دل لہو لہان ہوا کیوں…؟

محمد سعید آرائیں  منگل 21 فروری 2017

وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا ہے کہ ملک کے دل لاہورکو لہولہان کرنے والوں کوکیفرکردار تک پہنچایا جائے گا، جب کہ ایک وزیر نے اعتراف کیا ہے کہ لاہور لہو لہان ہونے کے خطرے کا ریڈ الرٹ واقعی جاری ہوا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر فوجی عمل سے ملک میں دہشت گردی میں نمایاں کمی آئی ہے اوردہشت گرد فاٹا اورکے پی کے سے فرار ہوکر افغانستان یا اندرون ملک فرار ہوکر اپنی خفیہ پناہ گاہوں میں چھپ گئے ہیں اور موقع ملتے ہی دہشت گردی کرادیتے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں پہلی کی طرح تو نہیں مگر اب بھی ملک کے مختلف علاقوں میں جہاں دہشت گردوں کو دہشت گردی کرنا ہوتی ہے کرجاتے ہیں۔

دہشت گردی، بم دھماکوں، اچانک فائرنگ، بارودی سرنگوں کے علاوہ خودکش بم دھماکوں سے کرائی جاتی ہے۔ اگرچہ ہر جگہ دہشت گردی،خودکش بمباروں کے ذریعے نہیں ہوتی مگر ملک میں انتظامیہ نے یہ وطیرہ بنالیا ہے اور دھماکے کے فوراً بعد دھماکہ خودکش قرار دے کر اپنی جان چھڑالیتی ہے اورکہہ دیا جاتا ہے کہ خودکش بمباروں کو روکا نہیں جاسکتا۔

لاہور کا دھماکا بھی خودکش قرار دے کر ہلاک ہوجانے والے بمبارکی عمر اور کپڑوں کی شناخت کرلی گئی ہے جو اپنے مذموم مقصد میں کامیاب ہوکر کیفر کردار تک پہنچ چکا ہے اور اگر اس کے بعض ساتھی بھی تھے جو فرار ہوچکے انھیں اب تلاش کرکے پنجاب کی انتظامیہ انھیں کیفر کردار تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کررہی ہے۔ ملک بھر میں جہاں دہشت گردی کامیاب ہوتی ہے وہاں کے حکمران اور انتظامیہ روایتی بیانات دے کر جان چھڑالیتی ہے اور اب یہ معمول بن چکا ہے۔

ایک عام وزیر سے وزیراعظم تک روایتی بیانات، بیانات ہی سننے کو ملتے ہیں جو سن سن کر عوام کے کان پک چکے ہیں۔ پنجاب میں گلشن اقبال پارک کے دھماکے کے بعد مال روڈ کے اس دھماکے کو بھی اہم قرار دیا گیا ہے جب کہ واہگہ کا دھماکا بھی نہایت اہمیت کا حامل تھا اور لاہور میں ماضی میں پولیس دفاتر سمیت اہم مقامات کو بھی دہشت گرد کامیابی سے نشانہ بناچکے ہیں۔ جس کی وجہ سے اپوزیشن کی طرف سے ایک عرصے سے پنجاب میں بھی نیشنل ایکشن پلان کے تحت فوج اور رینجرز کے آپریشن کا مطالبہ کیا جارہاہے جس کی مسلسل مخالفت کی جا رہی ہے جب کہ پنجاب کے وزیر داخلہ بھی اپنے ہی گھر میں دہشت گردی کا شکار ہوچکے ہیں۔

پنجاب کے وزراء قانون بھی اپوزیشن کی کڑی تنقید کی زد میں چلے آرہے ہیں جس کا جواب وہ پیش کرتے آرہے ہیں مگر پنجاب میں دہشت گردی کے متعدد واقعات اور مال روڈ چیئرنگ کراس سانحہ کے بعد بھی حکومت پنجاب کے ترجمان کہہ رہے ہیں کہ پنجاب میں رینجرز کے آپریشن کی ضرورت نہیں ہے۔ پنجاب پولیس خود دہشت گردی کے واقعات کا نشانہ بن چکی ہے اور راجن پور میں ’’چھوٹو گینگ‘‘ کے خلاف پنجاب پولیس کی ناکامی کے بعد فوج نے ہی اس خطرناک گینگ کے خلاف موثر کارروائی کرکے عوام کو ’’چھوٹو گینگ‘‘ سے نجات دلائی تھی جو پنجاب پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بنا تھا۔

پنجاب پولیس پر عدلیہ کی جانب سے بھی متعدد بار عدم اعتماد کا اظہار ہوچکا ہے اور لاہور کے حالیہ دھماکے کے بعد پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے پنجاب پولیس پر کڑی تنقید کی ہے، اور اہم سیاسی شخصیات پر تھانیداروں کے تقرر و تبادلوں کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ پنجاب کی پولیس مکمل سیاسی ہوچکی ہے جسے حکمران اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں صرف پنجاب ہی نہیں سندھ اور بلوچستان میں بھی پولیس کے سیاسی بنا دیے جانے کے الزامات لگتے رہتے ہیں جو واضح حقیقت ہیں۔

بلوچستان میں پولیس کا کردار چند اضلاع تک محدود ہے جب کہ سندھ میں پولیس مکمل طور پر سیاسی کردار ادا کررہی ہے اور سندھ حکومت پولیس کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی آرہی ہے۔ سندھ پولیس کی خامیوں کا اعتراف تو خود آئی جی پی سندھ اے ڈی خواجہ بھی کرچکے ہیں۔

عمران خان اپنے صوبے کے پی کے پولیس کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے اور دعویٰ کررہے ہیں کہ وہاں پولیس مکمل طور پر غیر سیاسی بنائی جاچکی ہے جس سے اس کی کارکردگی بہت بہتر ہوگئی ہے۔ کے پی کے، کے آئی جی پولیس کو جو اختیارات بقول عمران خان پی ٹی آئی حکومت نے دیے ہیں ایسے اختیارات کسی اور صوبے میں نہیں ہیں۔

پنجاب کی صورتحال کو کسی بھی طرح اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا اور پنجاب کے وزراء کو اطمینان ہے کہ لاہور میں ایک سال بعد مال روڈ پر دہشت گردی ہوئی ہے، مال روڈ لاہورکا بھی دل اہم سرکاری عمارات کا مرکز ہونے کے باعث ریڈ زون قرار دیا گیا تھا، جہاں احتجاجی مظاہرے اور علامتی دھرنے بھی ہوتے آرہے ہیں جنھیں انتظامیہ عدالتی حکم کے باوجود روکنے میں دلچسپی نہیں لے رہی کیونکہ محض لاہور پولیس انھیں نہیں روک سکتی اور ڈاکٹر طاہر القادری جیسے رہنما ایسے حکومتی پابندیوں کی پرواہ نہیں کرتے اور پولیس انھیں ماڈل ٹاؤن کے بعد مزید لاشیں دینا نہیں چاہتی، اس لیے مال روڈ ریڈ وزن ہونے کے باوجود غیر موثر ہوچکا ہے۔

دھماکے کے وقت پولیس کی بڑی نفری چیئرنگ کراس پر موجود تھی اور وہ کسی متوقع دہشت گردی کے الرٹ کے باوجود مشتبہ افراد پر نظر رکھنے کی بجائے محض اپنے افسروں کی حفاظت کررہی تھی مگر اپنے افسروں کے تحفظ میں بھی ناکام رہی۔ دھماکے کے بعد بعض وزراء خودکش بمبار کے چیئرنگ کراس تک پہنچنے کا روٹ اس طرح میڈیا کو بتارہے تھے جیسے انھوں نے خود یہ روٹ مقرر کیا تھا۔

دھماکے کی جگہ احتجاجی مظاہرین بھی موجود تھے جو اگر خودکش بمبار کا ٹارگٹ ہوتے تو وہ وہاں جاتا مگر اعلیٰ پولیس افسران کے قریب بلا روک ٹوک پہنچا اور اس نے خود کو اڑالیا۔ پولیس اہلکاروں نے اسے آنے کیسے دیا کہیں اس کی تلاشی کیوں نہیں لی گئی کیا وہاں موجود اہلکار خودکو بچانے کے لیے مشکوک افراد کی تلاشی نہیں لیتے اور ریڈ الرٹ زون میں ہر آنے جانے والے پر نظر کیوں نہیں رکھی گئی یہ سب کچھ پولیس کی لاپرواہی کا واضح ثبوت ہے۔

بعض وزیر اپوزیشن پر تو برستے رہتے ہیں مگر حقائق کو ہمیشہ نظراندازکرجاتے ہیں اور ان کا بس نہیں چلتا کہ مظاہروں کی میڈیا کوریج پر ہی پابندی لگا دیں۔انھیں حکومتی سیکیورٹی لیپس نظر نہیں آتا اور میڈیا والوں کی تعداد مظاہرین سے زیادہ نظر آجاتی ہے ملک کے دل کا لہو لہو ہوجانا انتہائی شرمناک ہے مگر وزراء کے لیے معمول کی بات ہے شہدا کی نماز جنازہ میں سوٹ میں ملبوس بعض اہم شخصیات کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ لاہور دھماکا حکومتی آنکھیں نہیں کھول سکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔