بین الاقوامی سطح پر قدرتی گھاس پہ ہاکی مقابلوں کو دوبارہ متعارف ہونا چاہیے، شہباز احمد سینئر

حسان خالد  جمعرات 23 فروری 2017
ساتھی کھلاڑیوں سے گول کرانے میں زیادہ مزا آتا تھا۔ فوٹو: ایکسپریس

ساتھی کھلاڑیوں سے گول کرانے میں زیادہ مزا آتا تھا۔ فوٹو: ایکسپریس

ان کا شمار ہاکی کے عظیم کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ جب ان کے بین الاقوامی کرئیر کا آغاز ہوا، منظور جونیئر، حسن سردار اور کلیم اللہ جیسے نامور کھلاڑی پاکستان ہاکی سے رخصت ہو چکے تھے۔

پاکستان ہاکی ٹیم میں کوئی سپر اسٹار نہیں تھا، ایسے میں فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے شہباز احمد قومی ٹیم کا حصہ بنے اور اپنے پہلے ٹورنامنٹ سے ہی دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لی۔ انہوں نے کھیل میں اپنی مہارت اور خداداد صلاحیتوں سے ایک دنیا کو اپنا گرویدہ بنایا۔ جن لوگوں نے شہباز سینئر کا کھیل دیکھا ہے، وہ آج بھی اسے یاد کر کے ایک عجیب مسرت سے سرشار ہو جاتے ہیں۔

پاکستان آخری دفعہ چیمپئنز ٹرافی 1994)ء( اور ہاکی ورلڈکپ 1994)ء( ان کی کپتانی میں جیتا۔ وہ ہاکی کے واحد ایسے کھلاڑی ہیں، جو لگاتار دو ورلڈکپ مقابلوں 1990)ء اور 1994ء( میں بہترین کھلاڑی قرار دیے گئے۔ ان کے کارناموں اور اعزازات کی ایک طویل فہرست ہے، جن کا آگے چل کر ذکر ہو گا۔ بہتر ہو گا کہ ایک عظیم کھلاڑی کی کہانی کو ابتدا سے بیان کیا جائے۔

’مجھے صرف ہاکی کھیلنی ہے‘

شہباز احمد نے 10 اپریل 1966ء کو فیصل آباد کے ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ چھ بھائیوں اور چار بہنوں میں ان کا نمبر پانچواں ہے۔ والد چوہدری محمد حسین مختلف اوقات میں مختلف کاموں سے وابستہ رہے، ٹرانسپورٹیشن کا کام بھی کیا۔ تعلیم ایم سی سکول فیصل آباد سے حاصل کی اور وہیں سے اپنی ہاکی کا آغاز بھی کیا۔ اپنے ہاکی کے شوق کے متعلق وہ بتاتے ہیں، ’’میں سکول میں فٹ بال، ہاکی اور کرکٹ تینوں کھیلوں میں اچھا تھا۔ جب آٹھویں، نویں جماعت میں آیا تو فیصلہ کیا کہ دوسرے کھیل چھوڑ کر مجھے صرف ہاکی کھیلنی ہے۔

ہاکی کھیلنے کی خاص وجہ یہ تھی کہ میرے انکل غلام حیدر چوہدری ہاکی کھیلتے تھے، جن سے میں متاثر تھا۔ ویسے تو میرے بڑے بھائی بھی ہاکی کھیلتے تھے، لیکن مجھے انسپریشن اپنے انکل سے ملی اور میں ہاکی میں آ گیا۔‘‘ اس دور میں ہاکی کا بڑا کریز ہوا کرتا تھا اور سکول، کالج کی سطح پر ہاکی مقابلے معمول کی بات تھی۔ ابھی وہ سکول میں ہی تھے کہ گورنمنٹ کالج فیصل آباد والوں نے کہہ دیا کہ آپ کے جتنے نمبر بھی آئیں، آپ نے ہمارے کالج میں آنا ہے۔ کالج کے دونوں برسوں میں بہترین کھلاڑی قرار پائے۔ گورنمنٹ کالج کی طرف سے انہیں 1985ء میں کراچی میں ہونے والی جونیئر چیمپئن شپ کھیلنے کا موقع ملا۔

قومی ٹیم میں آمد

جونیئر ہاکی کا یہ مقامی ٹورنامنٹ ان کے کرئیر میں اہم موڑ ثابت ہوا اور انہیں پی آئی اے نے اپنی طرف سے کھیلنے کی دعوت دے دی۔ پی آئی اے کی ٹیم میں اپنی شمولیت کے بارے میں شہباز سینئر کہتے ہیں، ’’پی آئی کے لڑکے کسی بڑے ایونٹ میں مصروف تھے۔ ایک مقامی ٹورنامنٹ میں پی آئی اے کی ٹیم کو حصہ لینا تھا، جس کیلئے پندرہ سولہ لڑکے دستیاب نہیں تھے۔ اس طرح مجھے موقع مل گیا۔ پی آئی اے کیلئے اچھا کھیلا جس کی بنیاد پر بریگیڈیئر عاطف نے سینئر ٹیم کے جو ٹریننگ کیمپ کیلئے مجھے منتخب کر لیا۔‘‘1986ء ورلڈکپ کے بعد پاکستان اور انڈیا کے مابین دس میچوں کی ٹیسٹ سیریز کھیلی گئی جس میں پانچ میچ انڈیا اور پانچ پاکستان میں ہوئے۔ یوں کلکتہ اسٹیڈیم سے شہباز سینئر کے بین الاقوامی کریئر کا آغاز ہوا۔

F16 اور سپر مین

1987ء میں ہندوستان میں ہونے والا گاندھی کپ پہلا ٹورنامنٹ تھا، جس میں وہ مین آف ٹورنامنٹ قرار پائے۔ ان کے کھیل سے متاثر ہو کر ہندوستانی تماشائی انہیں ’’ہاکی کا F16 ‘‘ اور ’’سپرمین‘‘ کہنے لگے۔ اس ٹورنامنٹ سے متعلق اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے شہباز سینئر کہتے ہیں، ’’جب میں نے دیکھا کہ تماشائی میرے لیے اسٹیڈیم میں ایف 16 اور سپرمین جیسے القاب بینر پر لکھ کر لائے ہیں، میرے اعتماد میں بہت اضافہ ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ میں نے جو ہاکی کھیلی اس میں مجھے اس اعتماد کا بہت فائدہ ہوا۔ ‘‘ 1989ء ایشیا کپ اور 1990ء ایشین گیمز میں بھی بہترین کھیل پیش کر کے انہوں نے پاکستان کو کامیابی دلائی۔ 1990ء میں ہالینڈ میں منعقد ہونے والی BMW ٹرافی کے بھی بہترین کھلاڑی قرار پائے۔

بڑا ٹورنامنٹ، بہترین کارکردگی

1990ء میں ہاکی کا ساتواں عالمی کپ لاہور میں منعقد ہوا۔ شہباز سینئر اسے اپنے کیرئیر کا بہترین ٹورنامنٹ قرار دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، ’’اس ورلڈکپ میں میری فٹنس بہترین تھی۔ اس میں جو ہاکی کھیلا، وہ مجھے آج بھی یاد ہے اور پسند ہے۔ لیکن جب ہم ہالینڈ سے فائنل ہارے، ہمارے دل ٹوٹ گئے۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو گیا۔ 80 ہزار لوگ اسٹیڈیم میں موجود تھے۔ میرے والد صاحب بھی اسٹیڈیم آئے ہوئے تھے اور بڑی مشکل سے اندر داخل ہو سکے۔ لیکن اللہ تعالی بہتر فیصلے کرتا ہے۔ 94ء میں ہم نے ہالینڈ کو ہی ہرایا اور ورلڈ چیمپئن بنے۔

90ء میں نائب کپتان تھا جبکہ 94ء میں کپتان بن گیا تھا۔‘‘ کیا 1992ء میں کرکٹ ورلڈکپ کی جیت کا دباؤ بھی تھا؟ کہنے لگے، ’’نہیں اس کا دباؤ تو نہیں تھا، لیکن اس سے متعلق ہماری مثبت سوچ ضرور تھی کہ پاکستان آسٹریلیا میں ورلڈکپ جیتا، کیا ہی اچھا ہو کہ ہم یہاں ہاکی ورلڈ کپ بھی جیت جائیں۔ پھر اللہ تعالی نے کرم کیا۔‘‘

باڈی ڈاج کامیاب رہا

1994ء ورلڈکپ میں پاکستان سیمی فائنل اور فائنل دونوں مقابلے پنلٹی اسٹروکس پہ جیتا تھا۔ جرمنی کے خلاف سیمی فائنل میں شہباز سینئر کی طرف سے کی جانے والی پہلی پنلٹی اسٹروک پش صحیح طریقے سے نہیں لگ سکی تھی، لیکن گول کرنے میں پھر بھی کامیاب ہو گئے تھے۔ اس سے متعلق سوال پر مسکراتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’میں عموماً پنلٹی نہیں لگاتا تھا، کیونکہ اس میں ماہر نہیں تھا۔ لیکن ان اہم مقابلوں میں دباؤ کی وجہ سے بعض کھلاڑی گھبرا رہے تھے۔

چنانچہ میں نے اپنے اعتماد کی وجہ سے رضاکارانہ طور پر یہ ذمہ داری قبول کی۔ سیمی فائنل میں، میں نے باڈی ڈاج کی کوشش کی تھی، جو کہ اللہ کے شکر سے اتنا کامیاب رہا کہ حریف گول کیپر میری نسبتاً کمزور ہٹ کو بھی نہ روک سکا۔‘‘ اس ورلڈکپ میں پاکستانی گول کیپر منصور احمد کی کارکردگی کے متعلق کیا کہیں گے؟ ’’اس پورے ورلڈکپ میں منصور گول کیپر بہت اچھا کھیلا۔ اس نے سیمی فائنل اور فائنل میں پنلٹی اسٹروکس روکیں۔ اگر گول کیپر اچھا نہ ہو، ٹیم میں بے شک دو شہباز سینئر بھی آ جائیں آپ کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔

شکست، جس پہ زیادہ دکھ ہوا

1992ء کی اولمپکس گیمز میں شہباز سینئر کپتان تھے۔ کہتے ہیں، ’’سب سے زیادہ دکھ مجھے اس اولمپکس میں شکست کا ہوا۔ کیونکہ 92ء اولمپکس جیسی ٹیم نہ ہمارے پاس 90ء میں تھی اور نہ 94ء ورلڈکپ میں۔ 1994ء میں جب ہم گئے تو ہم بالکل فیورٹ نہیں تھے، ہمیں خود بھی یقین نہیں تھا کہ جیت سکیں گے یا نہیں۔ جبکہ 92ء کی اولمپکس ٹیم سپر فٹ بھی تھی اور بڑی بیلنس سائیڈ تھی۔ اس میں اچھے پلئیرز تھے۔ ہم ایک ہی میچ ہارے ہیں سیمی فائنل میں اور اولمپکس سے باہر ہو گئے۔ تو اس کا بہت دکھ ہے ہمیں۔‘‘

بہترین منصوبہ ساز

شہباز احمد کو دس انٹرنیشنل مقابلوں میں مین آف ٹورنامنٹ رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ میچوں میں وہ خود گول کرنے کے بجائے دوسروں سے کراتے تھے، جسے ہاکی کی اصطلاح میں گول اسسٹ (assist) کرنا کہتے ہیں۔ اس کردار کو ادا کرنے والے کھلاڑی کو سکیمر یعنی منصوبہ ساز کہا جاتا ہے، جو کہ خود گول کرنے سے زیادہ مشکل کام ہوتا ہے۔ اس کے بارے میں شہباز سینئر کہتے ہیں، ’’مجھے خود گول کرنے کے بجائے دوسروں سے گول کرانے میں زیادہ مزا آتا تھا۔ یہ مجھے اچھا لگتا ہے۔‘‘

1994 ء کے ورلڈکپ میں آسٹریلیا کے خلاف ایک میچ میں کاؤنٹر اٹیک کے دوران انہوں نے چشم زدن میں گول کروا ڈالا تھا، جس کا شمار ہاکی کے بہترین گولز میں ہوتا ہے۔ آسٹریلیا، ہالینڈ اور جرمنی کے خلاف ان کے یادگار گول جن میں چار، پانچ کھلاڑیوں کو ڈاج دے کر کامیابی حاصل کی گئی، دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں شہباز احمد بتاتے ہیں، ’’جب میرے پاس بال ہوتی تھی مجھے لگتا تھا کہ مجھ سے بال کوئی نہیں چھین سکتا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں اتنا پراعتماد ہو گیا تھا۔‘‘

ریٹائرمنٹ، ریٹائرمنٹ اور ریٹائرمنٹ

شہباز سینئر نے 1992ء اور 1994ء میں بھی ہاکی سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا۔ لیکن آخر میں انہوں نے 2002ء ورلڈکپ کے بعد ہاکی کو الوداع کہا۔ اس بابت ان کا کہنا ہے، ’’میں ہاکی کو اپنے عروج پہ چھوڑنا چاہتا تھا لیکن پاکستان ہاکی کے حکام کے کہنے پر اپنے فیصلے واپس لیتا رہا۔‘‘ بدقسمتی سے 1996ء کے اٹلانٹا اولمپکس میں وہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکے۔ بعد ازاں وہ کچھ برسوں کیلئے لیگ کھیلنے کیلئے ہالینڈ چلے گئے۔

1998ء میں کچھ ماہ کے لیے انہوں نے ہاکی فیڈریشن کے حکام کے اصرار پر نوجوان ٹیم کی کوچنگ بھی کی۔ شہباز سینئر کے مطابق، ’’اس وقت ہاکی حکام نے مجھے دیکھا تو کہا کہ تم اب بھی ان لڑکوں سے اچھا کھیل سکتے ہو۔ چنانچہ ان کے کہنے پر میں 2002ء کا ورلڈکپ کھیلا۔‘‘

جنٹلمین کھلاڑی

شہباز سینئر کی خاص بات یہ ہے کہ دنیا بھر کی ٹیمیں تسلیم کرتی ہیں کہ وہ شفاف کھیل پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کی بابت وہ کہتے ہیں، ’’بس یہ میرا طرز زندگی ہے۔ میں ویسے ہی لوگوں سے گلے شکوے نہیں کرتا۔ شاید میں نے کھیل میں شاید ہی کبھی احتجاج کیا ہو ایمپائر سے، لیکن میں نے کبھی دھوکے والا احتجاج نہیں کیا۔ جیسے آپ مختلف گیمز میں دیکھتے ہیں کہ لوگ غلط شاؤٹ کر کے فائدہ لے لیتے ہیں۔‘‘ انہیں کھیل میں مہارت کی وجہ سے ’’ٹیکسٹ بک پلیئر‘‘ اور ’’میراڈونا آف ہاکی‘‘ جیسے خطابات بھی دیئے گئے۔ ان کے علاوہ ’’مین ود الیکٹرک ہیلز‘‘ (Man with electric heels) کا خطاب بھی ان کو دیا گیا۔

بڑا کھلاڑی کیسے بنتا ہے؟

بڑا کھلاڑی وہ بنتا ہے جو ذہنی طور پر مضبوط ہو۔ پوری کمٹمنٹ سے کھیلے۔ آج کل کے ہمارے کھلاڑیوں میں کمٹمنٹ کی کمی ہے ، وہ نیم دلی سے کھیلتے ہیں۔ ہم نے پوچھا، میدان میں آپ کے کھیل میں جو انرجی نظر آتی تھی، وہ کہاں سے آتی تھی؟ انہوں نے بتایا، ’’میں جتنی بھی ہاکی کھیلا، اپنے ملک کو سامنے رکھ کر کھیلا۔ میں اپنے ملک کیلئے پاگل ہو کر کھیلا۔ جب آپ ملک کے نام کی طرف دیکھتے ہیں تو آپ کی نیک نامی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔‘‘

آسٹروٹرف پرہاکی مختلف کیوں؟

آسٹرو ٹرف پر کھلاڑی کا ذہین ہونا بہت ضروری ہے۔ اس پر کھیلنا جتنا آسان ہے، اسے سمجھنا اتنا ہی مشکل بھی ہے۔ یہ قدرتی گھاس پر کھیلنے سے بالکل مختلف ہے۔مہارت تو دونوں میں ہی درکار ہوتی ہے،لیکن قدرتی گھاس پر مہارت زیادہ نمایاں نظر آتی ہے کیونکہ اس پر گیند کی رفتار آسٹروٹرف کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ آسٹروٹرف پر اگر آپ مہارت دکھانے میں ٹائم ضائع کریں گے تو اس کا آپ کی ٹیم کو نقصان ہو گا۔ قدرتی گھاس پہ تو آپ کو ٹائم مل جاتا ہے اور ہوتا بھی ہے۔

آپ یہ دیکھیں کہ آسٹروٹرف پہ کاؤنٹر اٹیک ہے تو بیس سیکنڈ میں گول ہو جائے گا لیکن نیچرل گراس پر بیس سیکنڈ میں کبھی گول ہوتا ہم نے نہیں دیکھا۔ آپ کو ذہنی طور پر چوکس رہتے ہوئے صورتحال کے مطابق فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ میں چیزوں کو خود انوینٹ کرتا تھا۔ اللہ نے مجھے خداداد صلاحیت دی تھی۔ مثلاً مجھے پتا ہوتا تھا کہ بال کہاں آئے گا، میں بس کھلاڑیوں کی پوزیشن پر نظر رکھتا تھا۔

قدرتی گھاس پر بھی ہاکی ہونی چاہیے

ہاکی کے مایہ ناز کھلاڑی سے ہم نے پوچھا کہ جس طرح ٹینس ومبلڈن، فرنچ اوپن اور یو ایس اوپن مختلف ساخت کے میدانوں پہ ہوتی ہے، اس طرح ہاکی کو بھی قدرتی گھاس پر کھیلنے کی اجازت ہونی چاہیے؟انہوں نے جواب دیا، ’’میرے خیال میں قدرتی گھاس پر ہاکی کو دوبارہ متعارف ہو جانا چاہیے۔ اس کاسب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ ہمارے برصغیر کی ہاکی میں بہتری آ سکے گی۔ انڈیا، پاکستان اگر کوئی انٹرنیشنل لیول کا ایونٹ گھاس پہ کھیلتے ہیں تو میرے خیال میں وہ اچھے نتائج دے سکتے ہیں۔ یہ حوصلہ افزائی کیلئے اچھا ہے۔ میں اس تجویز کی مکمل تائید کرتا ہوں۔‘‘

پاکستان ہاکی ناکام کیوں؟

شہباز سینئر نے ریٹائرمنٹ کے بعد پی آئی اے میں کئی برس اندرون ملک اور بیرون ملک مختلف عہدوں پر ذمہ داریاں ادا کیں۔ گزشتہ ایک دو برس سے پاکستان ہاکی فیڈریشن میں جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ پاکستان ہاکی کے زوال کے بارے میں کہتے ہیں، ’’ہاکی کے زوال کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے لڑکوں میں ہاکی کھیلنے کا مزید شوق نہیں رہا۔ جو اس وقت پول آف پلئیرز ہے، اس میں کوئی سپر اسٹار نہیں ہے۔ لڑکے اپنے سے بہتر کھلاڑیوں میں کھیلیں گے تو خودبخود ان کا کھیل بہتر ہوگا۔ میری خوش قسمتی کہ مجھے منظور جونئیر، حسن سردار اور کلیم اللہ جیسے کھلاڑیوں سے سیکھنے کا موقع ملا۔ آج کے کھلاڑیوں کو یہ موقع نہیں مل رہا۔ جب آپ بڑے انٹرنیشنل ایونٹ سے باہر ہوتے ہیں تو نئے کھلاڑیوں کو گروم نہیں کرسکتے۔

اسکول کالج لیول پہ ہاکی ہونی چاہیے۔ امن و امان کی صورتحال بھی ایک وجہ ہے۔ والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے چاہے فیس بک پہ بیٹھے رہیں،، لیکن ان کے سامنے ہوں۔ مختلف شعبوں میں بہتری کی ضرورت ہے۔ جتنا ہم کر سکتے ہیں کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بہت چیلنجنگ کام ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ قومی کھیل کو اپنی ترجیح بنائے اور اس کی بہتری کیلئے غیرمعمولی اقدامات کیے جائیں۔ہاکی کے ایشین اور یورپئین سٹائل کی بات نہیں کرنی چاہیے، بلکہ ہمیں جیتنا ہے تو ایگریسو اور اٹیکنگ ہاکی کھیلنی ہو گی۔انٹرنیشنل معیار کے پلیئرز سامنے لانے ہوں گے۔ ‘‘

نجی زندگی

شہباز سینئر کی شادی 1991ء میں خاندان میں ہی ہوئی۔ایک بیٹی اور دو بیٹوں کے مشفق والد ہیں۔ بچے اپنی تعلیم مکمل کر رہے ہیں۔اپنی روزمرہ زندگی کے متعلق بتاتے ہیں، ’’میں سادہ طرز زندگی پسند کرتا ہوں۔ رات کو پرسکون نیند سوتا ہوں۔ مجھے ایک جگہ اٹکے رہنا پسند نہیں۔ اس لیے میں ہاکی کے بعد دوسری ذمہ داریوں کی طرف چلا گیا تھا۔ اب بھی جب اپنا کام مکمل کر لوں گا ، یہ ذمہ داری چھوڑ دوں گا اور اپنے لیے کوئی اور مصروفیت تلاش کر لوں گا۔

میری بیوی کہتی ہے کہ اگر ہاکی پلیئر نہ بنتے تو فیصل آباد میں کسی کپڑے کی دکان میں ملازمت کر رہے ہوتے۔ کیونکہ ہمارا تعلیمی معیار کوئی اچھا نہ تھا۔ دس سال کا تھا جب پہلی دفعہ اے، بی ، سی سیکھی۔ اس سے آپ اندازہ لگا لیں۔ بس اللہ کے فضل اور والدین کی دعاؤں سے یہ مقام ملا۔ زندگی بندے کی اپنی مرضی سے گزرتی نہیں ہے، اگرچہ اسے لگتا ہے کہ اپنی مرضی سے گزر رہی ہے۔‘‘شہباز سینئر کو فٹ بال اور سنوکر سے دلچسپی ہے۔ اپنی فٹنس کیلئے اسکوائش کھیلتے ہیں۔شہباز سینئر کو اپنے کرئیر کے دوران حکومت پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس اور ہلال پاکستان سے نوازا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔