غیبت، عیب جوئی، طعنہ زنی اور حق تلفی

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی  جمعـء 24 فروری 2017
ہر شخص کا مرنا یقینی ہے لیکن موت کا وقت اور جگہ سوائے اللہ کی ذات کے کسی بشر کو معلوم نہیں۔ فوٹو: نیٹ

ہر شخص کا مرنا یقینی ہے لیکن موت کا وقت اور جگہ سوائے اللہ کی ذات کے کسی بشر کو معلوم نہیں۔ فوٹو: نیٹ

سورۃ الھمزۃ ، ترجمہ: ’’ بڑی خرابی ہے اُس شخص کی جو پیٹھ پیچھے دوسروں پر عیب لگانے والا، (اور) منہ پر طعنے دینے کا عادی ہو، جس نے مال اکٹھا کیا ہو اور اُسے گنتا رہتا ہو۔ وہ سمجھتا ہے کہ اُس کا مال اُسے ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ ہرگز نہیں! اُس کو تو ایسی جگہ میں پھینکا جائے گا جو ریزہ ریزہ کرنے والی ہے، اور تمہیں کیا معلوم وہ ریزہ ریزہ کرنے والی چیز کیا ہے؟ اللہ کی سلگائی ہوئی آگ، جو دلوں تک جا چڑھے گی۔ یقین جانو وہ اُن پر بند کردی جائے گی، جب کہ وہ (آگ کے) لمبے چوڑے ستونوں میں (گھرے ہوئے) ہوں گے۔‘‘

وَیْل کے معنی بربادی، بڑی خرابی اور عذاب کے ہیں، نیز جہنم کی ایک وادی کا نام بھی وَیل ہے، یعنی جو حضرات تین گناہوں (غیبت، طعنہ دینا اور ناحق مال جمع کرنا) میں مبتلا ہیں انہیں جہنم کی ویل نامی وادی میں ڈالا جائے گا۔

سورۃ الماعون میں مذکور ہے کہ نمازوں میں کوتاہی کرنے والوں کو بھی جہنم کی اسی وادی میں ڈالا جائے گا۔ ھمَزۃ اور لُمَزَۃ، مبالغے کے صیغے ہیں۔ ھمْزٌ کے معنی اشارہ بازی کرنے کے اور لَمْز کے معنی عیب لگانے یا طعنہ دینے کے ہیں۔ کسی شخص کا مذاق اڑانا، کسی کا عیب نکالنا، کسی کی پیٹھ پیچھے برائی کرنا یعنی غیبت کرنا، اسی طرح کسی کو طعنہ دینا اور کسی کو ذلیل کرنا اور برا بھلا کہنا، یہ ساری شکلیں اس آیت کے مفہوم میں داخل ہیں اور یہ سب گناہ کبیرہ ہیں، جن سے بچنا ہر شخص کے لیے ضروری ہے۔ ان گناہوں میں مبتلا ہونے والے اشخاص کو جہنم میں سخت عذاب دیا جائے گا، اگر موت سے قبل حقیقی توبہ نہیں کی۔ غرض یہ کہ اللہ کے بندوں میں بدترین لوگ وہ ہیں جو چغل خور ہیں اور دوستوں و رشتے داروں کے درمیان جھگڑا کراتے ہیں، شریفوں کی پگڑیاں اچھالتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کے عیب تلاش کرتے رہتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ سورۃ الحجرات میں ارشاد فرماتا ہے : نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ جن کا مذاق اڑا رہے ہیں، خود اُن سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ جن کا مذاق اڑا رہی ہیں، خود اُن سے بہتر ہوں۔ اور تم ایک دوسرے کو طعنے نہ دیا کرو، اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو۔ ایمان لانے کے بعد گناہ کرنا بہت بری بات ہے۔ اور جو لوگ ان باتوں سے باز نہ آئیں تو وہ ظالم لوگ ہیں۔

اس آیت میں ہمیں غیبت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے ارشاد نبویؐ کی روشنی میں سمجھیں کہ غیبت کسے کہتے ہیں۔۔۔ ؟

رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرامؓ سے فرمایا : ’’ کیا تمہیں معلوم ہے کہ غیبت کیا ہے؟ صحابۂ کرامؓ نے جواب دیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اپنے بھائی کی اس بات کا ذکر کرنا، جسے وہ ناپسند کرتا ہو۔ کہا گیا اگر وہ باتیں اس میں موجود ہوں تو؟ آپؐ نے فرمایا کہ اگر وہ بات اس کے اندر ہو تو، تم نے غیبت کی اور اگر نہ ہو تو وہ بہتان ہوگا۔‘‘ (مسلم)

حضور اکرمؐ کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ غیبت کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کے سامنے کسی کی برائیوں اور کوتاہیوں کا ذکر کیا جائے، جسے وہ برا سمجھے اور اگر اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جائیں جو اس کے اندر موجود ہی نہیں ہیں تو وہ بہتان ہے۔ کسی مسلمان بھائی کی کسی کے سامنے برائی بیان کرنا یعنی غیبت کرنا، ایسا ہی ہے جیسے اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانا۔ بھلا کون ایسا ہوگا جو اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے غیبت سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اس سے نفرت دلائی ہے۔

ارشاد باری ہے: ’’ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے، تم کو اس سے گھن آئے گی۔‘‘

(سورۃ الحجرات)

معراج کے سفر کے دوران حضور اکرم ﷺ کو جنت و دوزخ کے مشاہدے کے ساتھ مختلف گناہ گاروں کے احوال بھی دکھائے گئے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس رات مجھے معراج کرائی گئی، میں ایسے لوگوں پر گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے، جس سے وہ اپنے ہی چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے۔ میں نے جبرئیلؑ سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں ( ان کی غیبت کرتے ہیں) اور ان کی بے آبروئی کرنے میں پڑے رہتے ہیں۔‘‘ (ابوداود)

جو ناجائز طریقے سے مال حاصل کرکے گن گن کر رکھتا ہو۔ دیگر آیاتِ قرآنیہ و احادیث نبویؐ سے معلوم ہوتا ہے کہ مطلقاً مال کا جمع کرنا، گناہ نہیں ہے، بل کہ مال اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے، جس کے ذریعے انسان اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن شریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ صرف جائز و حلال طریقے سے ہی مال کمائے کیوں کہ کل قیامت کے دن ہر شخص کو مال کے متعلق اللہ تعالیٰ کو جواب دینا ہوگا کہ کہاں سے کمایا یعنی وسائل کیا تھے اور کہاں خرچ کیا یعنی مال سے متعلق حقوق العباد یا حقوق اللہ میں کوئی کوتاہی تو نہیں کی۔ غرض یہ کہ حصول ِ مال کے لیے کوشش اور جستجو کرنا، نیز مستقبل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مال جمع کرنا مذموم نہیں ہے اگر مال کو جائز وسائل سے حاصل کیا جارہا ہے اور حقوق کی ادائی مکمل کی جارہی ہے۔

مال کی محبت میں وہ اس طرح منہمک ہوگیا کہ وہ آخرت کو بھول گیا، اور اس کے اعمال سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ میں ہمیشہ زندہ رہوں گا، حالاں کہ ہر چیز فنا ہونے والی ہے، سوائے اللہ کی ذات کے۔ حکومت اللہ ہی کی ہے، اور اُسی کی طرف ہم سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ انسان جہاں بھی ہوگا، ایک نہ ایک دن، موت اسے جا پکڑے گی، چاہے وہ مضبوط قلعوں میں ہی کیوں نہ رہ رہا ہو۔

ہر شخص کا مرنا یقینی ہے لیکن موت کا وقت اور جگہ سوائے اللہ کی ذات کے کسی بشر کو معلوم نہیں۔ چناں چہ بعض بچپن میں، تو بعض عنفوان شباب میں اور بعض ادھیڑ عمر میں، جب کہ باقی بڑھاپے میں داعی اجل کو لبیک کہہ جاتے ہیں۔ بعض صحت مند تن درست نوجوان سواری پر سوار ہوتے ہیں لیکن انہیں نہیں معلوم کہ وہ موت کی سواری پر سوار ہوچکے ہیں۔ لہذا ہمیں توبہ کرکے نیک اعمال کی طرف سبقت کرنی چاہیے۔

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: پانچ امور سے قبل پانچ امور سے فائدہ اٹھایا جائے۔ بڑھاپا آنے سے قبل جوانی سے۔ مرنے سے قبل زندگی سے۔ کام آنے سے قبل خالی وقت سے۔ غربت آنے سے قبل مال سے۔ بیماری سے قبل صحت سے۔

جہنم کیا ہے؟

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ (سورۃ التحریم )

اسی طرح فرمان الٰہی ہے: نہ تو اُن کا کام تمام کیا جائے گا کہ وہ مر ہی جائیں، اور نہ اُن سے جہنم کا عذاب ہلکا کیا جائے گا۔ (سورۃ فاطر ) یعنی جہنم میں نہ موت آئے گی اور نہ ہی عذاب کم کیا جائے گا۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں مذکور ہے کہ جہنمیوں کی غذا کھولتا ہوا پانی، کانٹوں اور گلے میں اٹکنے والا کھانا، زخموں کے دھوون اور پیپ، پگھلا ہوا تانبا وغیرہ ہیں، یعنی انتہائی تکلیف دہ چیزیں ہی جہنمیوں کو کھانے اور پینے کے لیے دی جائیں گی۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: جب ایک دفعہ اُن کی کھال جل چکی ہوگی تو ہم اُس کی جگہ دوسری نئی کھال پیدا کردیں گے تاکہ عذاب چکھتے ہی رہیں۔ (سورۃ النساء ) اسی طرح فرمان الٰہی ہے: دوزخیوں کو مارنے کے لیے لوہے کے گُرز (ایک قسم کا ہتھیار) ہیں، وہ لوگ جب بھی جہنم کی گھٹن سے نکلنا چاہیں گے پھر اُسی میں دھکیل دیے جائیں گے اور اُن سے کہا جائے گا کہ جلنے کا عذاب چکھتے رہو۔ (سورۃ الحج)

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جہنم کو ایک ہزار سال تک دھونکا گیا تو اُس کی آگ سرخ ہوگئی۔ پھر ایک ہزار سال تک دھونکا گیا تو اُس کی آگ سفید ہوگئی۔ پھر ایک ہزار سال تک دھونکا گیا تو اُس کی آگ سیاہ ہوگئی۔ چناں چہ جہنم اب سیاہ اندھیری والی ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جہنمیوں میں سب سے ہلکا عذاب اُس شخص پر ہوگا جس کی دونوں جوتیاں اور تسمے آگ کے ہوں گے، جن کی وجہ سے ہانڈی کی طرح اُس کا دماغ کھولتا ہوگا۔ وہ سمجھے گا کہ مجھے ہی سب سے زیادہ عذاب ہورہا ہے، حالاں کہ اُس کو سب سے کم عذاب ہوگا۔ (بخاری و مسلم)

جہنم ایسا موضوع ہے کہ اس پر سینکڑوں کتب تحریر کی گئی ہیں۔ انتہائی تکلیفوں کی جگہ جہنم سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم اپنی دنیاوی زندگی اللہ کے احکام اور نبی اکرمؐ کے طریقے کے مطابق گزارنے کی کوشش کریں۔ اِن مذکورہ گناہوں کے مرتکبین کو ایسی آگ میں ڈالا جائے گا جو دلوں تک جا چڑھے گی۔ ویسے تو آگ کی خاصیت یہی ہے کہ وہ انسان کے اعضاء کو جلا دیتی ہے، لیکن اس آگ کا خاص مزاج یہ ہوگا کہ وہ پہلے اُن دلوں کو پکڑے گی جو مال کی محبت میں آخرت کو بھول گئے تھے۔

خالق کائنات نے جہنم میں ایک ایسی خاص آگ بنائی ہے جس کا سب سے پہلا حملہ اُن دلوں پر ہوگا جن میں لوگوں کے لیے بغض و عناد اور مال کی ایسی محبت جگہ کرگئی تھی کہ وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اتباع سے مانع بنی۔ بعض مفسرین نے اس آیت کی تفسیر اس طرح بیان فرمائی ہے کہ دنیا کی آگ جب انسان کے بدن کو لگتی ہے تو دل تک پہنچے سے قبل ہی انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے، لیکن آخرت میں موت تو آتی نہیں تو وہ دل تک پہنچے گی۔ لمبے لمبے ستونوں کا مطلب یہ ہے کہ آگ کے اتنے بڑے بڑے شعلے ہوں گے جیسے ستون ہوتے ہیں اور دوزخی اس میں بند ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے لیے جہنم سے نجات کا فیصلہ فرمائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔