لاہور اور سیہون شریف کے بعد دہشت گرد باز نہیں آئیں گے؟

ندیم سبحان میو  اتوار 19 فروری 2017
ذہبی مقامات پر حفاظتی اقدامات بڑھانے ہوں گے۔  فوٹو: ایکسپریس/فائل

ذہبی مقامات پر حفاظتی اقدامات بڑھانے ہوں گے۔ فوٹو: ایکسپریس/فائل

صرف تین ماہ پہلے کی بات ہے جب بلوچستان کے ضلع خضدار میں واقع شاہ نورانی درگاہ پر خود کش دھماکے نے قیامت مچا دی تھی۔ اس خونیں واقعے میں پچاس سے زاید معصوم افراد زندگی سے محروم اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ یہ واقعہ اس امر کا مظہر تھا کہ دشمن اتنا کم زور نہیں ہوا جتنا اسے تصور کرلیا گیا ہے۔

کہاوت ہے کہ دشمن کو کم زور مت سمجھو، اس غلطی کی بھاری قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔ ہماری یہی غلطی تین روز قبل اس وقت مزید اٹھاسی جانیں لے گئی اور کتنے ہی بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو زندہ درگور کر گئی جب موت کا ہرکارہ عقیدت مند کے بھیس میں بِنا کسی دقت کے لال شہباز قلندرؒ کے مزار میں داخل ہوا۔۔۔۔۔ اور پھر چہار سُو قیامت کا منظر تھا۔

شاہ نورانی کے مزار پر ہونے والے خوش دھما کے کے بعد کہا گیا تھا کہ دشمن کی باقیات آسان اہداف کو نشانہ بنارہی ہیں۔ یہ بیان داغنے کے بعد ارباب اختیار جیسے بری الذمہ ہوگئے۔ ملک بھر میں پھیلے مزید ’آسان اہداف‘ بھی ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئے۔ نتیجہ گذشتہ جمعرات کی شام قوم کے سامنے تھا۔

واضح رہے کہ ماضی میں بھی ان مقدس مقامات پر خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی ہے۔ اس تناظر میں، شاہ نورانی کے واقعے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام مزارات اور درگاہوں پر سیکیوریٹی کے مستقل اور جامع انتظامات کیے جاتے مگر افسوس اس جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ درجنوں گھر اُجڑ جانے کے بعد وزیراعلیٰ سندھ تسلیم کررہے ہیں کہ مزار پر سیکیوریٹی تسلی بخش نہیں تھی، تاہم انھوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ ایسے حالات میں جب ملک کو دہشت گردی کی نئی لہر کا سامنا ہے، ایک ایسے مقام پر سخت حفاظتی انتظامات کیوں نہیں کیے گئے جہاں روزانہ ہزاروں لوگ جمع ہوتے ہیں۔

درحقیقت لال شہباز قلندر کی درگاہ پر سیکیوریٹی کے انتظامات ندارد تھے۔ ایس ایچ او سیہون کی جانب سے ذرائع ابلاغ کو دیے گئے بیان کے مطابق مزار کی حفاظت کے لیے دن اور رات کے اوقات میں پچیس، پچیس اہل کار تعینات کیے جاتے ہیں۔

یہ دعویٰ کتنا درست ہے اس کا اندازہ ایکسپریس کے نمائندہ سیہون کی رپورٹ سے ہوجاتا ہے۔ نمائندے کے مطابق عام طور مزار کے دونوں داخلی دروازوں پر تین تین اہل کار تعینات ہوتے ہیں، لیکن وقوعے کے وقت صرف ایک پولیس اہل کار ڈیوٹی کے مقام پر موجود تھا جو زائرین کے ساتھ جاں بحق ہوا۔ واضح رہے کہ جمعرات کے روز مزار پر دھمّال ڈالنے کی رسم ہوتی ہے۔

اس موقع پر دوردراز سے زائرین کی بڑی تعداد مزار پہنچتی ہے۔ یہ موقع انتہائی سخت حفاظتی انتظامات کا متقاضی ہوتا ہے، مگر حال یہ تھاکہ داخلی دروازوں پر نصب واک تھرو گیٹ ناکارہ تھے۔ مزار میں داخل ہونے والوں کی سرسری جسمانی تلاشی لی جارہی تھی۔ لیڈی سرچر کے نام پر صرف دو خواتین موجود تھیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ خواتین نہ تو باقاعدہ سیکیوریٹی اہل کار تھیں اور نہ ہی محکمۂ اوقاف کی تنخواہ دار ملازم۔ نمائندہ ایکسپریس کے مطابق مذکورہ عورتیں مزار کے احاطے میں رہائش پذیر ہیں جنھیں اوقاف کے عہدے داروں کی جانب سے ، آنے والی خواتین کی تلاشی پر مامور کردیا گیا ہے۔

علاوہ ازیں مزار کی حفاظت پر تعینات پولیس اہل کار اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے بجائے کراچی سے وہاں پہنچنے والے ایک صاحب ثروت شخص کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔ اس جمعرات کو ڈیوٹی پر صرف ایک اہل کار کی موجودگی کا سبب بھی یہی تھا۔

مزار کے سجادہ نشین غضنفر شاہ نے بھی بم دھماکے کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے پولیس اہل کاروں پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے بجائے ’کمائی‘ میں مصروف رہتے ہیں، اور نذرانہ لے کر کسی کو بھی مزار کے اندر داخل ہونے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ پولیس اہل کاروں کی جانب سے فرائض میں غفلت برتنے اور سیکیوریٹی کی مجموعی ناقص صورت حال کے حوالے سے ڈی پی او، ڈی سی او اور اے ایس پی سیہون سے بارہا شکایت کی گئی مگر ازالے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔

مزار کے اندر اور باہر چالیس کے لگ بھگ سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں، مگر ان میں سے بیشتر ناکارہ ہوچکے ہیں یا ناقص معیار کے ہیں۔ ان سے بننے والی فلم واضح نہیں ہوتی۔ صرف تین سے چار کیمرے صاف اور واضح عکس بندی کرنے کے قابل ہیں۔

ناقص حفاظتی انتظامات کا ایک اور پہلو بجلی کی عدم دست یابی ہے۔ واضح رہے کہ دھماکے کے وقت علاقے میں بجلی نہیں تھی۔ مزار کے اندر نصب جنریٹر سے برقی رَو فراہم کی جارہی تھی مگر اس سے ہونے والی روشنی مزار کے اندرونی حصوں تک محدود تھی۔ داخلی دروازوں کے باہر نیم تاریکی نے ڈیرا ڈال رکھا تھا۔ ایسے میں مزار کے اندر داخل ہونے والے جم غفیر میں کسی مشکوک شخص کی شناخت کیسے ممکن ہوسکتی ہے۔

سیہون میں گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ معمول کی بات ہے۔ زائرین کی پریشانی کو مدنظر رکھتے ہوئے گذشتہ دورحکومت میں حیسکو نے درگاہ کے لیے خصوصی، شہباز ایکسپریس فیڈر نصب کیا تھا۔ اس فیڈر سے چوبیس گھنٹے بجلی فراہم ہوتی تھی۔ مگر درگاہ سے ماہانہ کثیر آمدنی حاصل کرنے والا محکمہ اوقاف بجلی کا بل ادا کرنے کا متحمل نہ ہوسکا، اور خود درخواست دے کر فیڈر بند کروادیا گیا۔ اس وقت بھی محکمہ اوقاف، حیسکو کا ساڑھے چار کروڑ روپے کا نادہندہ ہے۔

درگاہ لال شہباز قلندر کی سیکیوریٹی کے حوالے سے 2008ء میں ایک جامع منصوبہ تیار کیا گیا تھا۔ منصوبے میں جدید واک تھرو گیٹس، سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب اور دیگر اقدامات شامل تھے۔ سوا ارب روپے اس منصوبے کے لیے مختص کیے گئے تھے۔ تاہم یہ منصوبہ صرف کاغذات تک محدود رہا۔

وطن عزیز میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے پیش نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومتیں بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ہر اس عوامی مقام کی کامل حفاظت ممکن بنائیں جہاں دہشت گردی کی کارروائی کا امکان ہوسکتا ہو۔ خاص طور پر مذہبی مقامات پر مؤثر حفاظتی اقدامات کیے جائیں۔

اس لہر کے ردعمل میں سیکیوریٹی فورسز کی کارروائیاں مثبت اقدام ہے مگر ضرورت دہشت گردوں اور ان کے ناپاک عزائم کو ہمیشہ کے لیے کچل دینے اور اس ناسور کو ختم کردینے کی ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔