منفی سیاست

مزمل سہروردی  پير 20 فروری 2017
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

دہشت گردی تو پورے ملک میں ہوئی ہے۔ دہشت گردوں نے کسی صوبے کو نہیں بخشا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان اس دہشت گردی کی آڑ میں بھی پوائنٹ اسکورنگ اور سیاسی طعنہ بازی کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔سانحہ لاہور کے بعد تو ن لیگ کی مخالف تمام قوتیں ایک ہی نقطہ پر متفق نظر آرہی تھیں کہ کسی بھی طرح پنجاب میں رینجرز کا آپریشن شروع ہو جائے۔

پیپلزپارٹی کے قمر الزماں کائرہ سانحہ لاہور کے بعد پنجاب اور مرکز کی حکومتوں پر بہت گرج برس رہے تھے اور ان کی نا اہلی کے گیت گا رہے تھے لیکن سیہو ن پر دہشت گردی کے واقعہ کے بعد خاموش ہو گئے۔ سانحہ لاہور کے بعد پنجاب میںفوجی آپریشن شروع کرنے کا شور کرنے والے عمران خان پشاور واقعہ کے بعد چپ کا روزہ رکھ کر بیٹھ گئے۔ سانحہ لاہور پر شہباز شریف پر برسنے والے سانحہ پشاور پر پرویز خٹک کی حمایت کیسے کر رہے ہیں۔

میرے لیے یہ بات بھی حیران کن تھی کہ پنجاب میں رینجرز یا فوج طلب کرنے والے سیاستدان ملک میں فوجی عدالتوں کی توسیع کے لیے تو تیار نہیں ہیں۔ لیکن پنجاب کو فوج کے سپرد کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس ضمن میں ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار کی پوزیشن بھی نہایت دلچسپ ہے وہ کراچی کے مقدمات تو فوجی عدالتوں میں بھیجنے کو تیار نہیں،کراچی میں رینجرز کی تعیناتی کے بھی خلاف ہیں لیکن پنجاب کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔گو ایپکس کمیٹی  میں پنجاب میں رینجرز کی مدد لینے کا فیصلہ ہوا ہے لیکن یہ مدد ویسی نہیں جیسی مخالفین کی خواہش تھی۔ یہ مدد تو پہلے بھی موجود ہے۔

کیا کوئی ان سے سوال کر سکتا ہے کہ پنجاب آپریشن کرنے کا مطالبہ کرنے والے یہ مطالبہ پنجاب کی محبت میں کرتے یا دشمنی میں۔ ان کو یہ بات کیوں نہیں سمجھ آتی کہ اس وقت سب سے بڑا ایشو فوجی عدالتیں ہیں۔ فوجی عدالتوں کی حمایت کرتے وقت میں خدا نخواستہ پاکستان کے عدالتی نظام کے خلاف نہیں ہوں۔بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے حالات ایسے نہیں کہ دہشت گردوں کے مقدمات کھلی عدالتوں میں چلائے جا سکیں۔ عدلیہ پہلے ہی دہشت گردوں کے نشانہ پر ہے ایسے میں ان دہشت گردوں کو کھلی عدالتوں میں پیش کرنے کا رسک کیسے لیا جا سکتا ہے۔ یہ عدالتیں اور قوانین عام شہریوں کے لیے بنائی گئی ہیں ۔

ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ فوج کو ان مخصوص حا لات میں طلب کیا جاتا ہے جب سویلین ادارے ناکام ہو جائیں۔ سیاسی شعبدہ بازی اپنی جگہ لیکن یہ سوال واقعی سنجیدہ ہے کہ کیا پنجاب میں ایسے حالات موجود ہیں ۔ اس بات کا فیصلہ پنجاب کے عوام کریں گے یا پنجاب سے باہر رہنے والوں کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا جائے کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ پنجاب میں رینجرز یا فوج تعینات کرنے کی ضرورت ہے کہ نہیں۔

پنجاب کی حکومت تو یہ ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اس ضمن میں وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر قانون واضح اعلان کر چکے ہیں کہ وہ پنجاب میں دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے رینجرز کی تعیناتی کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کے سیاسی مخالفین اس کو شہباز شریف اور اس کی ٹیم کی ہٹ دھرمی قرار دے رہے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ شہباز شریف کا پنجاب میں امن و امان قائم رکھنے کی جنگ لڑنے والے سویلین اداروں پر اعتماد ہے۔

ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی سے شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ نہ تو کمزور ہوگی اور نہ ہی ختم۔ بلکہ جن علاقوں اور صوبوں میں اس وقت رینجرز تعینات ہے کیا وہاں سیاسی حکومتیں ختم ہو گئی ہیں۔کیا بلوچستان اور کے پی کے میں فوج اور رینجرز کی تعیناتی کے باوجود وہاں وزیر اعلیٰ کام نہیں کر رہے۔ کیا کراچی میں رینجرز کی موجودگی کے باوجود سندھ حکومت اور وزیر اعلیٰ سندھ کام نہیں کر رہے۔ بلکہ شہباز شریف تو یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پنجاب کے سویلین ادارے مضبوط ہیں۔

کیا ایسا نہیں ہے کہ پنجاب میں امن و امان کی صورتحال باقی صوبوں کی نسبت بہتر ہے۔اسی لیے انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ، ریپبلکن انسٹی ٹیوٹ اور پلڈاٹ کی تازہ رپورٹ کے مطابق پنجاب میں امن و امان کی صورتحال باقی صوبوں سے کہیں بہتر ہے۔ اس ضمن میں پنجاب نمبر ون ہے ۔ البتہ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے تو یہ ایک ایسا ناسور ہے جو پنجاب سندھ بلوچستان اور کے پی کے کی تمیز اور تفریق نہیں کرتا۔ اسی سروے کے مطابق ویسے تو پنجاب دیگر کئی شعبوں میں بھی باقی صوبوں سے آگے ہے۔

لیکن میری اس ساری بحث کا یہ مطلب نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج کا کوئی کردار نہیں۔ بلا شبہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے آگے فوج کے جوان ہیں۔ اور اس سے  بات سے بھی کون انکار کر سکتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے میں اہم کردار انٹیلی جنس اداروں کا بھی ہے۔ بہر حال زور اس بات پر دینے کی ضرورت ہے کہ ہم انٹیلی جنس اداروں کی استطاعت مزید بڑھانے پر توجہ دیں۔

ملک میں پانچ دن میں دہشت گردی کے پے درپے واقعات کسی بھی سول حکومت کی نا کا می نہیں قرار دئے جا سکتے ،بہرحال دہشت گردوں کے نیٹ ورک کی موجودگی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ اس مضبوط نیٹ ورک توڑنے کے لیے انٹیلی جنس اداروں کو مزید محنت کرنی ہوگی۔ یہ کہا جاتا ہے کہ جنوبی پنجاب میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔

داعش نے جنوبی پنجاب میں اپنا نیٹ ورک قائم کر لیا ہے اس لیے جنوبی پنجاب میں ایک بڑے آپریشن کی ضرورت ہے۔ لیکن حیرانگی کی بات ہے کہ اب تک جنوبی پنجاب میں ایسے کسی نیٹ ورک کی واضح نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔ ایک سال قبل کچہ کے علاقہ میں موجود چھوٹو گینگ اور دیگر ڈاکوں کی موجودگی پر کہا جاتا تھا کہ وہاںدہشت گردوں کا نیٹ ورک موجود ہے۔ اور جنوبی پنجاب کی اہم شخصیات اس کی سرپرستی کر رہی ہیں۔ لیکن پہلے پولیس اور پھر فوج نے چھوٹو گینگ اور کچہ کے علاقہ میں آپریشن کر کے چھوٹو کو گرفتار کر لیا۔لیکن چھوٹو گینگ ڈاکو گینگ تھا۔وہاں سے دہشت گردی کا کوئی نیٹ ورک نہیں نکلا۔ اپنے سیاسی عزائم کے حصول کے لیے منفی بیان بازی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمیں کمزور کر سکتی ہے۔ کاش ہمارے سیاستدانوں کو یہ بات سمجھ آجائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔