’جلدی کرو مجھے عمرے پر جانا ہے‘

میاں عمران احمد  جمعرات 23 فروری 2017
اِسی دوران نمازِ مغرب کا وقت ہوگیا، صاحب کا وضو قائم تھا، وہ جماعت کی امامت کروانے کیلئے آگے بڑھے، موذن نے اقامت کہی اور نمازیوں نے نماز پڑھنا شروع کردی، لیکن میں صاحب کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکا۔

اِسی دوران نمازِ مغرب کا وقت ہوگیا، صاحب کا وضو قائم تھا، وہ جماعت کی امامت کروانے کیلئے آگے بڑھے، موذن نے اقامت کہی اور نمازیوں نے نماز پڑھنا شروع کردی، لیکن میں صاحب کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکا۔

پیشانی پر محراب چمک رہا تھا، چہرے پر سنتِ رسول ﷺ پوری آب و تاب سے قائم تھی۔ سر پر سفید ٹوپی اور شلوار ٹختوں سے اوپر چڑھی ہوئی تھی۔ صاحب کے پاس دو عدد تسبیحات تھیں، ایک دائیں ہاتھ کی کلائی کے ساتھ لٹک رہی تھی اور دوسری دائیں ہاتھ کی اُنگلیوں میں گولی کی رفتار سے گھوم رہی تھی۔ وہ دانے پھیرتے، استغفراللہ پڑھنے کے ساتھ مجھ سے مسلسل باتیں بھی کرتے جارہے تھے۔ اُسی دوران نمازِ عصر کا وقت ہوگیا، صاحب نے نماز کی اہمیت اور دنیا اور آخرت میں اِس کے فوائد پر روشنی ڈالی اور مجھے نماز پڑھنے کی دعوت دی۔ صاحب چونکہ قابلِ عزت اور دین سے محبت کا چلتا پھرتا نمونہ تھے اِس لئے لوگ اُن کی باتوں کو اہمیت دیتے اور اُن کی امامت میں نماز بھی پڑھتے تھے، اِس لیے میں نے بھی صاحب کے پیچھے نمازِعصر ادا کی۔

نماز کے اختتام پر صاحب نے نیک اعمال کرنے پر تفصیلی بیان دیا، اور دین سے روگردانی کرنے والوں کیلئے دنیا و آخرت میں سخت سزاؤں پر بھرپور روشنی بھی ڈالی۔ میں صاحب کی دین سے محبت اور اپنے کام سے لگن کو دیکھ کر اُن کی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا، اور دل کے کسی کونے سے یہ خواہش اُبل اُبل کر باہر آرہی تھی کہ کاش میری زندگی بھی صاحب کی زندگی جیسی ہوجائے تاکہ میں دنیا و آخرت میں باعزت طریقے سے سُرخرو ہوسکوں۔ متاثر ہونے کا یہ سلسلہ ابھی جاری تھا کہ کوٹ پتلون پہنے دو افراد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دونوں افراد کچھ دیر تک خاموش بیٹھے رہے پھر ایک نے دوسرے کو اشارہ کیا اور دوسرے نے صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

’’جناب! ہمارے کیس کا کیا بنا؟‘‘

صاحب نے داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے جواب دیا کہ میں پہلے بھی کئی بار آپ سے عرض کرچکا ہوں کہ آپ ہمارا خیال کریں تو ہم بھی آپ کے بارے میں سوچیں گے۔

’’سامنے بیٹھے شخص نے اپنی دائیں ٹانگ کو بائیں ٹانگ پر رکھتے ہوئے کہا، آپ اپنی بات کریں باقی افسروں کو میں دیکھ لوں گا‘‘۔

صاحب کچھ دیر کیلئے رُکے، لمبا سانس لیا اور مرزا صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گویا ہوئے،

’’مرزا صاحب 50 ملین کا ٹیکس آپ کی طرف واجب الادا ہے اُسے ختم کرنے کیلئے میں 30 لاکھ لوں گا‘‘

’’مرزا صاحب نے اپنی پیشانی پر شکن بناتے ہوئے کہا کہ 30 لاکھ بہت زیادہ ہے‘‘

’’صاحب نے لومڑی کی طرح مسکراتے ہوئے جواب دیا، مرزا صاحب یہ ہمارا حق بنتا ہے۔ ہمارے بھی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں‘‘

’’لیکن آپ یہ کام کیسے کریں گے؟ مرزا صاحب نے پوچھا‘‘

’’صاحب نے تسبیح کے دانوں پر استغفراللہ کا ورد کرتے ہوئے کہا، وہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں، آپ میرا حصہ دیں آپ کو کلیرنس سرٹیفیکیٹ مل جائے گا‘‘

’’مرزا صاحب نے ساتھ بیٹھے شخص سے مشورہ کیا، اور30 لاکھ روپوں میں معاملہ طے پاگیا‘‘

’’صاحب نے پوچھا رقم کب تک ملے گی؟‘‘

’’ دو سے تین دن میں ادائیگی ہوجائے گی، مرزا صاحب نے جواب دیا‘‘

اِس کے بعد صاحب نے جو جملہ کہا، وہ جملہ ہمیشہ کیلئے میری یاداشت میں اٹک گیا ہے وہ جملہ آج بھی میری زندگی کی بُری یادوں کا حصہ ہے اور میں چاہتے ہوئے بھی اُس جملے کو بُھلا نہیں پارہا ہوں۔ صاحب نے داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے، تسبیح کے دانوں کو تیز تیز گھماتے اور استغفراللہ کا ورد کرتے ہوئے کہاـ

’’مرزا صاحب میرا حصہ جلدی بھجوا دینا، میں نے اِن پیسوں سے عمرے کی ادائیگی کیلئے بھی جانا ہے۔‘‘

اِسی دوران نمازِ مغرب کا وقت ہوگیا، موذن نے اللہ اکبر کی آواز بلند کی۔ صاحب کا وضو قائم تھا، وہ جماعت کی امامت کروانے کیلئے آگے بڑھے، موذن نے اقامت کہی اورنمازیوں نے صاحب کے پیچھے نماز پڑھنا شروع کردی، لیکن میں صاحب کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکا، میں جماعت سے علیحدہ ہوگیا اور رشوت خور صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے کے بجائے تنہائی میں نمازِ مغرب ادا کی۔ لیکن میں آج تک اِس بات کا فیصلہ نہیں کرپارہا ہوں کہ اُس دن جماعت کے ساتھ نماز ادا نہ کرنے کا مجھے گناہ ملے گا یا ثواب؟

آپ ملک پاکستان کی بدقسمتی ملاحظہ کیجئے کہ حرام طریقوں سے کمائی گئی دولت اور اِس دولت کو اللہ کی راہ پر خرچ کرنے کے حوالے سے ہماری عوام اور حکمرانوں کا موقف بھی یکساں ہے۔ آپ دیکھیں تو یہ سیاستدان عوام کے خون پسینے کے پیسوں سے خریدے گئے فلیٹس کو اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت، سندھ دھرتی کوبیچ کر محل خریدنے کو اپنے پیر و مرشد کی خدمت کا ثمر اور سب سے بڑھ کر مذہبی سیاسی جماعتوں کے چوغے میں ضمیر فروشی کے بعد حاصل کئے گئے ڈیزل پرمٹ کو دین کی خدمت کا صلہ اور اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم قرار دیتے ہیں۔

حیرت کی بات یہ کہ کرپشن کی اِس کمائی سے کئے گئے حج اور عمروں کو دنیا اور آخرت میں اپنی بخشش کا ذریعہ بھی سمجھتے ہیں۔ ہماری اس قابلِ رحم سوچ کی سب سے بڑی وجہ کم علمی اور کنفیوژن ہے۔ مثال کے طور پر ہم رشوت کے پیسے کو ناجائز اور اِس ذریعے سے ملنے والے پیسے سے مسجد کی تعمیر کو جائز سمجھتے ہیں۔ ہم بدکاری سے کمائے گئے پیسوں کو حرام اور اِن پیسوں سے صدقہ و خیرات کرنا حلال سمجھتے ہیں، اور کم علمی کا حال یہ ہے کہ ہم جن لوگوں کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں اور جن کی نصیحت کو دنیا و آخرت میں نجات کا راستہ سمجھتے ہیں، ہم اُن کے بارے میں یہ تک جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ اُن کا ذریعہِ روزگار کیا ہے؟ ہمیں یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ ہم جس مسجد اور مدرسے میں روز نماز پڑھتے ہیں وہ حلال کے پیسوں سے بنائے گئے ہیں یا حرام کے پیسوں سے؟

اِنہی تلخ حقائق کے پیشِ نظر آج پاکستان کو ایک ایسے باعمل مذہبی اور سیاسی رہنما کی ضرورت ہے جو عوام اور حکمرانوں کے ظاہری حُلیے مذہبی بنانے کے بجائے اُن کی روحوں کو بدعنوانی اور رشوت خوری سے پاک کرسکے اور اُنہیں اِس بات کا احساس دلا سکے کہ حرام کی کمائی کے بعد کس منہ سے کہتے ہو کہ،

’’رشوت جلدی دو، مجھے عمرے پر جانا ہے ۔‘‘

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
میاں عمران احمد

میاں عمران احمد

بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالمنسٹ ہیں، جبکہ ورلڈ کالمنسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمنسٹ کے ممبر بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔