موسمی تغیرات جنگوں سے زیادہ تباہ کُن!

ندیم سبحان میو  اتوار 19 فروری 2017
رواں عشرے میں ’’ ماحولیاتی پناہ گزینوں ‘‘ کی تعداد پانچ کروڑ ہوجائے گی، اقوام متحدہ کی تنبیہ ۔  فوٹو : فائل

رواں عشرے میں ’’ ماحولیاتی پناہ گزینوں ‘‘ کی تعداد پانچ کروڑ ہوجائے گی، اقوام متحدہ کی تنبیہ ۔ فوٹو : فائل

انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران اب تک چار لاکھ سے زائد اموات ہوچکی ہیں۔ علاوہ ازیں پانچ سال کے دوران سات لاکھ سے زیادہ افراد اپنا گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں نے نسبتاً پُرامن علاقوں کا رُخ کیا اور ایک بڑی تعداد پناہ کی تلاش میں ملکی حدود سے باہر نکل گئی۔ یورپی ممالک بالخصوص جرمنی نے شامی پناہ گزینوں کے لیے اپنی بانہیں وَا کررکھی ہیں۔

شامی اور دوسرے تارکین وطن کو پناہ دینے کا معاملہ اس وقت عالمی ذرائع ابلاغ پر چھا گیا تھا جب پناہ گزینوں سے بھری کشتیاں سمندر میں ڈوبنے کے واقعات منظرعام پر آئے۔ ترکی کے ساحل پر اوندھی پڑی تین سالہ ایلان کردی کی لاش نے عالمی ضمیر جھنجھوڑ ڈالا تھا۔ اس دل دوز تصویر کی اشاعت کے بعد شامی پناہ گزینوں کے مصائب زبان زدعام ہوگئے تھے۔ آج بھی شام، عراق، نائجیریا اور دوسرے جنگ زدہ ممالک سے لوگوں کی نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک عام تأثر یہ ہے کہ جنگیں ہی لوگوں کو بے گھر کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ یہ درست ہے لیکن کچھ دیگر عوامل بھی بڑے پیمانے پر انسانوں کو نقل مکانی پر مجبور کردیتے ہیں۔ ان میں سرفہرست ماحولیاتی تغیر ہے۔ شامی خانہ جنگی کے نتیجے میں کئی لاکھ لوگ دربدر ہوئے، مگر ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث رواں عشرے کے اختتام تک نقل مکانی پر مجبور ہونے والے لوگوں کی تعداد پانچ کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ یہ تنبیہ اقوام متحدہ کی جرمنی میں قائم یونی ورسٹی کے ادارہ برائے ماحولیات اور انسانی تحفظ نے جاری کی ہے۔ ادارہ ہٰذا کے منتظم جانوس بوغاردی کہتے ہیں کہ موسمی تغیرات کے باعث نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد سالانہ ایک کروڑ تک پہنچ گئی ہے اور گلوبل وارمنگ کی بڑھتی شدت کے پیش نظر صورت حال مزید سنگین ہوجانے کا قوی امکان ہے۔

ڈاکٹر بوغاردی اس ضمن میں کہتے ہیں،’’یہ بات ٹھوس دلائل کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ناموافق موسمی حالات کے ہاتھوں بے گھر ہونے والے لوگوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہورہا ہے۔ تارکین وطن کی اس نئی قسم کو بھی بین الاقوامی معاہدوں میں جگہ ملنی چاہیے، اور ناموافق حالات کا شکار دوسرے پناہ گزینوں کی طرح انھیں بھی خوش آمدید کہا جانا چاہیے۔‘‘

ہلال احمر کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تباہ کاریوں کے نتیجے میں دربدر ہونے والے نفوس کی تعداد جنگ سے متأثرہ لوگوں کے مقابلے میں پہلے ہی بڑھ چکی ہے۔ تارکین اوطان کی یہ قسم عالمی معاہدوں میں بہ طور پناہ گزین شناخت نہیں رکھتی۔ اسی لیے انھیں اس اعانت یا سہولیات کا مستحق نہیں سمجھا جاتا جو تشدد یا سیاسی دشمنی کا شکار ہونے والوں کو فراہم کی جاتی ہیں۔

اقوام متحدہ کے انڈر سیکریٹری جنرل اور یونی ورسٹی کے ریکٹر پروفیسر ڈاکٹر ہانس وین ہنکل ’ماحولیاتی پناہ گزینوں‘ کے مسئلے کو انتہائی پیچیدہ قرار دیتے ہیں۔ پروفیسر کے مطابق عالمی اداروں کے لیے پناہ گزین کی روایتی تعریف پر پورا اترنے والے لوگوں کو سنبھالنا مشکل ہورہا ہے، اس کے باوجود ہمیں پناہ گزینوں کی اس نئی قسم کی تعریف متعین کرنے اور انھیں گلے لگانے کے لیے تیار ہوجانا چاہیے۔

ماحولیاتی تغیرات سے جُڑی ہجرت کی شدت سب صحارن افریقا میں سب سے زیادہ ہے، تاہم براعظم ایشیا بالخصوص بھارت میں ان سے لاکھوں کروڑوں انسان ان تغیرات کی زد میں ہیں۔ اسی طرح یورپ اور امریکا کو شمالی افریقا اور لاطینی امریکا سے آنے والے مہاجرین کے دباؤ کا سامنا ہے جنھیں زمین کی ختم ہوتی زرخیزی اور مستقل خشک سالی نے سرسبز و شاداب زمینوں کا رُخ کرنے پر مجبور کردیا ہے۔

گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سب سے زیادہ ساحلی علاقوں کے رہائشی متأثر ہوں گے۔ دنیا کی نصف آبادی ساحل سمندر سے ساٹھ کلومیٹر کے اندر رہائش پذیر ہے۔ اس طرح کروڑوں کی آبادی سمندر سے چند کلومیٹر کے دائرے میں رہتی ہے۔ سطح سمندر بلند ہونے سے یہ تمام نفوس بہ تدریج نقل مکانی پر مجبور ہوجائیں گے۔

اس تناظر میں ایک بین الحکومتی پینل کے قیام کی ضرورت ہے جو ماحولیاتی تغیر کی صورت حال کا جائزہ لے اور روایتی اور ماحولیاتی مہاجرین کی جداگانہ شناخت متعین کرے۔ اسی طرح بین الاقوامی معاہدوں میں ماحولیاتی مہاجرین کے لیے بھی عام پناہ گزینوں جیسی سہولیات کی فراہمی کی شرائط شامل ہونی چاہییں۔

اس کی ترقی میں ہے تیرا لُہو میرا لُہو۔۔۔۔۔
چین میں کام کی زیادتی سے سالانہ چھے لاکھ ہلاکتیں
پاکستان کا ہمسایہ اور سب سے قریبی دوست چین معاشی میدان میں برق رفتاری سے ترقی کررہا ہے۔ جاپان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے یہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے۔ چینی مصنوعات دنیا کے کونے کونے میں پھیل چکی ہیں۔ پاکستان سمیت متعدد ممالک میں چینی سرمائے سے ترقیاتی منصوبے جاری ہیں۔

کسی ملک کی ترقی اس بات سے مشروط ہوتی ہے کہ اس کے عوام کتنے محنتی اور جفاکش ہیں نیز ان کے اندر اپنے وطن سے محبت کا جذبہ کتنا گہرا ہے۔ ہم اپنے وطن سے جتنی محبت کریں گے، اس کی تعمیر و ترقی کے لیے اتنی ہی زیادہ محنت کرنے پر آمادہ ہوں گے۔ یہ چینیوں کی اپنے وطن سے محبت ہی ہے کہ انھوں نے مسلسل محنت سے اس ملک کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں اسے نئی سُپرپاور کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے۔

دفاع وطن کے لیے تو اس کا ہر سچا سپوت جان لڑانے پر تیار رہتا ہے، مگر چینی قوم ملکی ترقی کے پہیے کی رفتار بڑھانے کے لیے بھی جانیں نچھاورکررہی ہے۔ وطن عزیز کو نئی رفعتوں پر لے جانے کے لیے چینی باشندے شب وروز کام میں مصروف رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ کام کی زیادتی کے باعث بہت سوں کی جان بھی چلی جاتی ہے۔ ساتھیوں کی موت کے باوجود چینی باشندے حد سے زیادہ محنت کی عادت ترک کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جس قوم میں یہ جذبہ ہو وہ بھلا کیسے ترقی نہیں کرے گی!

چینی، کسی دور میں افیون کے نشے میں دھت رہنے والی قوم کہلاتے تھے۔ پھر ماؤزے تنگ کی قیادت میں آنے والے انقلاب سے تبدیلی کا آغاز ہوا۔ قوم کی سوچ بہ تدریج تبدیل ہوئی اور چین نے ترقی کی شاہ راہ پر قدم رکھ دیا۔ آج وہ اس شاہراہ پر برق رفتاری سے گام زن ہے اور نت نئے سنگ میل عبور کرتا جارہا ہے۔ ترقی کے سفر کی رفتار برقرار رکھنے کے لیے ہر سال لاکھوں چینی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں!

چینی ذرائع ابلاغ میں شایع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق کام کی زیادتی کے باعث ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد چھے لاکھ سالانہ تک پہنچ گئی ہے۔ یہ تمام صنعتی کارکنان ہوتے ہیں۔ بیشتر کا تعلق بڑے پیمانے کی صنعتوں سے ہوتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کی عمریں عموماً چالیس برس سے کم ہوتی ہیں۔ جیسا کہ چند روز قبل موت کا شکار ہونے والا چوبیس سالہ نوجوان ہانگ ژو انجنیئر تھا۔ بعض اوقات وہ مسلسل کئی روز تک کام میں مصروف رہتا تھا۔ اس دوران بہت کم آرام کرتا تھا۔ ہانگ ژو کی طرح یومیہ سیکڑوں محنت کشوں کی ہلاکت کی خبریں ذرائع ابلاغ میں سامنے آتی ہیں۔

دن اور رات کا زیادہ حصہ کام میں مصروف رہنے کی وجہ سے صحت پر بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں، جن کا نتیجہ پہلے بیماری اور بالآخر ہلاکت کی صورت میں نکلتا ہے۔ لیبرقوانین کے مطابق ایک محنت کش یومیہ آٹھ گھنٹے اور ہفتے میں چوالیس گھنٹے کام کرنے کا پابند ہے، مگر بیشتر کمپنیوں اور صنعتوں میں مزدوروں کا مقررہ اوقات کار سے زائد وقت کام کرنا معمول کی بات ہے۔ اضافی وقت کام کرنے سے جہاں ان کی آمدنی بڑھتی ہے وہیں اس کا ملکی اقتصادی ترقی پر مثبت اثر پڑتا ہے، لیکن یہ اضافی محنت ان کی صحت پر اثرانداز ہوتی ہے جس کی وہ پروا نہیں کرتے۔

بھارت میں دوائیں50 فی صد تک سستی
پاکستان کہنے کو جمہوری ملک ہے جہاں ہر شہری کو مساوی حقوق اور مساوی آزادی حاصل ہے۔ سربراہ مملکت سے لے کر سڑکوں پر خیرات مانگنے والے بھکاری تک، قانون بھی سب کے لیے یکساں ہے۔ آئینی دستاویز کی حد تک پاکستان مسلم و غیرمسلم سب کے رہنے کے لیے ایک مثالی قطعۂ ارض ہے۔ مگر حقیقت کیا ہے، یہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ معرض وجود میں آنے سے لے کر لمحۂ موجود تک اس ملک پر طاقت وَر اور بااختیار طبقے کا تسلط چلا آرہا ہے جس کے لیے آئین و قوانین کاغذی پُرزے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے جسے یہ (طبقہ) جب چاہتا ہے جوتے کی نوک پر رکھ لیتا ہے۔

اس طبقے میں شامل مال داروں اور بااختیاروں کا مفاد مشترکہ ہے یعنی دولت کے پہاڑ کو اونچا سے اونچا کرنا۔ اس مقصد کے لیے حصول کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ ملکی وسائل لوٹنے کے علاوہ اشیاء کے من مانے نرخ مقررکرکے مصائب کے شکار عوام کی جیبوں پر بار بار ڈاکا ڈالا جاتا ہے۔ ملک میں ایسا کوئی نظام فعال نہیں جو اشیاء کی پیداواری لاگتوں کا تعین کرتے ہوئے اشیاء کے نرخ مقرر کرے۔ کسی بھی انڈسٹری کے کرتا دھرتا جب چاہتے ہیں مصنوعات منہگی کردیتے ہیں۔ چاہے وہ فلور مل مالکان ہوں، شوگر انڈسٹری ہو یا کوئی اور صنعت۔ کچھ یہی حال ادویہ ساز کمپنیوں کا بھی ہے۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران دواؤں کی قیمتیں کئی بار بڑھائی جا چکی ہیں۔

پاکستان میں کسی شے کے نرخوں میں کمی کا تصور نہیں پایا جاتا۔ ایک بار جس شے کی قیمتیں بڑھ گئیں ان کے نیچے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، چاہے پیداواری لاگت آسمان سے زمین ہی پر کیوں ناں آگرے۔ اس سلسلے میں قیمتوں پر نظر رکھنے کے لیے بنائے گئے ادارے بھی عضو معطل ثابت ہوتے ہیں۔
ان اداروں کے لیے بھارت کی نیشنل فارماسیوٹیکل پرائسنگ اتھارٹی نے بے نظیر مثال قائم کی ہے۔ مذکورہ ادارے نے عام استعمال کی 33 ادویہ کے نرخوں میں نمایاں کمی کردی ہے۔ کمی کے بعد یہ دوائیں میڈیکل اسٹورز پر 30 سے 50 فی صد تک کم قیمت پر دست یاب ہوں گے۔ این پی پی اے نے پرائس کنٹرول میں 11نئی دوائیں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ ان 22 نئی ادویہ کی قیمتوں میں مزید کمی کی ہے جن کے نرخ کچھ عرصہ پہلے بھی نیچے لائے گئے تھے۔ ان ادویہ میں نزلہ زکام کی اینٹی الرجی دوائیں، اینٹی بایوٹکس، اور السر، گٹھیا و جوڑوں کے درد، پیٹ ، آنتوں اور تپ دق کے علاج میں استعمال ہونے والی دوائیں شامل ہیں۔ یہ تمام ادویہ ناگزیر بنیادی ادویہ کی قومی فہرست میں شامل ہیں۔

بھارتی وزارت صحت کے مطابق ادویہ کی قیمتوں میں کمی کا مقصد عوام کے لیے علاج معالجہ آسان بنا ہے۔ ہمارے حکم رانوں کو بھی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ موٹرویز اور میٹرو ٹرینوں کے بجائے عوام کو بہترین سہولتوں سے آراستہ اسپتالوں اور کم قیمت ادویہ سمیت سستے علاج معالجے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔