بُک شیلف

بشیر واثق / شہباز انور خان  اتوار 26 فروری 2017
پڑھئے اور جانیے بہترین کتابوں میں چھپے راز۔ فوٹو: فائل

پڑھئے اور جانیے بہترین کتابوں میں چھپے راز۔ فوٹو: فائل

روزگار فقیر
مصنف: فقیر سید وحید الدین
قیمت:1000 روپے،صفحات:487
پبلشرز: آتش فشاں، علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور
حضرت علامہ اقبالؒ کی شخصیت پر اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے اور ان کی شخصیت کے اتنے پہلو سامنے آ چکے ہیں کہ لگتا ہے کہ اب اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے مگر اللہ نے انھیں فکر کی جو وسعت اور جولانی عطا کی تھی وہ تحقیق کرنے والوں کو مزید آگے بڑھنے اور نئے جہاں کی تگ و دو میں لگے رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ مشرق کے شعراء اور فلسفیوں میں سے جتنا کام علامہ اقبالؒ پر کیا گیا ہے شائد ہی کوئی اور شخصیت ان کے ہم پلہ ہو سکے۔ یوں کتابوں پر کتابیں لکھی جا چکی اور لکھی جا رہی ہیں مگر’’ روزگار فقیر‘‘ ان سب سے جدا واقعات کا ایسا مجموعہ ہے جو حضرت اقبالؒ کی شخصیت کے ایسے واقعات پر مشتمل ہے جو ان سے ملنے، سننے اور دیکھنے والوں نے بیان کئے ہیں ۔

پہلی مرتبہ یہ کتاب 1950 میں شائع کی گئی جسے بہت پذیرائی حاصل ہوئی، جس کا تعارف فیض احمد فیض جیسے نامور دانشور نے لکھا ، جو کہتے ہیں کہ اب یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کہ علامہ اقبال مرحوم ہمارے دور کی سب سے اہم اور سب سے عظیم المرتبت ادبی شخصیت تھے۔ نقش اول کے بعد اسے ترامیم اور اضافوں کے ساتھ شائع کیا جاتا رہا جس سے روزگار فقیر کی دو جلدیں مرتب ہو گئیں، جو اب اکٹھی شائع کی گئی ہیں۔ کتاب کیا ہے واقعات کا گویا ایک خزانہ ہے جس میں قاری کھو کر رہ جاتا ہے یوں لگتا ہے جیسے وہ حضرت اقبالؒ کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہو جس سے ان کی شخصیت کی عظمت اس کے دل و دماغ کو اپنے سحر میں لے لیتی ہے۔ مصنف کے بیان کی دلنشینی الگ اپنا تاثر لئے ہوئے ہے۔ اگر کوئی حضرت علامہ محمد اقبال ؒ کی شخصیت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔

کیا سیاست عقیدہ اکٹھے رہ سکتے ہیں ؟
مصنف : عارف میاں
قیمت: 500/ روپے،، صفحات: 168
ناشر: نیڈ کونسل، لاہور
مذہب ، عقیدہ اور سیاست ایک ایسا موضوع ہے جس پر لکھا بھی بہت گیا ہے اور مباحث بھی بہت ہوئے ہیں ۔ مذہب کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ مذہب چونکہ الہامی ہدایت نامہ ہے جس کی روشنی میں انسان راہ عمل اخیتار کرتا ہے۔ یہ انسانی زندگی کے تمام پہلووں کا احاطہ کرتا اور یہی اس کی دنیاوی اور اخروی زندگی کی کامیابی کی کلید ہے، دوسری طرف مذہب کے منکرین کے نزدیک یہ محض ایک واہمہ ہے جس کا انسان کی عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ دنیاوی زندگی ہی اصل زندگی ہے جسے انسان اپنی مرضی اور منشا کے مطابق گزارتا اور انجوائے کرتا ہے ۔ دونوں طرف کی سوچ رکھنے والے دانش وروں اورفلسفیوں کے پاس اپنے اپنے موقف کے حق میں دلائل ہیں جن کی بنیاد پر ان کی فکر کی عمارت استوار ہے لیکن ان متحارب اور متضاد نظریات کے حامل افراد کے درمیان افہام وتفہیم کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی اور یوں یہ مسئلہ کل کی طرح آج بھی اسی طرح بحث و مبا حث اور مکالمے کا متقاضی ہے۔

عارف میاں نے اپنی اس کتاب میں اسی موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور منطقی انداز اپناتے ہوئے استدلال کے زور پر اس بحث کو آگے بڑھایا ہے ۔کتاب کے چھ باب ( عقیدہ ، تبدیلی، جنت ، حدود اخلاقیات ، تعلیم اور سیاست ) ہیں اور ہر عنوان پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ تمام ابواب میں انہوں نے پوری تفصیلات اور جزئیات کے ساتھ اس نکتے ہی کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سیاست اور عقیدہ دونوں الگ الگ ہیں خصوصاً کاروبارِ مملکت چلانے کے لیے انہیں یکجا یا اکٹھے نہیں کیا جانا چاہئے تاکہ معاشرے میں ارتقا کا عمل جاری و ساری رہ سکے ۔ ان کا ماننا یہ ہے کہ محض مذہب کی بنیاد پر کوئی معاشرہ ترقی وخوش حالی، امن اور سلامتی کی منزل طے نہیں کر سکتا۔ وہ ( پرانی ) مذہبی تعلیم کو اجتماعی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تصور کرتے ہیں کہ ان کی نظر میں اس سے فرقے اور گروہ پیدا ہوتے ہیں، فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ وہ قراردیتے ہیں کہ ’’ مسلمان سیاست سے مذہب کو الگ کرکے اور جدید تعلیم سے آراستہ ہوکر بہتر ہو سکتے ہیں اور دنیا کا بوجھ بھی کم ہو سکتا ہے۔ وہ فرقہ واریت، نفرت ، گروہ بندی، انتہاپسندی اور دہشت گردی کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہراتے ہیں۔

وہ اہل مغرب اور غیر مسلم اقوام کی مادی ترقی سے مرعوب ضرور ہیں لیکن جہاں وہ ضروری سمجھتے ہیں کہ غیر مسلم اجتماعی امن، خوش حالی، خوبصورتی اور ترقی کے لیے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردانہ، مخلصانہ اور بردبارانہ رویہ اختیار کریں وہ مسلمانوں سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے طرز فکر پر غور کریں اور مفید نتیجہ تک پہنچیں‘‘۔ کتاب میں بہت سے فکر انگیز پہلو ہیں جن پر بڑے حقیقت پسندانہ انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے لیکن کہیں کہیں مصنف خود کنفیوز دکھائی دیتا ہے اور اپنی بات یا موقف کو بیان کرتے ہوئے الجھاو کا شکار ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کتاب میں لاتعدا د سوالات بھی اٹھائے ہیں جو کسی بھی انسان کے ذہن میں فطری طور پر جنم لیتے ہیں یا لے سکتے ہیں۔

کتاب کا آخری پیراگراف اس طرح ہے ’ ’ کیا سیاست عقیدہ اکٹھے رہ سکتے ہیں ؟ یہ سوال باقی ہے، اس کا جواب باقی ہے، اس کاجواب کوئی اکیلا انسان نہیں دے سکتا، اکیلا انسان رائے دے سکتا ہے، سوچنا، بولنا اور رائے ظاہر کرنا سب کا حق ہے، میری رائے میں سیاست عقیدہ جتنا اکٹھے رہ سکتے تھے، رہ چکے ہیں، مزید کوشش کی جا سکتی ہے، دور گزر چکا ہے، زیادہ مناسب جواب اجتماعی طور پر معاشرہ دے سکتا ہے‘‘۔ اپنے مذکورہ بالا اختتامی کلمات کے ذریعے صاحب کتاب نے سیاست عقیدہ کی ساری بحث کو گویا ادھورا چھوڑ دیا ہے۔ تاہم موضوع ایسا ہے کہ اس سے یقینی طور پر مکالمے اور بحث مباحثے کا عمل آگے بڑھے گا اور ان پہلووں پر بھی بات ہو سکے گی جو ابھی تک تشنہ ہیں ۔

راجہ گدھ (تنقیدی جائزہ )
مصنف: غلام حسین غازی
قیمت:400 روپے، صفحات: 128
ناشر : بک ہوم، لاہور
غلام حسین غازی انگریزی ادبیات کے استاد ہیں ۔ زیرتبصرہ کتاب ملک کی معروف ادیبہ بانوقدسیہ کے مقبول عوام ناول ’’ راجہ گدھ ‘‘ پر تنقیدی جائزہ پر مبنی ہے جو غلام حسین غازی کے بقول انہوں نے طلبہ کی ’ تحریک ‘ پر عمیق مطالعہ کے بعد رقم کی ہے۔کتاب پر انہوں نے بڑی چابک دستی کے ساتھ مختلف پہلووں سے روشنی ڈالی ہے اس کے اسلوب، اس میں بیان کردہ نظریے ( تھیوری )، اس میں شامل کرداروں، پیش کردہ ماحول، فضا اور خاص طور پر اس ناول کی وساطت سے قاری کودیے جانے والے ’ پیغام ‘ کو انہوں نے اپنے تنقیدی مطالعے کا ہدف بنایا ہے۔

ناول کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد انہوں نے ناول اور ناول نگار کے بارے میں بہت سے سوالات اٹھائے ہیں اور ان ( مصنفہ ) پر کڑی تنقید کرتے ہوئے ناول کے ذریعے نوجوان نسل کوگمراہ کرنے کی ایک شعوری کوشش قراردیا ہے کہ اس سے قاری کو زندگی کی ٹھوس حقیقتوں سے راہ فراراختیار کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔

بعض مقامات پر مصنف جارحانہ انداز اختیار کرجاتا ہے وہ جہاں ایک طرف بانو قدسیہ اور ان کے ’’ ادبی قبیلے ‘‘ کے لتے لیتے ہیں وہاں دوسری طرف وہ ان دانش وروں اوراہل قلم کو بھی ’’ مجرم ‘‘ ٹھہرادیتے ہیں جنہوں نے راجہ گدھ کو پڑھنے کے باوجود اس کا محاکمہ کرنے کے بجائے اسے سند قبولیت عطا کی اور بے ضمیری کا مظاہرہ کیا۔ یہ سوچ، فکر اور رویہ دراصل ان کی جدید نظریات سے مملو عملیت پسندی کا مظہر ہے جس کے اظہار میں افراط و تفریط کاشکار ہوگئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے فاضل نقاد بانو قدسیہ کے حوالے سے تعصب کا شکار ہوگئے ہیں اور تنقید برائے تنقید کے ذریعے اپنا مافی الضمیر قاری پر جبراً ’’ انڈیلنے ‘‘ کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم چونکہ یہ تنقیدی جائزہ ایک ایسے ناول کا ہے جس نے عوام ہی میں نہیں خواص میں بھی بے پایاں مقبولیت حاصل کی ہے اس لیے اس کتاب کے مخاطب اور توجہ کے مستحق عام قاری کی نسبت نقاد حضرات زیادہ ہیں۔’’ خالص تنقید ‘‘ پر مبنی اس جائزے نے بانوقدسیہ کی تحریروں کا ازسرِ نو (غیرجانبدارانہ انداز میں ) جائزہ لینے کا راستہ کھول دیا ہے۔ گویا ع صلائے عام ہے یاران ِ نکتہ داں کے لیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔