میرا ملک جل رہا ہے

عابد محمود عزام  بدھ 22 فروری 2017

جب سے ملک میں دہشتگردی کی نئی لہر نے جنم لیا ہے، تب سے دل بہت رنجیدہ ہے۔خودکو مصروف کرنے کی کوشش کے باوجود ہر جانب تباہی، بربادی، آگ، دھویں کے مناظر اور خون میں لت پت بکھری لاشوں کی تصاویر آنکھوں سے اوجھل ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ یہ بہت تکلیف دہ صورتحال ہے۔ یہ کیفیت مزید چند روز رہے گی اور پھر میں، معاشرہ، حکومت اور میڈیا ایک بار پھر اسی طرح بھول جائیں گے، جس طرح برسوں سے سانحات ہوتے دیکھتے اور بھولتے چلے آرہے ہیں۔

یہ المناک سانحات اور تڑپتے لاشے اگر برسوں یاد رہیں گے تو صرف ان والدین کو جن کے لخت جگر خود کش دھماکوں میں بھسم ہوگئے، ان بہنوں کو جن کے بھائی گھر سے صحیح سلامت نکلے، لیکن واپس خون میں لت پت لاش آئی۔ ان بیویوں کو جن کے سرتاج ان کو تنہا چھوڑ گئے اور ان بچوں کو جو ابو کی آواز سننے اور اپنے ماتھے پر ابوکا پیار بھرا بوسہ لینے سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے۔ ان کے دکھ، درد اور تکلیف کا کیا عالم ہوگا، جن کے پیارے دہشتگردی کی وارداتوں میں اپنے عزیز و اقارب کو ہمیشہ اس سے بڑھ کر درد میں مبتلا کر گئے، جس درد میں سانحے کے بعد چند روز ہم مبتلا رہتے ہیں۔

بہت تکلیف دہ مناظر اور بہت تکلیف دہ صورتحال ہے۔ پے در پے المناک سانحات چہرے کی مسکراہٹیں چھین کر دل کو بے چینی و خوف کا تحفہ دے گئے ہیں۔ روز ایک نئی آفت ٹوٹ پڑتی ہے۔ اب تو ہم شاید ان آلام کو سہنے کے عادی سے ہوگئے ہیں اور اب تو معاملہ کچھ یوں ہے:

رنج سی خوگر ہوا انساںتو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں

جب سیکڑوں مسائل میں گرفتار قوم پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں، ملک جل رہا ہو، دھماکے ہورہے ہوں، لاشیں گر رہی ہوں اور ہر جانب تباہی ہی بربادی کے مناظر دیکھنے کو ملیں تو بھلا خوشی کس طرح آکر دے گی۔ ان حالات میں الفاظ بھی پکار پکار یوں کہہ رہے ہوتے ہیں:

غمِ زندگی سناؤں میرا ملک جل رہا ہے
میں خوشی کہاں سے لاؤں میرا ملک جل رہا ہے

دہشتگردی کی نئی لہر نے ایک بار پھر وطن عزیزکو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ چند روز میں دہشتگردوں نے سو سے زاید افراد کو شہید اورسیکڑوں کو زخمی کردیا ہے۔ دہشت گردی کا عفریت جس تیزی سے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، وہ دل دہلا دینے کے لیے کافی ہے۔ دشمن نے محض ایک ہفتے میں ان تمام کامیابیوں کے تاثرکو تاراج کردیا، جو سلامتی کے اداروں اور عام شہریوں نے دو تین سال کی لازوال قربانیوں کے ذریعے استوارکیا تھا۔

دہشتگردی کی حالیہ وارداتیں چند سر پھرے افراد کی کارستانی ہرگز نہیں ہے، اس میں دشمن ممالک کے زرخیز ذہن اور منصوبہ سازوں کی خدمات حاصل ہیں۔ ملک دشمن عناصر کسی طور بھی پاکستان میں امن و سکون نہیں دیکھنا چاہتے۔ گزشتہ ہفتے دہشتگردی کی نئی لہر کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں متعدد افراد کے قتل سے شروع ہوئی اور پھر دہشتگردوں نے لاہور کو نشانہ بنایا، جہاں 13 فروری پیر کے روز چیئرنگ کراس کے مقام پر خودکش حملہ ہوا، جس میں ڈی آئی جی ٹریفک احمد مبین اور ایس ایس پی آپریشنز زاہد گوندل سمیت 13 افراد شہید اور 85 زخمی ہوئے۔

13 فروری کو ہی کوئٹہ میں سریاب روڈ میں واقع ایک پل پر نصب دھماکا خیز مواد کو ناکارہ بناتے ہوئے بم ڈسپوزل اسکواڈ (بی ڈی ایس) کمانڈر سمیت 2 افراد شہید ہوگئے تھے۔ 15 فروری کو وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے فاٹا کی مہمند ایجنسی میں خودکش حملے کے نتیجے میں خاصہ دار فورس کے 3 اہلکاروں سمیت 5 افراد شہید ہوگئے تھے۔

15 فروری کو ہی پشاور میں ایک خود کش حملہ آور نے ججز کی گاڑی کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں گاڑی کا ڈرائیور شہید ہوگیا تھا۔ 16 فروری جمعرات کے روز صوبہ سندھ کے شہر سیہون میں درگاہ لعل شہباز قلندر کے احاطے میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں خواتین و بچوں سمیت 92 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ دہشتگردوں نے بہت منصوبہ بندی کے ساتھ تمام صوبوں کو ٹارگٹ کیا ہے۔

ملک کے مختلف حصوں میں دہشتگردی کی نئی وارداتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ دشمن نے مکمل منصوبہ بندی کے بعد یلغار کی ہے۔ حکومت اب تک یہی کہتی آئی ہے کہ دہشتگردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ یہ تاثر بڑی حد تک درست بھی تھا، لیکن دہشتگردی کی تازہ لہر نے ان دعوؤں کو غلط ثابت کردیا ہے اور دشمن ایک بار پھر پوری تیاری کر کے بے گناہ لوگوں کا خون کرنے کے لیے میدان میں اتر چکا ہے۔ پاکستان کی ترقی، اس کی اقتصادی بہتری اور اہم ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات میں بہتری دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔

چین، پاکستان اقتصادی راہداری کا منصوبہ وضع کیا گیا تو اسے سبوتاژ کرنے کے لیے بھارت نے سر توڑ کوششیں کیں اور بھارت پاک چائنا اکنامک کاریڈور کو سبوتاژ کرنے کے مذموم عزائم کا برملا اظہار بھی کرچکا ہے۔لاہور میں پاکستان سپرلیگ کرکٹ کا فائنل منعقد کیے جانے کے فیصلے سے بھی بھارت کو بہت تکلیف ہوئی۔ تیس سے زاید ممالک کی فورسزکی پاکستان بحریہ کے ساتھ پانچ روزہ مشترکہ کامیاب امن مشقیں بھی بھارت کے لیے تکلیف کا باعث ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کی استقامت نے بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے، جس کا غصہ بھارت پاکستان میں دہشتگردی کروا کر نکالنا چاہتا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کا کسی تساہل کا شکار ہونا کسی طور بھی درست نہیں ہے۔ جب بھی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں، حکومت کی جانب سے دہشتگردی کے خلاف لڑنے کا عزم دہرایا جاتا ہے، لیکن چند دن کے بعد معاملات پھر معمول پر آجاتے ہیں اور جوخامیاںاور کوتاہیاں دور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، اْس طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور پھر ایک نیا دہشتگردی کا واقعہ رونما ہو جاتا ہے۔

حکومت پاکستان کو اس دہشتگردی کے خاتمے کے معاملے میں سخت ایکشن لینا چاہیے اور صرف دہشتگردوں کے خاتمے پر ہی فوکس نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اس کے ساتھ ان ہاتھوں کو بھی کاٹ دینا چاہیے جہاں سے دہشتگردوں کی ڈوریاں ہلائی جارہی ہیں۔ حکومت پاکستان کو افغانستان اور بھارت کو سخت وارننگ دینی چاہیے اور عالمی سطح پر ان کی پاکستان میں دہشتگردی کو بے نقاب کرنا چاہیے۔

بھارت میں اگرکوئی ایک آدھ دہشتگردی کا واقعہ رونما ہوجاتا ہے تو بھارت اس کو بنیاد بنا کر برسوں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرتا ہے، عالمی سطح پر بھی پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن پاکستان میں آئے روز دہشتگردی کی کارروائیاں ہوتی ہیں، جن میں بھارت اور افغانستان کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی مل جاتے ہیں، لیکن پاکستان اس کے باوجود ان کو عالمی عدالت میں کھڑا نہیں کرسکتا۔ حکومت نے اس معاملے میں کبھی کوئی سخت پالیسی اپنائی ہی نہیں۔

موجودہ حکومت نے اقتدار میں آتے ہی ملک سے دہشت گردی کو ختم کرنے اور امن وامان کی صورتحال کو سدھارنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ اس ضمن میں کافی حد تک کامیابی حاصل بھی ہوئی، جن کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت تھی، لیکن سب اپنے اپنے سیاسی معاملات میں الجھ گئے۔ آج ایک بار پھر پوری قوم کو اسی طرح متحد ہونے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔