یاروں کا یار شاہد آفریدی

سلیم خالق  بدھ 22 فروری 2017
آفریدی کے مخالف بھی یہ بات تسلیم کریں گے کہ ان جیسا سپراسٹار اب شاید ہی کوئی دوسرا آئے گا ۔ فوٹو فائل

آفریدی کے مخالف بھی یہ بات تسلیم کریں گے کہ ان جیسا سپراسٹار اب شاید ہی کوئی دوسرا آئے گا ۔ فوٹو فائل

’’آج تو آپ کا دوست صرف 4 رنز پر آؤٹ ہو گیا، ارے آپ کے دوست نے کیسا شاٹ کھیل کر وکٹ گنوائی، بھائی اپنے دوست کو سمجھاؤ کہ ایسے کرکٹ نہیں کھیلی جاتی‘‘

چاہے میں کہیں بھی ہوں زندگی بھر شاہد آفریدی کے حوالے سے اس قسم کی باتیں ضرور سنیں، ہماری دوستی 22 سال پر محیط ہے، جب گلشن اقبال میں واقع شوروم میں میری آفریدی سے پہلی ملاقات ہوئی تو اسی وقت ایسا تعلق بن گیا جو الحمد اﷲ اب تک قائم ہے، حالانکہ بعض ’’دوستوں‘‘ نے کوشش بڑی کی مگر اس دوران کبھی کوئی معمولی سے تلخی بھی نہ ہوئی، مجھے اس بات پر فخر ہے کہ زندگی کے کئی اہم فیصلوں میں آفریدی نے میری مشاورت ضرور لی،ان کے والد مرحوم صاحبزادہ فضل الرحمان آفریدی نے ہمیشہ مجھے اپنے بیٹوں کی طرح پیار دیا،اب شاہد نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا ہے تو میں نے سوچا کہ ان کے حوالے سے کچھ کرکٹ سے ہٹ کر باتیں بھی آپ کے ساتھ شیئر کروں، دنیا کی نظر میں وہ سپراسٹار مگر میں جانتا ہوں وہ دل سے کتنا سادہ انسان ہے، اب بھی جب فارغ ہو اپنے گاؤں جا کر چارپائی پر سو جاتا ہے، غلیل سے نشانے لگاتا ہے، عام بچوں کے ساتھ سڑکوں پر کرکٹ کھیلتا ہے، میں نے بہت سے ایسے کرکٹر دیکھے جو ایک ہی سنچری کے بعد خود کو ڈان بریڈ مین سمجھنے لگے، ان کی آنکھیں ماتھے پر آ گئیں، مگر آفریدی جیسا منکسر المزاج کھلاڑی کبھی نہیں دیکھا، گلشن کے گھر میں عام لوگ پورے دن اس سے ملنے کیلیے آتے اور وہ ڈرائینگ روم میں انھیں بٹھا کر آٹوگراف ، فوٹوگراف کی خواہش پوری کر دیتا۔

آفریدی کو پہلی بار لانگ روٹ پر گاڑی ڈرائیو کرنے کی اجازت ان کے والد نے میرے ساتھ جانے پر ہی دی تھی جب ہم گلوکار علی حیدر کے گھر گئے تھے، والدہ کی اچانک وفات نے شاہد کو توڑ کر رکھ دیا تھا مگر پھر جلد ہی خود کو سنبھال لیا، عبدالرزاق، فواد عالم اور احمد شہزاد اس کے بہت قریب رہے، درحقیقت دونوں بیٹسمینوں نے اپنی زیادہ ترکرکٹ آفریدی کی وجہ سے ہی کھیلی مگر اسے مانتے نہیں ہیں۔ ماضی میں کئی بار ایسا ہوا کہ میں نے کوئی نیوز بریک کی تو الزام شاہد آفریدی پر لگا، ٹیم میٹنگز میں اس حوالے سے گرما گرمی بھی ہوئی، اس حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ بتاتا چلوں کہ آفریدی کے چھوٹے بھائی کی شادی تھی وہاں اس وقت کے چیف سلیکٹر بھی مدعو تھے، انھوں نے سلامی کا لفافہ ان کے ایک رشتہ دار کو تھمایا اور چلے گئے، تھوڑی دیر بعد وہ واپس آئے اور آفریدی کو سائیڈ میں لے کر کچھ کہنے لگے، بعد میں پتا چلا کہ انھوں نے غلطی سے ٹیم سلیکشن کی فہرست والا لفافہ دے دیا تھا، بعد میں ان صاحب نے مجھے بتایا کہ ’’ ہمیں ٹیم کا اعلان 2 روز بعد کرنا تھا، مجھے ڈر تھا کہ کہیں تمہیں پلیئرز کی لسٹ نہ مل جائے‘‘۔ آفریدی انتہائی دلچسپ شخصیت کے بھی مالک ہیں، ایک بار آسٹریلیا میں عبدالرزاق، میں اور وہ شاپنگ پر گئے، وہاں ایک دکان پر جب میں نے 100 ڈالر کا نوٹ دیا توآفریدی کہنے لگے کہ ہم ایشین ہیں لہذا اب یہ ضرور چیک کرے گا اور پھر یہی ہوا وہ دکاندار کسی بہانے سے اندر گیا اور چند منٹ بعد واپس آیا، اس پر آفریدی نے چہرے پر مسکراہٹ سجا کر اردو میں اسے جو باتیں سنائیں وہ سن کر میں اور عبدالرزاق قہقہے لگاتے رہے، وہ بیچارہ دکاندار کچھ سمجھ نہ سکا اور مسکراتا رہا۔

قومی ٹیم کے بعض کرکٹرز صرف اس وجہ سے مجھ سے دور رہے کہ یہ آفریدی کا دوست اور ہمارے خلاف ہے، حالانکہ خدا گواہ ہے آج تک کبھی آفریدی نے مجھ سے کسی کھلاڑی کیخلاف یا اپنے حق میں لکھنے کا نہیں کہا، نہ جب میں نے تنقید کی تو برا منایا، غریبوں کی مدد کا جذبہ تو پہلے سے تھا، اب شاہد آفریدی فاؤنڈیشن بنا کر خود کو اس کیلیے وقف کر دیا ہے، اسی وجہ سے گزشتہ کچھ عرصے کے دوران کھیل میں دلچسپی کم ہوئی تھی اس کا اثر کارکردگی پر بھی پڑا، ان کے کیریئر میں پہلے والد مرحوم اور پھر چھوٹے بھائی مشتاق آفریدی کا گہرا اثر رہا، والد کے انتقال کے بعد مشتاق نے بڑا بن کر فیملی معاملات سنبھالے، اس لیے شاہد کو بھی کرکٹ پر توجہ برقرار رکھنے کا موقع ملا۔ شاہد آفریدی کے کرکٹ میں جتنے کارنامے ہیں افسوس کی بات ہے کہ کیریئر شایان شان انداز میں ختم نہیں ہوا، شاید ان سے بھی غلطی ہوئی اور تاخیر کر دی، بورڈ نے بھی الوداعی میچ کی درخواست قبول نہ کی،اب تو یہی خواہش ہے کہ ان کی ٹیم پشاور زلمی فائنل میں پہنچے اور قذافی اسٹیڈیم میں پرستار خود آفریدی کو خراج تحسین ادا کریں۔

وہ ون ڈے میں32 مین آف دی میچ کے ساتھ دنیا بھر میں پانچویں نمبر پر ہیں، ٹوئنٹی20میں سب سے زائد 11 بار یہ اعزاز ان کے حصے میں آیا، دنیا بھر میں 140 سال کے دوران جتنی بھی ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کھیلی گئی اس میں76 مین آف دی میچ کے ساتھ بھارتی سچن ٹنڈولکر نمبر ون رہے، فہرست میں 43 ایوارڈز کے ساتھ آفریدی چھٹے نمبر پر ہیں،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 43 میچز انھوں نے تن تنہا پاکستان کو جتوائے،20 سالہ کیریئر میں 11185انٹرنیشنل رنز اور 540 وکٹیں انھیں ملکی تاریخ کا نمبر ون آل راؤنڈر ثابت کرتی ہیں، بدقسمتی سے وہ معمولی فرق سے اہم سنگ میل عبور نہ کر سکے، 48 ٹیسٹ، 395 ون ڈے اور 97 ٹی ٹوئنٹی اس کا ثبوت ہیں،پاکستان کرکٹ میں شاہد آفریدی کو عوام کی جتنی محبت ملی شاید ہی کسی اور کے حصے میں آئی ہو،ان سے توقعات زیادہ تھیں اس لیے لوگ جلد آؤٹ ہونے پر ناراض بھی ہوتے تھے، مگر پھر بھی پیار بہت کرتے تھے،آفریدی کے حوالے سے کئی دلچسپ باتیں اور بھی ہیں جو کبھی ضرور قارئین کو بتاؤں گا، اب جبکہ وہ کرکٹ کو خیرباد کہہ چکے ان کے مستقبل کیلیے نیک تمنائیں ساتھ ہیں،آفریدی کے مخالف بھی یہ بات تسلیم کریں گے کہ ان جیسا سپراسٹار اب شاید ہی کوئی دوسرا آئے گا، عمران خان ریٹائرمنٹ کے بعد سیاسی طور پر بھی مقبول ہوئے،آفریدی کو بھی ان کے کرکٹ کارناموں کی وجہ سے ہمیشہ ایک اسٹار کا درجہ ملا رہے گا اور وہ چمکتے دمکتے رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔