حضرت لعل شہباز قلندر

ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی  منگل 21 فروری 2017

وادیٔ مہران میں دین اسلام کی روشنی پھیلانے والے، معاشرے کے ہر طبقے کو دین، رواداری اور محبت کا درس دینے والے، صوفی بزرگ حضرت لعل شہباز قلندر کی درگاہ میں ہونے والے خود کش حملے پر ہر درد مند پاکستانی  اور ہر انسان دوست دکھی اور سوگوار ہے۔ لاہور، پشاور، مہمند اور کوئٹہ میں ہونے والی تخریبی کارروایوں کے بعد لعل شہباز قلندر کے مزار پر حملہ، پاکستان پر اور امن و رواداری پر حملہ ہے۔

آپریشن ضربِ عضب کے اختتامی مراحل میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر کئی حقائق واضح کر رہی ہے۔ سب سے اہم یہ کہ پاکستان کے بیرونی اور اندرونی دشمن پاکستانی قوم میں غصہ، انتشار اور مایوسی پھیلانا چاہتے ہیں۔

پاکستانی قوم کئی دہائیوں سے حالتِ جنگ میں ہے۔ 1979ء کے بعد سے پاکستان کو کبھی سوویت یونین کے غصہ اور جارحانہ عزائم ، کبھی  افغانستان کے معاملے میں امریکی  دھمکیوں اور ناراضیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ پاکستان کے مشرقی پڑوسی بھارت کا پاکستان کے ساتھ عداوتوں سے پُر رویہ تو ہمیشہ سے ہی رہا ہے۔ افغانستان پر سوویت یونین کے غاصبانہ قبضے کے وقت محض پاکستان دشمنی میںبھارت سوویت یونین کا حمایتی رہا۔

2001ء کے بعد افغانستان پر امریکی افواج کے کنٹرول کے بعد بھی بھارت نے افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی پالیسی  اختیار کی ۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی اکثر وارداتوں کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہونا ایک واضح حقیقت ہے۔ اہلِ پاکستان کے لیے شدید تشویش کی ایک بات یہ ہے کہ کئی برسوں سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے ڈانڈے افغان سرزمین  سے مل رہے ہیں۔ پاکستان اپنے مغرب میں واقع چند مسلم ممالک کی پراکسی وار سے بھی متاثر رہا ہے۔

پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا کئی عالمی طاقتوں خصوصاً امریکا کو پسند نہیں ہے۔اس حوالے سے امریکا نے  بھارت اور پاکستان کے لیے علیحدہ علیحدہ پالیسیاں اختیار کررکھی ہیں۔چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کی تعمیر پر بھی بھارت اور دیگر کئی ممالک خوش نہیں۔ ان تمام معاملات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان میں بیرونی سرپرستی میں ہونے والی تخریبی کاروائیوں کو ایک بڑے کینوس پر دیکھنا چاہیے۔

پاکستانی قوم کو سلام۔ 1979ء کے بعد سے آج تک کے حالات گواہ ہیں کہ پاکستانی قوم نے انتہائی مشکل اور خطرناک حالات میں اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کے عزائم کو مسلسل ناکام بنایا ہے۔ دنیا کی شدید مخالفت، دھمکیوں، پابندیوں اور دباؤ کے باوجود پاکستان ایک ایٹمی طاقت بننے میں کامیاب ہوا۔

اس کامیابی کا سہرا ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، بے نظیر بھٹو، نواز شریف سمیت 1974ء سے لے کر 1998ء تک کے تمام حکمرانوں اور فوجی سربراہوں کو جاتا ہے۔ جو قوم مالی تنگیوں اور شدید پابندیوں کے باوجود محض چند سال میں ایک ایٹمی طاقت بن سکتی ہے وہ دنیا کے کسی بھی بڑے سے بڑے چیلنج کا سامنا کرسکتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی پاکستانی قوم کو درپیش ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔ پاکستانی قوم اپنی بہادر مسلح افواج کے ساتھ مل کر اس چیلنج میں بھی سرخرو رہے گی۔

جنگ روایتی ہو یا دہشت گردوںکے خلاف جنگ، کسی بھی قسم کی جنگ قوم اور فوج کے بھرپور تعاون کے بغیر جیتی نہیں جاسکتی۔ پاکستانی قوم اپنی فوج پر بھروسہ اور اعتماد کرتی ہے۔ چند سال پہلے پاک فوج کی طرف سے کیا جانے والا سوات آپریشن  ہو یا آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردوں کے حملے کے بعدمسلح افواج کا آپریشن ضرب ِعضب ۔ یہ کامیابیاں فوج پر قوم کے بھرپور اعتماد کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی ہیں۔

پاکستان کے بیرونی اور اندرونی دشمنوں کاایک اہم ہدف یہ ہے کہ پاکستانی قوم اور مسلح افواج کے درمیان بھرپور اعتماد کے رشتے کو کمزور کیا جائے۔ پاکستانی دشمنوں کا ایک مقصد ریاست ِ پاکستان کے بارے میں عوام میں شکوک و شبہات پھیلانا بھی ہے۔

پاکستان ایک کثیر الثقافتی اور کثیر اللسانی ملک ہے۔ پاکستان میں شمال تا جنوب نو سے زائد بڑی زبانیں بولی جاتی ہیں، کئی مقامی بولیاں ان کے علاوہ ہیں۔ اس ثقافتی رنگارنگی اور لسانی تنوع کے صوفیانہ نظریات کے ساتھ اعلی امتزاج نے پاکستانی معاشرے کو استحکام اور حسن عطا کیا ہے۔ پاکستان کے مختلف خطوں میں مختلف زبانیں بولنے والے، مختلف مسالک پر عمل پیرا  اور مختلف عقائد کے ماننے والے ایک ساتھ رہتے ہیں۔ دفتروں کارخانوں میں،  بڑے اور چھوٹے اداروں میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔

دیکھئے! چھوٹے موٹے اختلافات انسانی معاشروں میں ہوتے رہتے ہیں، ان سے قطع نظر ہمارے ملک کے مختلف شہروں میں لوگ آپس میں اخلاص اور اتفاق کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ اخلاص ، رواداری اور اتفاق ہمارے دشمنوں کا ایک بڑا ہدف ہے۔ ہمیں اس بات سے اچھی طرح باخبر رہنا چاہیے کہ ہمارے دشمن پاکستان میں نسلی ، لسانی اور مسلکی اختلافات پھیلانا چاہتے ہیں۔

اللہ کی عبادت، حضرت محمد ﷺ کی رسالت کی طرف بلانے والے، انسانوں سے محبت و احترام کا درس دینے والے صوفیاء کرام کے لیے پاکستانی قوم میں بہت عقیدت و محبت پائی جاتی ہے۔ پاکستان کے دشمن اس عقیدت کو کئی طرح اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ایک طرف تو ان ہستیوں سے وابستہ مراکز پر خود کش حملوں یا بم دھماکوں جیسے اقدامات پر عوام کے غم و غصے کو حکومت، فوج اور دیگر ریاستی اداروں پر شدید دباؤ کے لیے استعمال کرنا دوسری طرف عوام میں مایوسی اور بد اعتمادی پھیلانا۔

موجودہ دور میں ہونے والی جنگیں صرف ہتھیاروں اور گولہ بارود سے ہی نہیں لڑی جاتیں بلکہ مدمقابل کے اعصاب پر حملوں کے لیے نفسیاتی حربے بھی بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ ہمارا دشمن بھی ہمارے خلاف طرح طرح کے نفسیاتی حربے استعمال کررہا ہے۔ عوام میں مایوسی اور حکومت کے لیے بداعتمادی پھیلانا بھی ان نفسیاتی حربوں کا حصّہ ہے۔ پاکستان میں حکومتوں کی کارکردگی کیسی رہی ہے؟ عوام کو صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولتوں کی فراہمی کی صورتحال کیا ہے؟۔ انصاف کی فراہمی کا حال کیا ہے؟۔

ملک کے کئی سوشل انڈیکیٹرز کتنی زبوں حالی میں ہیں؟۔ اور دیگر کئی خرابیاں کئی متاثرہ یا کئی باخبر لوگوں سے کچھ کم یا زیادہ میرے سامنے بھی ہیں۔ ہمیں ان کمزوریوں اور خرابیوں کی نشان دہی اور اصلاحِ احوال کے لیے صدا  بلند کرتے رہنا چاہیے۔ حکمرانوں اور حکومتی اداروں پر بہتر طرز حکمرانی کے لیے دباؤ ڈالتے رہنا چاہیے مگر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کسی سانحے کو پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال ہرگز نہیں کرنا چاہیے ۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج  اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے سپاہی سے جرنل تک ، پولیس کے سپاہی سے لے کر ڈی آئی جی تک نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے قربانیوں کی شاندار مثالیں قائم کی ہیں۔ دہشت گرد حملوں میں ہزاروں معصوم شہری بھی شہید ہوئے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گرد   کئی سو حملے کرنے میں کامیاب رہے لیکن ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان کی مسلح افواج، ایجنسیوں اور پولیس نے دہشت گردی کی ہزاروں منصوبہ بندیوں کو ناکام بناکر بہت بڑی تعداد میں جان و مال کا تحفظ کیا ہے۔

آپریشن ضربِ عضب اپنے آخری مراحل میں ہے۔ سی پیک کی تعمیر شیڈیول کے مطابق جاری ہے۔ پاکستان میں توانائی کا بحران قابو میں آرہا ہے۔ صنعتی، زرعی اور تجارتی شعبوں میں ترقی کے سفر کی رفتار تیز ہونے کو ہے۔ ایسے میں پاکستان کے دشمن مایوسی میں اپنی آخری چالیں چل رہے ہیں۔ پاکستان کے دشمنوں کی ان مایوسیوں کا جواب قوم کو اپنے اتحاد، تنظیم اور یقین محکم سے دینا ہے۔

—————————————————-

21فروری ۔۔۔مادری زبان کا عالمی دن

دنیا بھر میں کئی زبانیں معدوم ہورہی ہیں جب کہ کئی زبانوںکے بولنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔  گزشتہ ایک صدی میں دنیا کی ان قوموں نے زیادہ ترقی کی ہے جنہوں نے تعلیم اور ریاستی معاملات میں اپنی مادری زبانوں کو ترجیح دی۔ ایشیا میں جاپان، چین، کوریا، یورپ میں فرانس، جرمنی، اسپین، ہالینڈ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ برطانیہ میں بھی ذریعہ تعلیم اور حکومتی معاملات ان کی مادری زبان انگریزی میں طے پاتے ہیں۔ مادری زبان میں تعلیم بنیادی انسانی حق ہے۔ پاکستان میں شرح خواندگی میں اضافہ کرنا ہے اور تیز رفتاری سے ترقی کرنا ہے تو ہمیں انگلش کے بجائے اپنی قومی اور مادری زبانوں کو پرائمری اور سیکنڈری اسکول ، کالج اور یونیورسٹی میں ذریعہ تعلیم بنانا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔