مائیں ترجیحات درست کریں

اہلیہ محمد فیصل  پير 20 فروری 2017
چوں کی غذا میں قدرتی چیزوں پر انحصار بڑھائیں۔  فوٹو: فائل

چوں کی غذا میں قدرتی چیزوں پر انحصار بڑھائیں۔ فوٹو: فائل

’’نہیں بھئی! میرے بچے کو پھل ٹھنڈ کر جاتے ہیں، ذرا موسمی یا کینو کھا لیا تو سینہ جکڑ جاتا ہے۔‘‘

’’دہی۔۔۔ توبہ کرو، دہی سے تو میرے بچے کو الرجی ہے، بس دہی کھائی اور کھانسی اور گلے نے آ گھیرا۔‘‘

’’کیلا اور سوجی بے شک فائدہ مند ہیں، بچوں کی نشوونما کرتے ہیں، مگر میرے بچے کو ۔۔۔نہ بابا نہ، اس کو راس نہیں کیلے اور سوجی۔‘‘

’’تازہ رس۔۔۔وہ بھی گھر کے، کبھی نہیں، بچے پیتے ہی نہیں، بازار کے رس ہی ٹھیک رہتے ہیں، پھر گھر کے تازے رس سے کھانسی بھی تو ہو جاتی ہے۔‘‘

یہ ہیں وہ جملے جو بہت سی ماؤں کی زبان سے ادا ہوتے رہتے ہیں۔ شاید اس میں ان کی آرام طلبی یا غلط سوچ کو بھی دوش ہے، کیوں کہ موسمی اور کینو وٹامن سی سے بھرپور ہیں، جب کہ ماؤں کے ذہنوں میں اس کے اُلٹ تصورات بیٹھے ہوئے ہیں۔ وٹامن سی سینے کی جکڑن میں مفید مانا جاتا ہے۔ ایک طرف یہ مائیں قدرتی چیزوں کے آگے مزاحم ہوتی ہیں تو دوسری طرف غیر معیاری اجزاسے بنی ہوئی کھٹی میٹھی ٹافیوں  وغیرہ پر آنکھیں موندے ہوتی ہیں۔

اسی طرح دہی کیلشیم اور پروٹین کا خزانہ ہے، جو بچے روزانہ دہی استعمال کرتے ہیں، ان کی ہڈیوں اور جوڑ صحت مند رہتے ہیں، مگر بہت سے والدین اسی دہی کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھتی ہیں اور  بازار کے خراب تیل میں تلے ہوئے پاپڑ اور چپس وغیرہ بڑے شوق سے بچوں کو کھانے دیتی ہیں، جس سے ان کے گلے ہی خراب نہیں ہوتے، بلکہ منہ، گلے پیٹ اور جلد کے امراض کے چھالے عام ہیں۔

ڈاکٹروں کے کلینک بے پناہ رش کے باعث چھوٹے پڑ جاتے ہیں، لیکن وہاں بھی ننھے نونہال انتظار میں کھڑے ہوئے ایسی ہی غیر معیاری چپس اور جوس وغیرہ سے شغل فرما رہے ہوتے ہیں۔ غذائی اجناس دال، دلیہ اور روٹی وغیرہ سے بچے کتراتے ہیں، جب کہ رنگ برنگی کریموں والے غیر معیاری بسکٹ بڑے شوق سے تناول فرماتے ہیں اور مائیں کہتی نظر آتی ہیں کہ ’’چلو کچھ نہیں تو کم ازکم بسکٹ تو کھا رہا ہے، بھوکا تو نہیں رہ رہا۔‘‘

اگر آپ تجزیہ کریں، تو بازار کی ان غیر معیاری چیزوں سے روشناس کروانے والے اپنے بچوں کو ہم ہی ہیں اور پھر کبھی بچہ پیٹ پکڑ کر رو رہا ہے، تو کبھی دانت پکڑ کے۔ کبھی نزلے اور زکام سے بے حال ہے، تو کبھی بخار سے۔ اس سب کے باوجود بھی مائیں قدرتی غذاؤں، پھلوں اور ان کے رس کو ہی بیماریوں کی وجوہات کی فہرست میں ہی رکھتے ہیں، جب کہ ہم چند رپوں کی یہ چیزیں نہیں لیتے، بلکہ یہ بیماریاں ہوتی ہیں۔ اس کی جگہ اتنے ہی پیسوں سے ہم موسم کے کوئی پھل وغیرہ خرید لیں کر اس کی اہمیت اور افادیت بتاتے ہوئے کھلائیں، تو بعید نہیں کہ ہمارا بچہ ایک صحت مند فرد بن کر فعال معاشرے کی بنیاد رکھے گا۔

بچوں کو چوں کہ بازار کی رنگ برنگی پنّیوںمیں لپٹے ہوئے بسکٹ، ٹافیاں اور چپس وغیرہ  زیادہ پرکشش معلوم ہوتے ہیں۔ اسکول میں بھی یہی رجحان پایا جاتا ہے۔ بہت سی ماؤں کو شکایت ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو گھر کے تیار کیے ہوئے توس دیتی ہیں، لیکن بچے اس کے بہ جائے اپنی کلاس میں یہ کسی اور کو دے دیتے ہیں اور بدلے میں اس کی لائی ہوئی چپس سے شوق کرتے ہیں۔ بہت سی ماؤں کو فرصت نہیں ہوتی، چناں چہ وہ اس کو یوں ہی چلتے رہنے دیتی ہیں کہ اچھا کہ بچہ ان ہی چیزوں میں بہل رہا ہے اور انہیں اس کے لیے زیادہ محنت  نہیں کرنی پڑ رہی۔

بہت سی مائیں ملازمتوں سے بھی وابستہ ہوتی ہیں، اس لیے وہ سوچتی ہیں کہ اس طرح سے اُن کا وقت بچ رہا ہے دوسری طرف ان کا یہی ’بچا ہوا‘ وقت ڈاکٹروں کے پاس طویل انتظار میں لگ رہا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ بچے کی صحت الگ خراب ہوتی ہے، جس سے اس کی تعلیم کا بھی حرج ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مائیں اپنی غلط ترجیحات اور وہمات کو بدل کر اپنے ننھے نونہالوں کو صحیح غذا اور غذائیت سے بھرپور غذا دیں اور ساتھ ہی اس کی اہمیت اور افادیت ان کے دلوں میں بٹھائیں، تاکہ ان کا ان چیزوں کو لینے کا شوق اور رجحان بڑھے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔