انصاف کا بول بالا کیسے ہو؟

فاطمہ نقوی  منگل 21 فروری 2017
fnakvi@yahoo.com

[email protected]

شیرشاہ سوری کا دور تھا خانہ جنگی جاری تھی،ایک رات بادشاہ گشت پر تھا۔ اچانک دیکھا کہ ایک عورت چلتی ہوئی آرہی تھی اور ادھر ادھر دیکھے بغیر دریا کی طرف گامزن ہے، اندھیری رات میں کسی عورت کا یوں دریا کی طرف جانا خود باعث حیرت تھا۔ بادشاہ متعجب ہوا اور احوال کی غرض سے عورت کے پیچھے ہو لیا جب اچانک عورت دریا میں چھلانگ لگانے والی تھی تو اسے جا پکڑا اور دریا میں چھلانگ لگانے کا سبب پوچھا۔

معلوم ہوا کہ وہ ایک باعزت ہندو گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ شیرشاہ سوری کے ولی عہد نے اس کو بھرے مجمع میں بے عزت کیا جس کی وجہ سے عورت کے پندار نسوانیت کو شدید ٹھیس پہنچی اور اس نے اپنے آپ کو ختم کرنے میں ہی عافیت سمجھی ۔ بادشاہ نے معلوم کیا کہ کیا اس عورت نے ولی عہد کی شکایت شیرشاہ سوری سے کی؟

عورت جو بادشاہ کو پہچان نہ پائی تھی اور ایک معمولی سپاہی سمجھ رہی تھی۔ اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگی، ولی عہد ایسے ہی لوگوں کی پگڑیاں اچھال رہا ہے اسے اپنے والد کی حمایت حاصل ہوگی جب ہی تو وہ ایسے کام ببانگ دہل کر رہا ہے۔ بادشاہ نے کہا میرا مشورہ مان لو، آج خودکشی کا ارادہ ترک کردو، کل تم بادشاہ کے دربار جاؤ اور لازمی شکایت کرو۔

صبح ہوئی عورت دربار میں پہنچی اوراپنا شکایت نامہ داخل کیا۔عورت کو فوراً شیرشاہ سوری کے دربار میں داخل کردیاگیا جہاں وہ رات والے سپاہی کو بادشاہ کے روپ میں دیکھ کر حیران رہ گئی اور خوف سے کانپنے لگی۔ بادشاہ نے نرمی سے کہا کہ گھبراؤمت، یہ بتاؤکیا تم ولی عہد کو پہچانتی ہو؟ عورت نے ولی عہد کی طرف اشارہ کیا اور کہا میرا مجرم یہ ہے۔

بادشاہ غیض وغضب میں آکر ولی عہد کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے اور اس کے لیے سزا تجویز کرتا ہے۔ یہ دیکھ کر عورت کہتی ہے میں نے ولی عہد کو معاف کیا۔ بادشاہ نے عورت کو انعام واکرام سے نوازا اور خود بھی معافی مانگی اور انصاف کا بول بالا کیا۔ یہ ایک تاریخی واقعہ یا کہانی ہے اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ انصاف کی نظر میں جب تک امیر وغریب سب برابر نہیں ہوں گے حقیقی اور شفاف انصاف نہیں ہوگا۔اس لیے تمام لوگوں کو قانون کی پاسداری کرنی چاہیے جس ملک میں انصاف اور قانون پر صحیح طرح سے عمل نہیں ہوتا وہاں کا نظام ریشہ دوانیوں کی نذر باآسانی ہوجاتا ہے ۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 1400 سال پہلے ایک بااثر قبیلے کی عورت جو چوری کے جرم میں سامنے لائی گئی تھی کو اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم ہوا تو اکثر صحابہ نے کہا کہ یہ بہت بااثر خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ اسی لیے اسے معاف کردیا جائے ایسا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے دین اسلام کو پھیلانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے۔

نبی پاکؐ نے اس وقت یہ کہہ کر سب کے منہ بند کردیے کہ خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی مجرم ٹھہرائی جاتی تو میں اس کو بھی معاف نہ کرتا۔ ایسی سزا اس کو بھی ملتی۔ اس ایمان افروز بات سے یہ آگاہی ملتی ہے کہ جب تک قانون تمام لوگوں کے لیے یکساں نہ ہوگا معاشرہ بے چینی انتشار کا شکار رہے گا ہر بااثر آدمی کو اطمینان رہے گا کہ میں جو کچھ بھی کرلوں کچھ نہیں ہونا بلکہ اس سے شہرت ہی ملے گی۔

بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے جرائم پیشہ مختلف سیاستدانوں کی چھتری تلے دم لیتے ہیں اور پھر ان کے کارناموں کی اس درجہ خوبصورتی سے صفائی دی جاتی ہے کہ مجرم پر سات خون بھی معاف لگنے لگتے ہیں۔ ایک کتاب پڑھی جس میں معروف کالم نگار نے سابقہ چیف جسٹس کے متعلق لکھتے ہوئے ایک جگہ فرمایا کہ ان کے اچھے کارناموں کو چھوڑ کر ان کے بیٹے کو خلاف قانون جاب ملنے پر اختیارات کا ناجائز استعمال کی گردان کی جاتی ہے تو لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ انھوں نے کون سی خود بدعنوانی کی ہے؟

اس طرح کی باتیں پڑھ کر افسوس ہی ہوتا ہے کیونکہ اس طرح تو ہم معاشرے کے ہر فرد کو موقعہ دے رہے ہیں کہ کچھ بھی کرلو جب پکڑے جاؤ تو پھر یہ شور ڈال دو کہ مجھے پکڑنے کی بجائے فلاں کو بھی پکڑو ، زید کو بھی پکڑو، بکر کو بھی پکڑو، اس نے بھی تو یہ کام کیا ہے۔ اسی سوچ کی بدولت تو ہر شخص کسی نہ کسی سطح پر کرپشن کر رہا ہے کہ جب یہ کر رہا ہے تو میں کیوں نہ کروں۔ کسی بھی بااثر فرد کو دیکھ لیں جب بھی ان کی پکڑ ہوتی ہے تو وہ یہ رونا ڈالتے ہیں کہ پچھلے تو سارے کھیل کر چلے گئے انھیں تو کسی نے نہیں پکڑا، اب ہماری باری پر ساری کارروائیاں ہو رہی ہیں۔

اس تواتر سے یہ رونا رویا جاتا ہے کہ یہ بھی پکڑ سے صاف بچ جاتے ہیں کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ جناب آپ اپنا حساب تو دے دیں باقی لوگوں سے بھی جب موقعہ ملا پوچھ لیں گے۔ پانامہ لیکس ہو یا ڈان لیکس ایمان دارانہ منصفانہ کارروائی کے ذریعے ہی معاملات کو سامنے لایا جانا چاہیے یہ کہہ کر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا کہ اس طرح کی کارروائیوں سے جمہوریت کو خطرہ ہے۔ جمہوریت کو انصاف کرنے پر اگر کوئی خطرہ ہے تو ایسی جمہوریت کو دور سے ہی سلام کیونکہ ایسی جمہوریت تو آمریت سے بھی زیادہ بری ہے۔

آج وزرا ببانگ دہل کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم عوام کے ووٹوں سے آئے ہیں اورعوام کے ووٹوں سے جائیں گے یعنی سب کچھ کرکے بھی امید ہے کہ عوام ان کو پھر دوبارہ سر آنکھوں پر بٹھالیں گے؟ اب عوام باشعور ہو رہے ہیں ووٹ کی قوت کا اندازہ ہے مگر کیا کریں درست طریقے سے اگر ووٹ کاسٹ کیے جائیں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ باریاں مکمل ہوں کہیں نہ کہیں جاگیرداری وڈیرہ شاہی سسٹم برقرار رہے جس کی وجہ سے ووٹ اپنی مرضی سے کہاں دیے جاتے ہیں حکم حاکم پر تو سو جانیں بھی قربان ہیں اور اسی سوچ نے آج ہم پر ایسے لوگوں کو مسلط کیا ہے جن کا کوئی قومی نظریہ ہی نہیں سوائے اپنے بچوں کی اور اپنے پروردہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے۔

اوباما نے ایک انٹرویو میں کہا کہ کچن کا خرچہ ہم خود چلاتے تھے۔ انھوں نے نائب صدر بیڈن کی اپنی طرف سے مدد کی، اور پاکستان جیسے غریب ملک میں کچن کے اخراجات پر لاکھوں نہیں کروڑوں اربوں روپے خرچ ہوجاتے ہیں۔ باورچی کے ہاتھ کا کھانا پسند نہ آئے تو پسندیدہ باورچی کو بینک بیلنس سے بیرون ملک طلب کرلیا جاتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔