خوئے غلامی کا شکار بیورو کرپٹ

اوریا مقبول جان  پير 20 فروری 2017
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

سپریم کورٹ نے حکم دیا، اردو کو دفتری زبان اور ذریعہ تعلیم کا درجہ دیا جائے، سال بھر خاموشی رہی، وزیراعظم کی طرف سے یہ عہد نامہ جمع کروادیا گیا کہ وہ عالمی سطح پر اردو زبان میں مخاطب ہوں گے۔ لیکن خوئے غلامی اس قدر رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہی ہے کہ پوری دنیا میں اپنی انگریزی کے لب و لہجے کا تمسخر اڑائیں گے، لکھی ہوئی تقریر پڑھیں گے، ہاتھ میں پکڑی ہوئی چٹوں سے پریس کانفرنس کریں گے لیکن اردو میں گفتگو کرنا اپنی توہین سمجھیں گے۔

وہ سیاست دان جن کو انگریزی تو دور کی بات کسی زبان میں اظہار خیال کی دعوت دی جائے تو ان کی گفتگو سے کئی لطیفے جنم لیں، وہ بھی اپنے قائدین کی اس روش پر واہ واہ اور تحسین کے ڈنگرے برساتے ہیں۔ جس دور میں اردو کے حق میں سپریم کورٹ میں بحث جاری تھی تو میرا مؤقف یہ تھا کہ اگر سول سروس کا امتحان اردو میں شروع کردیا جائے تو انگریزی کی حمایت کرنے والے طبقے کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ اس لیے کہ اس پاکستان کی خرابیوں کی جڑ وہ بیوروکریسی ہے جواسی انگریزی کے بل بوتے پر انگریز کے جانے کے بعد بھی حکومت کررہی ہے۔

عام آدمی سے کراہت اور حکمران ٹولے کے قدموں کی دھول کو آنکھوں کا سرمہ بنانا ان کا شیوہ اور وتیرہ ہے۔ سیاست دان کو آج بھی فائل پڑھنا قانونی موشگافیاں ڈھونڈنا اور کرپشن کے ایسے راستے تلاش کرنا کہ ثبوت تک نہ مل سکے، یہ سب نہیں آتا۔ ایک فوجی جرنیل جب حکومت میں آتا ہے تو اسے سالوں اس نظام کو سمجھنے میں لگ جاتے ہیں۔ تب جاکر وہ ان بیوروکریٹوں کے ہم پلہ فائل بازی کی بھول بھلیوں کو جانتا ہے۔ لیکن یہ اعلیٰ دماغ سول سرونٹ، اپنے ان آقاؤں کو کرپش، بددیانتی، دھوکا اور فریب کے تمام گر سکھانے کے لیے فوراً تیار بیٹھے ہوئے ہیں۔

قانون کی شاہراہ پر بددیانتی اور کرپشن کو ختم کرنے کے لیے مختلف ادارے اور افراد بٹھائے ہوتے ہیں جو اسپیڈ بریکر کا کام کرتے ہیں۔ یہ بیورو کریٹ ان تمام اسپیڈ بریکروں کو انتہائی مہارت سے ہٹاتے ہیں اور کرپشن کی گاڑی جس میں یہ سول سرونٹ سیاست دانوں یا جرنیلوں کے ساتھ سوار ہوتے ہیں، فراٹے بھررہی ہوتی ہے۔ یہ ان حکمرانوں کی آنکھ کا تارا ہوتے ہیں۔ ان کا ایک مضبوط اور مستحکم خاندان ہے جو انھوں نے بڑی محنت سے تربیت دیا ہے۔

اس خاندان کا شجرۂ نسب گزشتہ ایک سو سال سے انگریزی میڈیم سے ہوتا ہوا آکسفورڈ، کیمبرج، لندن اسکول آف اکنامکس کی ڈگریوں کے بعد سول سروس کے امتحان میں انگریزی میں لازمی و اختیاری مضامین کی تیاری اور پھر اٹھارہ کروڑ عام انسانوں کے اردو میڈیم ’’مشوروں‘‘ کے مقابلے میں کامیابی سے مرتب ہوتا ہے۔ آپ ان کے شجرہ ہائے نسب نکال لیں۔ کوئی سیاست دان، سرمایہ دار یا جرنیل کا بیٹا ہوگا یا پھر سول سروس کے بعد اس کا داماد بن جائے گا۔ کسی کا ماموں وزیر تو بھانجا ڈپٹی کمشنر، باپ جرنیل تو بیٹا سفیر، بھائی ممبر اسمبلی تو دوسرا بھائی کمشنر انکم ٹیکس، باپ صنعت کار تو بیٹا اکاؤنٹنٹ جنرل۔

یہ سب کے سب ایک رشتے میں پروئے ہوئے ہیں اور ایک مفاد میں جڑے ہوئے ہیں اور ان کو اٹھارہ کروڑ عام آدمیوں سے صرف ایک چیز علیحدہ کرتی ہے اور وہ انگریزی ہے جو انھیں پاکستانی معاشرے میں ’’برہمن‘‘ کا درجہ عطا کرتی ہے۔ آپ ان کے ہاں کامیابی کی معراج کا سنیں گے تو حیران رہ جائیں گے۔ ان کی کامیابی یہ نہیں کہ اس نے عوام کی کتنی خدمت کی، بلکہ بہترین افسر وہ ہے جس نے نوٹ پورشن یا سمری کتنی اچھی تحریر کی۔

معاشرے میں تبدیلی کو روکنے یا ’’اسٹیٹس کو‘‘ Status Quo کو قائم رکھنے کے لیے ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتا ہے کہ بات کومزید غور و غوض کے لیے کمیٹی، کمیشن یا محکمے کے سپرد کردیا جائے اور اگر بہت زیادہ دباؤ آجائے تو کہا جاتا ہے کہ اس کو مرحلہ وار نافذ کردیا جائے۔ یوں پہلے مرحلے میں اس قدر سازشیں کی جاتی ہیں کہ دوسرے مرحلے کی نوبت ہی نہیں آتی۔

پنجاب میں لاہور ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں یہ حکم جاری کیا ہے کہ 2018ء کے سول سروس کے امتحان اردو میں لیے جائیں۔ اس پر پوری سول سروس کے انگریزی کی بنیاد پر اجارہ دار بنے افراد سخت چیں بچیں ہیں۔پہلا فقرہ یہ ہوتا ہے ہم عالمی برادری سے کٹ جائیں گے۔ کوئی ان عقل کے اندھوں سے پوچھے کیا ناروے، سویڈن، ڈنمارک، آئس لینڈ، فرانس، جرمنی، اٹلی، چین، روس، ترکی وغیرہ جو اپنی زبان میں دفتری امور سرانجام دیتے ہیں وہ دنیا سے کٹ چکے ہیں۔

کس قدر منافقت ہے کہ وزیراعظم سے لے کر بائیس گریڈ کے سیکریٹری اور یہاں تک کہ سترہ گریڈ کے بنیادی آفیسر تک کسی کے دفتر میں انگریزی نہیں بولی جاتی۔ تمام سائل یا تو اردو میں اپنا مدعا بیان کرتے ہیں یا مقامی زبان میں۔ جو افسر ایک صوبے سے دوسرے صوبے جاتا ہے اور بہت سے جاتے ہیں، وہ وہاں انگریزی نہیں اردو بولتا ہے، لوگ اس کے سامنے اردو میں اپنامسئلہ رکھتے ہیں۔ لیکن یہ کتنی بدتمیزی کے ساتھ اسے انگریزی میں حکم نامہ یا فیصلہ تھماتا ہے۔ اس سے زیادہ کسی سائل کی کیا توہین ہوسکتی ہے۔ کاش کوئی یہ حکم نامے اور فیصلے ان کے منہ پر مار سکتا۔

ان کی منافقت اور دوغلے پن کا یہ عالم ہے کہ وزیراعظم سے لے کر وزیراعلیٰ، چیف سکیرٹری سے اسسٹنٹ کمشنر، چیئرمین ایف بی آر سے ڈپٹی کمشنر انکم ٹیکس اور کلکٹر کسٹمز آڈیٹر جنرل سے اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ جنرل تک تمام اجلاس، تمام میٹنگز اردو میں ہوتی ہیں لیکن یہ انگریزی زدہ افسران کرام ان کے فیصلے، یا منٹس (Minutes) انگریزی میں تحریر کرتے ہیں۔ سر تھام کر بیٹھے ہوتے ہیں کہ اس شخص نے جو اردو سی بات کی تھی اس کا ترجمہ کیا ہے۔

ان سب کی عدالتوں میں، بلکہ پاکستان کی سپریم کورٹ سے لے کر سول کورٹ تک بحث اردو بلکہ مقامی زبان میں ہورہی ہوتی ہے لیکن فیصلے انگریزی میں تحریر ہوتے ہیں، درخواستیں انگریزی میں لکھی جاتی ہیں۔ یہ لوگ کس کو دھوکا دیتے ہیں۔ یقینا اٹھارہ کروڑ عوام کو دھوکا دیتے ہیں۔ آج کل کمپیوٹر آنے کی وجہ سے ایک اور چیز کا رواج چل نکلا ہے جسے پاور پوائنٹ کی پریزنٹیشن (Presentation) کہتے ہیں۔ یہ سب انگریزی میں سنائی جاتی ہیں لیکن اسے اردو میں بیان کیا جاتا ہے۔

عموماً یہ منطق دی جاتی ہے کہ انگریزی سے اردو میں آنے میں دیر لگے گی۔ ان سے تو انگریز حکمران بہتر تھے جنہوں نے پہلے دن ہی ڈپٹی نذیر احمد مرحوم سے تمام اہم قوانین کا ترجمہ ضابطۂ دیوانی، ضابطۂ فوجداری، تعزیرات ہند، قانون معاملہ زمین وغیرہ اردو میں کروایا تھا اور انھیں نافذ العمل بھی کیا تھا۔

ہر ضلع میں ایک ورنیکلر برانچ ہوتی تھی جو عام آدمی کو اردو میں فیصلے فراہم کرتی اور اردو میں درخواست وصول کرتی۔ انگریزی صرف بڑے افسران تک محدود تھی۔ ہم نے تو وہ سب کچھ ختم کردیا۔ اس لیے کہ ہماری عام آدمی پر صرف ایک ہی برتری تھی اور وہ انگریزی زبان تھی۔ ورنہ یہ سول سرونٹ نہ عقل و ہوش میں بہتر تھے اور نہ ہی ایمانداری میں۔

یہ وہ منافق طبقہ ہے کہ ان کے نظریات بھی حکمرانوں کے نظریات کے تابع ہوتے ہیں۔ یہ ضیاء الحق کے ساتھ بغیر وضو نمازیں پڑھتے ہیں اور مشرف کے دور میں گھر کی عورتوں کو میراتھن دوڑ میں لے کر جاتے ہیں۔

آج اگر ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق فوراً سول سروس کا امتحان اردو میں لینے کا اعلان کردیا جائے تو ان کے گھروں میں فوراً ہزاروں روپے خرچ کرکے اردو کے استاد مقرر ہوجائیں۔ انگریزی اخبارات کی جگہ اردوا خبارات لے لیں۔ صرف پندرہ دن میں پبلشر زدہ تمام گائیڈیں، کتابیں وغیرہ چھاپ کر مارکیٹ میں لے آئیں۔ صرف وہ چند سائنسی مضامین باقی رہ جائیں گے جن کو فوراً اردو میں منتقل نہیں کیا گیا۔ ایسے مضامین کا آیندہ نوکری سے کیا تعلق ہے۔

کیا ڈپٹی کمشنر، سفیر، انکم ٹیکس کمشنر، کلکٹر سسٹم وغیرہ کو نوکری کرنے کے لیے فزکس، کمیسٹری، بیالوجی، باٹنی، میتھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کوئی فزکس کے استاد کے انٹرویو کے دوران پاکستان کی تاریخ پر سوال کرے تو یہ تمسخر اڑاتے ہیں لیکن خود ان مضامین میں امتحان کی اجازت دیتے ہیں جن کا سول سروس کی نوکری سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ لیکن یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا۔ جب تک کوئی اس منافقت کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے فیصلہ نہیں کرتا۔ ورنہ عدالتوں کے فیصلے، ان سول سروس کے ’’برہمنوں‘‘ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ یہ ان سے نکلنے کے سوگر جانتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔