بک ریویو؛ مٹھیاں کسکاں ہجر دِیاں

رضاالحق صدیقی  ہفتہ 25 فروری 2017
شاعر نے غزل کی روایت کے پیشِ نظر یوں تو سینکڑوں مضامین اپنے اشعار میں پیدا کئے ہیں لیکن انفرادیت یہ ہے کہ ان سب پر ہجر کی چھاپ بہت گہری ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

شاعر نے غزل کی روایت کے پیشِ نظر یوں تو سینکڑوں مضامین اپنے اشعار میں پیدا کئے ہیں لیکن انفرادیت یہ ہے کہ ان سب پر ہجر کی چھاپ بہت گہری ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

ہجرِ مسیحا آبنیا اے میرے لئی
جد دا درد، دوا بنیا اے میرے لئی

غزل کسی زبان میں لکھی گئی ہو، اسے معتبر اور جاوداں کرنے میں موضوعات کی نیرنگی اور ہر نوع کے مضامین کے انجذاب کا سب سے بڑا کردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس میں سموئے جانے والے موضوعات توانا ہیں۔ اگر موضوعات توانا ہیں تو غزل توانا ہے۔ غزل کے وسیع کینوس میں ایک جہانِ معنی آباد ہے، غزل توانا ہے اِس میں انفس و آفاق اپنے تمام تر جامعیت اور اکملیت کے ساتھ سما سکتے اور سما جاتے ہیں۔ غزل کی اِسی توانائی اور طاقت کو ڈاکٹر رزاق شاہد کی پنجابی غزل میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر رزاق شاہد کا غزل مجموعہ ’’مِٹھیاں کسکاں ہجر دیاں‘‘ کی زیادہ تر غزلوں کے ردیف و قافیہ اور اِس میں اصطلاحات ساری کی ساری پنجابی زبان کی ہیں۔ اُن کی انہی خصوصیات نے اُن کی غزل کو معتبر اور پنجابی زبان میں جاوداں اور قابلِ ذکر اضافہ کیا ہے۔

ڈاکٹر رزاق شاہد نے پنجابی غزل کو موضوعات کے تناظر میں ایک نیا آہنگ دیا ہے۔ مِٹھیاں کسکاں ہجر دیاں، کی غزل میں روایتی محبوب اور رومانی فضا دونوں موجود ہیں، یہاں وہ ادب بھی موجود ہے جو عشق کے بغیر نہیں آتا۔

ہجر، عشق و محبت کے سفر میں صعوبتعوں، رکاوٹوں اور دشواریوں کا نام ہے، جبکہ وصال دائمی آسودگی کا نام، ڈاکٹر رزاق شاہد کی غزل کی اصل توانائی، ان کا کمالِ فن کاری سے ماحول کی ہر شے اور معاشرے کے ہر فرد کو غزل کے کینوس پر نقوش کی صورت اُبھارنا ہے۔ انہوں نے ایسا شہرِ آشوب رقم کیا ہے جو ہمیں صورتِ حال کا شعور بھی دیتا ہے اور ان حالات میں اپنا اپنا کردار متعین کرنے کی دعوت بھی۔

ڈاکٹر رزاق شاہد کی غزلوں میں ہجر ایک بلیغ استعارہ ہے، یہ استعارہ پھیلتا ہے تو ڈاکٹر رزاق شاہد کے ہر شعر کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔ شاعر نے غزل کی روایت کے پیشِ نظر یوں تو سینکڑوں مضامین اپنے اشعار میں پیدا کئے ہیں لیکن انفرادیت یہ ہے کہ اُن سب پر ہجر کی چھاپ بہت گہری ہے۔ جب شاعرانہ خیال کی سفید روشنی ہجر کے منشور سے گزرتی ہے تو دھنک رنگ مضامین سامنے آتے ہیں لیکن اُن رنگوں کو منشور کے وجود سے علیحٰدہ نہیں کیا جاسکتا۔ ان موضوعات کی رنگا رنگی کے پیچھے سب سے دقیق حوالہ ہجر ہی بنتا ہے۔

ڈاکٹر رزاق شاہد ہجر کے ماحول میں رہتا ہے لیکن اس ماحول میں قید نہیں ہے، ہاں یہ ماحول اسے تخلیقِ شعر پر آمادہ کرتا ہے۔ ہجر کا موسم اسے وحشت نہیں دیتا بلکہ اس کی تخلیق کے گیسو سنوارتا ہے۔

اکلاپے دی بکل مار کے جد بیٹھا ساں
سوچاں دی سی بھیڑ دوالے یا فر میں ساں

ڈاکٹر رزاق شاہد کے ہاں ہجر کا احساس اِس لئے بھی گہرا اور شدید ہے کہ اُسے اپنے اردگرد کے ماحول میں کوئی بھی ایسا نظر نہیں آتا جسے وہ اعتماد کے ساتھ اپنا کہہ سکیں۔

اوہنے دوری میرا مقدر کر دتِی
سارا جیون جیہدے میں نزدیک رہیاں

رزاق شاہد کی شاعری کا بڑا وصف سہلِ ممتنع یعنی سادگی اور سلاست ہے۔ ایسے اشعار سیدھے دل میں اُتر جاتے ہیں۔ اِس کے برعکس ’’مٹھیاں کسکاں ہجر دِیاں‘‘ کے دیباچہ نگار غلام جیلانی خان کو بعض شعری پہلوؤں پر تحفظات ہیں۔ وہ لکھتے ہیں،

’’شاعر نے وہ بحریں، ردیف اور قوافی استعمال نہیں کئے جن کو مترنم اور شاداب کہا جاسکتا ہے۔ غزل کو پُر اثر بنانے میں رواں بحروں کا انتخاب ایک اہم رول ادا کرتا ہے۔ اُن تمام غزلوں میں جو دو تین بحریں استعمال کی گئی ہیں اُن میں میں ترنم اور موسیقی کا وہ رچاؤ کم ہے جو کسی غزل کو دلاویز دُھن میں گا کر سامعین کے لئے فردوس گوش بن جاتا ہے۔ دوسرے ڈاکٹر صاحب نے غزل موزوں کرتے ہوئے اُس کو مطلوبہ وقت فراہم نہیں کیا۔ شاعر کو جب ایک مصرع سوجھتا ہے تو وہ اُس کو اپنے دل میں یا پرزہِ کاغذ پر نوٹ کرلیتا ہے، اِسے آپ ایک اضطراری عمل بھی کہہ سکتے ہیں، لیکن جب شاعر بارد گراس پر غور کرکے اس کے متبالات تلاش کرتا ہے تو ایک ایک مصرعے کی کئی کئی صورتیں سامنے آتی ہیں، خوب سے خوب تر کی تلاش، لیکن لگتا ہے شاعر نے کم دھیان دیا ہے۔ اس کے علاوہ تیسری بات اس مجموعے میں بعض غزلیں ایسی ہیں جن کی ردیف غیر معمولی طور پر طویل ہے جس نے غزل کے شعروں کو کم تاثیر بنانے میں مدد دی ہے۔‘‘

اب کیا کریں کہ ہمیں غلام جیلانی خان کے تحفظات پر تحفظات ہیں، پہلا تو یہ کہ کیا مترنم بحروں میں کی جانے والی شاعری بڑی ہوجاتی ہے؟ یا صرف ان بحروں میں غزل لکھی جانی چائیے جو مترنم ہوں؟ مجید امجد کی شاعری کے بارے میں ایک تاثر یہ ہے کہ اُن کی شاعری گائیکی کے لحاظ سے مترنم نہیں ہے لیکن کیا اُن کی شاعری بڑی شاعری نہیں ہے؟ میرے خیال میں ڈاکٹر رزاق شاہد نے گیت کی مترنم بحروں کی بجائے غزل کی ہر قسم کی بحروں کو استعمال کیا ہے۔ شعر اچھا موزوں ہوا ہے یا شعر نہیں ہوا ہے، نقاد یا کسی کی شاعری کے بارے میں لکھنے والے کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ شاعر کو ڈیکٹیشن دے۔ ہمارا تاثر غلام جیلانی خان کے برعکس ہے، سات شعری مجموعوں اور تین تنقیدی اور تحقیقی نثری مجموعوں کے خالق نے اپنے اس مجموعے میں خیال کے دیئے روشن کئے ہیں۔ ڈاکٹر رزاق شاہد کی غزل حدیثِ عشق کا بیان ہے اسی لئے اس کے ہر شعر سے رنگِ اثر پیدا ہے۔ وہ ہجر کا مصور ہے اِس لئے اُس کی بنائی ہوئی تصویروں میں وصال کے شوخ رنگ نہیں بلکہ ہجر کے ملیح رنگ جھلکتے ہیں۔

سمجھ نہیں اوندی، شاہد نوں کیہہ وگیاں نیں
بُھل جاندا اے گھر دا رستا، شام دے بعد
شاہد ویکھ عشق دے کارے
کن پڑوا کے، مجھیاں چارے
عشق نہین ڈردا اگاں کولوں
عقل تاں ددھ نوں پھوکاں مارے

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
رضاالحق صدیقی

رضاالحق صدیقی

رضا الحق صدیقی ادبستان کے نام سے بلاگ اور نیٹ ٹی وی کے کرتا دھرتا ہیں۔ اُس کے علاوہ چار کتابوں ’مبادیاتِ تشہیر‘، ’حرمین کی گلیوں میں‘، ’کتابیں بولتی ہیں‘ اور ’دیکھا تیرا امریکہ‘ کے مصنف بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔