گیند بلّے سے پہلا ٹاکرا

اقبال قاسم  منگل 21 فروری 2017
 زمانہ میں ٹینس کی گیند ایک روپے چھ آنے کی آتی تھی۔ میرے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ میں خرید لیتا۔ فوٹو: فائل

زمانہ میں ٹینس کی گیند ایک روپے چھ آنے کی آتی تھی۔ میرے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ میں خرید لیتا۔ فوٹو: فائل

میرا بچپن کراچی کے ایک قدیم علاقے، رامسوامی میں گزرا ہے۔ یہ علاقہ جنہوں نے دیکھا ہے، وہ بھی شاید اس کا تصّور نہ رکھتے ہوں جو میرے ذہن میں ہے۔ میرے بچپن کے دور میں رمسوامی کو جو حال تھا، آج وہ نظر نہیں آتا کہ بہت کچھ بدل چکا۔

میں جس رامسوامی میں رہتا تھا اس کا نقشہ یہ تھا کہ وہاں گراؤنڈ کا تصور ہی عبث تھا۔ بلڈنگیں بوسیدہ اور بدرنگ، فٹ پاتھ شکستہ، سڑکیں تنگ اور گندی، نہ کھیلنے کے لیے کوئی میدان نہ بچوں کے لیے کوئی پارک!بچے گھر سے باہر صرف سڑک پر کھیل سکتے تھے۔ ٹریفک کی وجہ سے ان کا کھیل بس بمشکل ہی لطف دیتا تھا۔ آج ایسے ماحول میں رہنے کا تصور بھی گھٹن پیدا کردیتا ہے ،کھیلنے کے بارے میں سوچنا تو بیکار ہے۔

میں نے اسی ماحول میں پرورش پائی۔ اسی بستی میں میرا بچپن گزرا۔ اپنی امی سے زیادہ میں اپنی خالہ کا لاڈلا تھا۔ انہیں مجھ سے بڑا پیار تھا ۔میں انہی کے پاس رامسوامی میں رہتا تھا۔ ان کی محبت و شفقت کا یہ عالم تھا کہ مجھے گھر سے باہر نکلنے نہیں دیتی تھیں۔ ہر وقت نظروں کے سامنے رکھتیں۔ گھر سے باہر جانے کی اجازت نہ تھی لیکن مجھے گیند سے کھیلنے کا بہت شوق تھا۔ ایک قدرتی محبت تھی، جی چاہتا تھا کہ گیند ہو اور میں اس کو اچھالا کروں۔ میں نے صرف ربر کی گیند دیکھی تھی، گیند کی دوسری اقسام سے اس زمانے میں ناواقف تھا۔ گیند کھیلنا چاہتا تھا مگر اس کا حصول ممکن نہ تھا۔ خالہ جان کا خیال تھا کہ گیند ملے گی تو میں باہر نکل جاؤں گا۔ باہر ٹریفک کا زور ہوتا تھا، اس لیے وہ مجھے باہر نہیں جانے دیتی تھیں۔

ایک بار میں کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا تو دیکھا کہ سڑک پہ کچھ لڑکے سفید ٹینس کی گیند سے کھیل رہے ہیں۔ دل بہت چاہا کہ اس خوبصورت گیند کو چھو کر دیکھوں اس سے کھیلوں لیکن خالہ امی کی ناراضی کے خیال سے باہر نہیں گیا۔ پھر میں نے ڈرتے ڈرتے خالہ امی سے گیند کی فرمائش کردی۔ وہ مجھے بہت چاہتی تھیں، میری کوئی خواہش رد نہ کرتیں۔ انہوں نے میری خواہش بھی پوری کردی۔ اس زمانہ میں ٹینس کی گیند ایک روپے چھ آنے کی آتی تھی۔ میرے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ میں خرید لیتا۔بہرحال خالہ امی نے ایک گیند دلا دی۔

ہماری تو جیسے عیدگئی۔ میں نے یہ وعدہ کرلیا کہ میں گھر سے باہر نہیں جاؤں گا ،گھر ہی میں کھیلوں گا۔ گیند ملنے کی اتنی خوشی تھی کہ میں دیوانہ ہوگیا۔ گیند کو ہاتھ میں لے کر اچھالتا پھر پکڑ لیتا۔ انگلیاں گیند سے آشنا لگتی تھیں۔ گھر میں کسی بھی دیوار کے ساتھ گیند اچھال دیتا ۔یوں دیوار بھی میرے ساتھ کھییل میں شریک ہوجاتی۔ میں گیند پھینکتا وہ لوٹا دیتی، میں خوش ہوکر پکڑتا اور پھر نئے انداز سے پھینکتا۔ گیند پھینکنے کے زاویے بدلتے، انداز بدلتے۔ دیوار سے لگ کر گیند بھی اسی طرح مختلف انداز میں واپس آتی۔ اس طرح دیوار میری ساتھی بن گئی۔

کافی دیر تک میرا یہ کھیل جاری رہتا۔ دیوار کے ساتھ کھیلنا میرا معمول بن گیا۔ لیکن دیوار کبھی اپنی جگہ نہیں چھوڑتی ، وہ ہلتی جلتی بھی نہیں ،بس اسی وجہ سے ذرا دکھ ہوتا۔ دل چاہتا کہ کوئی ایسا ساتھی ہو جو اپنی جگہ سے ہل بھی سکے ،جس کو میں مختلف انداز میں گیند پھینکوں۔ اس طلب و جستجو میں ہی تھا کہ ایک روز کھڑکی کے پاس جاکھڑا ہوا۔ نیچے سڑک پہ کچھ بچے کھیل رہے تھے۔ان کے پاس بھی میرے جیسی گیند تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ کئی بچے مل کر گیند کھیلیں تو زیادہ لطف آتا ہے۔ میرے دل میں بھی تمنا پیدا ہوئی کہ نیچے جا کر ان بچوں کے ساتھ کھیلوں ۔مگر وہ لڑکے کرکٹ کھیل رہے تھے اور میں نے کبھی یہ کھیل نہ کھیلا تھا۔میں ان کے کھیلنے کے انداز کو دیکھتا دل ہی دل میں خوش ہوتا رہا۔

خالہ مجھے بہت چاہتی تھیں۔ انہوں نے جو مجھے کھڑکی کے پاس کھڑے ہوئے دیکھا تو میرے انہماک سے شاید انہیں اندازہ ہوگیا کہ میری خواہش کیا ہے۔ چناںچہ جب میں نے ان سے کہا کہ میں نیچے جاکر ان بچوں کے ساتھ کھیلنا چاہتا ہوں تو انہوں نے فوراً اجازت دے دی۔ اب میں خوشی خوشی نیچے سڑک پر آیا، لیکن ان بچوں سے زیادہ شناسائی نہ تھی۔ چپ چاپ ایک طرف کھڑا ان کا کھیل دیکھتا خوش ہوتا رہا۔میں ان کے ساتھ کھیلا نہیں،بس ایک طرف کھڑے ہوکر ان کے کھیل کا طریقۂ کار سمجھتا رہا۔ لڑکے کھیل رہے تھے، میں انہیں دیکھتا رہا۔

جب میں دوسرے دن پھر وہاں پہنچا تو اس مرتبہ لڑکوں نے مجھے بلا کر پوچھا کہ میں بھی کھیلنا چاہتا ہوں یا نہیں؟ میں بخوشی تیار ہوگیا۔ پھر میں بھی ان لڑکوں میں شامل ہوگیا۔ اس کے بعد روز شام کو میں نیچے اتر بچوں کے ساتھ گیند بلّا کھیلنے میںمصروف ہوجاتا۔ ایک دن وہ گیند جس سے لڑکے کھیلتے تھے،کھوگئی اور کھیل رک گیا۔ میں اپنی وہ گیند لے آیا جوخالہ امی نے دلوائی تھی۔

ہمارا کھیل پھر شروع ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ گیند بھی ایک زور دار شاٹ کے نتیجے میں ایک گھر میں چلی گئی۔اس گھر کے بچوں نے گیند چھپادی، نتیجتاً ہم اپنی گیند سے محروم ہوگئے۔ میں ڈرتا ڈرتا خالہ امی کے پاس گیا اور انہیں گیند کھوجانے کی اطلاع دی۔ انہوں نے اور کچھ تو نہ کہا لیکن میرا نیچے جاکر کھیلنا بند ہو گیالیکن یہ پابندی زیادہ عرصہ نہیں رہی، خالہ امی کو میں نے جلد منالیا۔چناں چہ مجھے پھر نیچے جاکر کھیلنے کی اجازت مل گئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔