آپریشن ردالفساد

ایڈیٹوریل  جمعـء 24 فروری 2017
، فوٹو؛ فائل

، فوٹو؛ فائل

پاکستان میں ایک ہفتے کے دوران دہشت گردی کی پے در پے وارداتوں سے یہ حقیقت واضح ہوئی ہے کہ اندرون ملک دہشتگردوں کا نیٹ ورک موجود ہے‘ حالیہ دہشتگردی کی وارداتوں میں سو سے زائد افراد جاں بحق ہوئے ہیں‘ انھی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاک فوج نے ’’ردالفساد‘‘ کے نام سے دہشتگردوں کے خلاف نیا آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کے مطابق پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیرصدارت سیکیورٹی کے حوالے سے منگل کو لاہور میں اعلیٰ سطح کا  اجلاس ہوا جس میں پنجاب کے تمام کور کمانڈرز کے علاوہ ڈائریکٹر جنرل پنجاب رینجرز اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان نے شرکت کی۔

اجلاس میں ملک بھر میں دہشتگردوں کے خلاف ’’ردالفساد‘‘ کے نام سے آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا، آپریشن کا مقصد ملک میں دہشتگردی اور شدت پسندی کے خطرے کو ختم کرنا، اب تک حاصل ہونے والی کامیابیوں کو مستحکم کرنا اور سرحدی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔ آپریشن میں پاک فضائیہ، پاک بحریہ، بری فوج، سول آرمڈ فوسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھرپور حصہ لیں گے اور آپریشن ملک سے دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد اس آپریشن کا طرہ امتیاز ہوگا۔

ترجمان پاک فوج کے مطابق ملک بھر میں انسداد دہشتگردی آپریشن بھی جاری رکھے جائیں گے جب کہ پنجاب میں انسداد دہشتگردی کے لیے رینجرز بڑے پیمانے پر کارروائی کرے گی، مینجمنٹ پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ ملک کو دھماکا خیز مواد اور غیر قانونی اسلحہ سے بھی پاک کیا جائے گا۔ بی بی سی کے مطابق فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ آپریشن ’رد الفساد‘ کا مقصد ملک میں بچے کچھے دہشتگردوں کا بلاتفریق خاتمہ کرنا ہے۔

یہ اعلان ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب ضرب عضب کے  نام سے پہلے ہی ایک فوجی آپریشن جاری ہے‘ آپریشن ضرب عضب جون 2014ء میں شمالی وزیرستان میں شروع کیا گیا تھا‘ پھر دسمبر2014ء میں پشاور میں آرمی  پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد اس آپریشن کا دائرہ ملک کے دیگر علاقوں تک پھیلا دیا گیا‘ دہشتگردی اور ان کے سہولت کاروں کو ختم کرنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا تھا‘ جس کے تحت کراچی میں رینجرز کو خصوصی اختیارات دیے گئے اور وہاں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن ہوا‘ دہشتگردی کے حالیہ واقعات کے باعث پنجاب میں بھی رینجرز کو خصوصی اختیارات دیے گئے ہیں اور اب آپریشن رد الفساد کا آغاز کردیا گیا ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ دہشتگردوں کے خلاف قومی سطح پر ایک مربوط حکمت عملی اور یکساں سوچ نہ ہونے کے باعث دہشتگردوں کو ملک بھر میں اپنے پاؤں جمانے کا موقع ملا‘ ملک کے قبائلی علاقوں میں ٹی ٹی پی نے کنٹرول حاصل کیا اور پھر اس کنٹرول کو توڑنے کے لیے تقریباً پورے فاٹا میں مختلف اوقات میں مختلف ناموں سے آپریشنز کرنا پڑے‘ لیکن ٹی ٹی پی فاٹا سے نکل کر سوات میں بھی اپنا کنٹرول قائم کرنے میں کامیاب ہوئی اور فوج کو سوات میں بھی آپریشن کرنا پڑا۔

قبائلی علاقوں‘ سوات وغیرہ میں آپریشن کے نتیجے میں کچھ دہشتگرد مارے گئے‘ کچھ ڈیورنڈ لائن کے پار افغانستان میں چلے گئے اور کچھ پاکستان کے اندر پھیل گئے‘ ایسا ہونا لازمی امر تھا‘ اس وقت اگر وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں شہروں اور دیہات میں پناہ حاصل کرنے والے دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف مسلسل کارروائی  جا ری رکھتیں تو شاید اب ملک دہشتگردی اور انتہا پسندی کے ناسور پر قابو پایا جا چکا ہوتا۔ بہرحال ماضی میں جو کچھ ہوا‘ اس پر بحث کرکے مزید وقت ضایع نہیں کرنا چاہیے اور دہشتگردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف اندرونی کارروائیوں کا آغاز کرنا چاہیے۔

آپریشن رد الفساد کے مقاصد اور اہداف ہمہ گیر ہیں‘ اس کا مقصد ملک کو دھماکا خیز مواد اور ناجائز اسلحہ سے پاک کرنا بھی ہے اور دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں پر ضرب لگانا بھی ہے‘ اس حوالے سے ایک بات بڑی اہم ہے کہ دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائی ہو سکتی ہے اور ایسی کارروائیاں جاری بھی ہیں‘ جو لوگ گرفتار ہوئے ہیں‘ انھیں سزائیں دینے کے لیے عدالتی میکنزم بھی بنایا جا سکتا ہے لیکن انتہا پسند سوچ اور فکر پر قابو پانے کے لیے جو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے‘ اس پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔

اسکول‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے نصاب میں تبدیلیاں لانے کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا بلکہ نصاب میں آج بھی ایسا مواد شامل کیا جا رہا ہے جو انتہا پسندی کا موجب بن سکتا ہے‘ صوبائی حکومتیں ہوں یا وفاقی حکومت‘ اسے شاید تعلیمی نظام اور نصاب کی اہمیت و افادیت کا اندازہ نہیں ہے‘ تعلیم کی وزارت ہو یا سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیاں برائے تعلیم‘ ان کے سربراہان اور ارکان ایسے پارلیمنٹیرینز ہوتے ہیں‘ جنھیں تعلیم کے حوالے سے کچھ پتہ نہیں ہوتا‘ مدارس کی صورتحال بھی جوں کی توں ہے بلکہ سیاسی مفادات کے حصول کے لیے بعض اقدامات سے انحراف کی پالیسی جاری ہے۔

لہٰذا اگر ہم نے دہشتگردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ کرنا ہے تو اس کے لیے جہاں فوجی اور انتظامی آپریشنز کی ضرورت ہے‘ دہشتگردوں کو سزائیں دینے کے لیے عدالتی فعالیت کی ضرورت ہے‘ وہاں ذہنوں کو انتہا پسندی سے پاک کرنے کے لیے تعلیمی نظام اور نصاب میں جدیدیت سے ہم آہنگ تبدیلیاں لانے کی بھی ضرورت ہے‘ اس صورت میں ہی آپریشن رد الفساد کامیاب ہو سکتا ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔