم چھپ کر کرتے ہیں اور وہ بھی جو ہم صرف سوچ ہی رہے ہوتے ہیں- بیدار ہوں ، خدارا خواب غفلت سے بیدار ہوں ، معاشرے کی نبض کو جانچیں اور اگر آپ اس کے اہل نہیں توہمت پیدا کریں اور ایک دفعہ کہہ دیں کہ آپ اس عزت اور مرتبے کے قابل نہیں ہیں جو آپ کو مل گیا ہے!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔