تشریح

جاوید قاضی  جمعرات 23 فروری 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

دنیا میں مشکل ترین کوئی کام ہوگا تو وہ ’تشریح‘ interpretation ہے۔ وہ اس لیے ہے کہ خواہ کتنا بھی ہم معروضی ہونے کی کوشش کریں، حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کا دعویٰ کریں مگر اْس میں ہمارا موضوعی اثر بھی پڑ جاتا ہے۔

یوں کہیے تشریح حقیقت نہیں ہوتی، حقیقت کا خلاصہ ہوتی ہے۔ ورنہ کیا بات تھی اتنے سارے خیالات جنم لیتے، اتنی ساری سوچیں، فرقے، مذاہب و تاریخ کے زاویے ہوتے، نکتہ نگاہ ہوتے، اس میں کچھ معاشی مفادات بھی ہوتے ہیں اور پھر ٹکراؤ، تضادات نا گزیر ہوتے ہیں۔

ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب جمود کی سی کیفیت برپا ہو جاتی ہے، چیزیں ٹھہر سی جاتی ہیں۔ یہ بظاہر ایک عمل ہوتا ہے، کیونکہ چیزیں اصولاً ٹھہرتی نہیں ہیں یا توآگے کو جاتی ہیںیا پھر پیچھے۔ یہ ٹھہرنے کا عمل کچھ چیزوں کے اندر توڑ پھوڑ پیدا کر دیتا ہے۔

ایسے خیالات نے مجھے سیہون میں اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میں تشریح چاہتا تھا، حقیقت تک پہنچنا چاہتا تھا جس نے سیہون کے قلندر کو عضو عضو نڈھال کر دیا تھا ۔ کیا تھا سیہون میں، وہ بازار کہیے یا راہ کہیے جو درگاہ کی طرف جاتی تھی۔ بے یارومددگارچہرے، بچے، بوڑھے، مائیں۔ اْن دکانوں پہ سوالیہ نشان کے مانند، بتاشے، چادریں، ٹوپیاں بیچنے والے۔ تو ادھر فقیر ملنگ، زائرین اس کے خریدنے والے۔ یہ جائیں توکہاں جائیں اگر یہاں سے جاتے ہیں، توکیا وہاں اْن کی دکان کی بِکائی ہو گی۔ اگر ان کی چیزیں نہیں بکیں گی تو گھرکا چولہا کیسے چلے گا اور اگر نہیں جاتے تو کِسے یقین ہے کہ اب کی بار دھماکا نہیں ہو گا۔ اْن کے چہروں پر موت کے سائے تھے۔

ایک طرف تو یہ تشریح ہے اور دوسری طرف یہ بھی تھا کہ اْن کے اندر خوف و ڈر نہیں تھا۔ بس صرف دْکھ تھا، درد تھا اپنے پیاروں سے بچھڑنے کا۔ کتنا بھی بْرا بھلا کہو سندھ حکومت کو، مگر اڑتالیس(48) گھنٹے کے اندر مزار پھر رواں دواں تھا۔ بازار پھرکْھلا پڑا تھا۔ پا بہ جولاں، مست و رقصاں، خْم بداماں چاک گریباں، است قلندر دم دم دمادم مست قلندر۔کتنی شکست تھی اْس پوْرے روشنِ جمال میں کہ جیسے چیونٹیوں کے قافلے پر کوئی اگرکوئی پاؤں رکھ دے اورسیکڑوں چیونٹیاں اْس پاؤں کے نیچے مر جائیں مگر قافلہ رواں دواں ہے۔ یا اْس میں کوئی شِدت عیاں ہے۔

غم ہے، آنکھ نم ہے، توغصہ بھی تھا، طیش بھی تھا۔ وہ نقارہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا جس پر ہاتھ سے پڑی ایک تھاپ سے جیسے آکاش ہِل جاتا ہو۔ اْس کے ملنگوں کے پاؤں میں گنگھروْ تھے وہ جْھومنے لگے۔اِن کے ساتھ ساتھ میرے ساتھ کراچی سے آئی ہوئی ’’شیما‘‘  بھی  جھوْم پڑی اور پھر یوں ہم سب گھْومنے لگے۔ رْومی کی طرح وِرد کرنے لگے۔

درِ عشق جسم نہ جانم
چیز ِعجز عیں نہ آنم

افسوْنِ در زماںو در زمانم
بِیرونِ زِمکاں و در مکاں

ہر جا خرابِ رومِ عشقم

روْمی کی اِس فارسی نظم کا ترجمہ یہ ہے۔

’’ عشق کی کیفیت میںنہ جسم میں رہا ہوں نہ جان فقط تِنکے کی مانند ہوں نہ میں یہ ہوں نہ میں وہ ہوں، رہتا زماں ومکاں میں ہوں، اور ہوں میں زماں و مکاں سے بڑا، رْومی عشق چیز کچھ ایسی ہے‘‘

سندھ میں درگاہوں کا بازار ہے۔ شہرشہر، نگر نگر، ایسے الست و مست آپ کو ملیں گے ان کے اپنے مے  خانے ہیں، آستانے ہیں اور آستانوں پر الم ہے جس پر سیاہ جھنڈا لہراتا ہے۔ حیرت مجھے ہوئی کہ  قلندر کے آنگن میں ایک طرف ہم بمع ’’شیما کرمانی‘‘  محوِ رقص تھے،  چپٹے و یکتارے تھے نقارے تھے، گھنگھروْ ودھمال تھی تو دو قدم کے فاصلے پر اْسی آنگن میںماتم برپا تھا۔ کالے کپڑے اوڑھے ہوئے، سینے کْھلے اور یا حسین یا حسین کر رہے تھے۔

اِدھر ہم تھے لعل قلندرکے لال پیرہن اوڑھے ہوئے تھے یہ کیا تھا، یہ یہ تھا کہ تم بھی جیو اور میں بھی جیوں۔ جیو اور جینے دو ۔ اگر آپ کبھی ریل گاڑی پر سفرکریں  اور کھڑکی سے سندھ کے دیہات پر نظر ڈالیں تو چپہ چپہ آپ کو جو بستیاں ملیں گی اْن میں الم ضرور ہو  گا، طویل القامت الم جوکہ دور سے دکھائی دیتا ہو گا۔ سندھ کے آخر ی بادشاہ ’’ٹالپر‘‘ بھی اہلِ تشیع تھے۔ ساری درگاہیں اگر اہلِ تشیع نہیں ہیں تو تقریباً ساری درگاہوں کے سجادہ نشیں اہلِ تشیع ہیں۔

اِن خانقاہوں و درگاہوں کے رکھوالے اور سبیل لگانے والے سب اہلِ تشیع تو ہیں۔ مگر بنیادی فلسفہ درگاہ کا یہ ہے جو آئے وہ پار، بغیر رنگ ونسل، بغیر مذہب کی تفاوت کے، بغیر زبانوں کی عداوت کے، سب پار ہیں۔

اب سمجھ نہیں آتا چیونٹیوں کے اِس قافلے کو ایک خود کش حملہ آور کیسے ختم کر سکتا ہے مگر یہ ہو سکتا ہے،  خودکش حملہ آور تو ایک بہانہ ہے ایک چھوٹا سا معمولی نکتہ ہے اگر اِس کو مدد ملے اْن ٹاک شوز کے اینکرز سے جو فتویٰ صادرکیا کرتے ہیں وہ خود مدعی بھی بن جاتے ہیں  اور منصف بھی بن جاتے ہیں۔ ہماری ایک عدالت میں مشکل سے سو لوگ بیٹھ سکتے ہیں مگر اِن کی ٹاک شوزکی عدالت پر کروڑوں لوگ نگاہیں لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں، یہ نفرتوں کا بیوپارکرتے ہیں۔ کوئی اور کیوں! ہمارے وزیر داخلہ کے جو بیان ہیں وہ بھی کسی سے کم نہیں۔ اِن سب باتوں میں اہم بات ہماری تاریخ کو مسخ ہونا ہے۔ یہاں کی مقامی تاریخ کو گْمنام کرنا ہے۔

ہمیں موہن جو دڑو، ہڑپا، وادیِ مہران کی تہذیب سے کوئی سروکار نہیں۔ نہ بھگت سنگھ سے نہ باچا خان سے۔ ہم دوسروں کی تاریخ اپنے اوپر مسلط کر رہے ہیں اور اس روِش میں غزنویوں، غوریوں تغلقوں، ترخانوں، افغانوں جو بھی حملہ آور ہم پر ہوا اْس کو اپنا ہیرو بنا دیا۔ اور جو اِن مقامی لوگوں کے ہیرو ہیں اْن کو زیرو بنا دیا اور بہت سے غدار قرار دے دیے۔ تو قلندر کْفر ٹھہرا۔ اب جب قلندر معتوب ٹھہرا تو یہاں سے اس مملکت خْداداد کے وجود کے اندر دہشتگردوں کی طرف سے دراڑیں پڑنا شروع ہوجاتی ہیں۔

تشریح کا ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ یہ سچ ہے کہ افغان سرحدوں سے یہ خودکش حملہ آور آیا تھا، مگر ہمارے پاس سہولت کار کی تشریح مکمل نہیں اس تشریح کو وسیع اور جامع کرنا پڑے گا۔ وہ جو ایسے بیانیے) (Narratives  بیچتے ہیں جس پر عمل کے لیے خود کش حملہ آور میدان میں آتا ہے۔ ہم دل بینا سے اتنے محروم کہ ہمیں خود کش حملہ آور اور اْس فتنہ باز جو کہ کھلم کھلا نفرتیں بیچ رہا ہوتا ہے مذہب کے نام پر، اِن دونوں میں کوئی لِنک نظر نہیں آ رہا ہوتا ہے۔

کیا کبھی ہم نے اپنی خارجہ پالیسی پر غورکیا ہے ہمیں اِس خطے میں رہنا ہے، کیا ہم نے کبھی اپنی خارجہ پالیسی کو اِس زاویے سے دیکھا ہے۔  چین میں جمہوریت ہو نہ ہو مگر چین سیکولر ہے اور جس طرف ہم جا رہے ہیں اس کے اثرات چین کے کاشغر پر بھی پڑ سکتے ہیں۔

تشریح کا ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ سندھ کے یہ لوگ کافی ہیں،  اِن خودکش حملہ آوروں کو مْنہ توڑ جواب دینے کے لیے پاکستان کی جنگ لڑنے کے لیے۔ مگر یہ لوگ ہیپا ٹائٹس کے موذی مرض میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اِن کو سندھ کی وڈیرہ شاہی نے غلام بنا کر رکھا ہوا ہے۔ قلندر کے شیدائی مفلس و لاچار اور مسکین ہیں۔ اِن کے گھروں میں مشکل سے دو وقت کی روٹی میسر ہے۔ یہ نیم جانوروں کی طرح رہتے ہیں اور یہی سندھ کا وڈیرہ چاہتا ہے، اْسے خوف ہے کہ یہ اگر پڑھ لکھ جائیں گے تو پھر انھیں ووٹ کون دے گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔