5 لاکھ مزید بچے؟ 

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 25 فروری 2017
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

بچوں کی تھوک کے حساب سے اموات کے حوالے سے تھرکا نام اس قدر مشہور ہو گیا کہ اب تھر کو بچوں کے قاتل شہرکا نام دیا جاتا ہے۔ تھر میں بچوں کی اموات کا سلسلہ سابقہ صوبائی حکومت کے دور میں شدت سے جاری رہا اور اس حوالے سے حکام بالا یہ عذر پیش کرتے رہے کہ بچوں کی اموات، غذا اور دودھ کی کمی سے نہیں بلکہ بیماریوں سے ہو رہی ہیں۔ جب حکمرانوں کی مت ماری جاتی ہے تو وہ ایسے ہی عذر لنگ پیش کرتے رہتے ہیں۔

فرض کر لیں اگر حکمرانوں کے اس عذر کو مان بھی لیں کہ بچوں کی اموات غذائی قلت سے نہیں بلکہ بیماریوں سے ہوتی رہی ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیماریوں کا علاج کس کی ذمے داری ہے اور کیا بچوں کی جان لیوا بیماری کا کوئی علاج نہیں؟ بات یہ نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران طبقات کی ترجیحات میں عوامی مسائل خاص طور پر تعلیم اور صحت شامل ہی نہیں جب کہ دنیا کے ہر ملک میں تعلیم اور صحت کو اولیت دی جاتی ہے اور ان دو شعبوں کے لیے بجٹ میں ایک بڑا حصہ مختص کیا جاتا ہے۔

ایک تازہ خبرکے مطابق اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسف نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں ’’مزید‘‘ پانچ لاکھ بچے مناسب غذا یا غذا کی قلت کی وجہ سے لاغر ہو سکتے ہیں۔ 2011ء کے ایک سروے کے مطابق ملک میں 44 فیصد بچے لاغر یا کمزور ہیں جو اپنی عمر کے حوالے سے کم ذہنی و جسمانی نشو و نما کا شکار ہیں۔ پاکستان میں موجود لاغر یا کمزور بچوں سمیت دنیا بھر میں 4کروڑ 80 لاکھ بچے کمزور یا لاغر ہیں۔

اس صورتحال سے بچنے کے لیے یونیسف نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ دنیا بھر میں نقل مکانی اور قحط سے بچوں کو بچانے کے لیے 3 ارب 34 کروڑ ڈالر سے زیادہ عطیات جمع کریں تا کہ بچوں کو خوراک کی کمی کا سامنا کرنے سے بچایا جا سکے۔ چھوٹے بچے ماں باپ کے زیر کفالت ہوتے ہیں اور ماں باپ کا مال یہ ہوتا ہے کہ دن بھرکی سخت محنت کے باوجود وہ اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی فراہم کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔

غریب طبقات کے بچوں کو مناسب غذا اس لیے نہیں ملتی کہ ان بچوں کے والدین میں غربت کی وجہ سے قوت خرید نہیں ہوتی۔ چھوٹے بچوں کو ایک خاص عمر تک دودھ کی غذا دینی پڑتی ہے چونکہ غریب ماؤں کا دودھ غذا کی قلت سے سوکھ جاتا ہے لہٰذا شیر خوار بچے ماں کے دودھ سے محروم ہوتے ہیں۔

جس ملک میں 50 فیصد عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہوں اس ملک کے بچوں کے لیے معیاری غذا کی فراہمی ایک خواب بلکہ تعبیر سے محروم خواب کے علاوہ کچھ نہیں۔ ہمارے ملک میں شیر خوار بچوں کے لیے خشک برانڈڈ دودھ ملتا ہے لیکن اس دودھ کی قیمت اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ غریب ماں باپ اپنے شیر خوار بچوں کے لیے خشک دودھ خریدنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔

ہمارا حکمران طبقہ بچوں کو قوم کا مستقبل کہتا ہے اور قوم میں 80 فیصد سے زیادہ وہ لوگ شامل ہیں جنھیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں صرف دو فیصد لوگ وہ ہیں جو اپنی پیشانی پر ’’ہٰذامن فضل ربی‘‘ کی تختی سجائے بیٹھے ہیں، جو معاشرے طبقات میں تقسیم ہوتے ہیں ان میں نچلے طبقے کی زندگی بنیادی ضرورتوں تک سے محروم ہوتی ہے۔ ہر سال لاکھوں بچے دودھ کی قلت کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تھر میں کئی برسوں سے غذائی قلت کی وجہ سے ہزاروں بچے موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ عوام کے مسائل سے لاتعلق ہو گیا ہے۔

دوسری وجہ بلکہ بڑی وجہ یہ ہے کہ قومی دولت کا 80 فیصد حصہ دو فیصد مراعات یافتہ طبقے کے قبضے میں آ گیا ہے۔ جس ملک میں جن معاشروں میں دو فیصد مراعات یافتہ طبقہ 80 فیصد دولت پر قابض ہوتا ہے ایسے ملکوں میں 80 فیصد عوام اگر دو وقت کی روٹی سے محروم ہوتے ہیں تو نہ یہ کوئی حیرت کی بات ہے نہ غیر منطقی ہے۔ کیا آمدنی کے اور غربت و امارت کے اس تناسب کو ختم کیے بغیر بچوں کی اموات اور لاغری کو دورکیا جا سکتا ہے؟

یہ درست ہے کہ بہ ظاہر اس قسم کے مسائل کا ذمے دار حکمران طبقہ ہی نظر آتا ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ اس عدم مساوات اور معاشی استحصال کا ذمے دار وہ طبقاتی نظام ہے جسے ہم سرمایہ دارانہ نظام کے نام سے جانتے ہیں، اس نظام کی سرشت میں غریب طبقات کا معاشی استحصال ہے۔

یہ نظام صرف اور صرف چوروں لٹیروں کے تحفظ کے لیے وضع کیا گیا ہے اس نظام میں یہ شاطرانہ فلسفہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہر انسان اس نظام میں ترقی کی دوڑ میں شامل ہو سکتا ہے لیکن اس فلسفے کی حقیقت یہ ہے کہ ہر ملک کے 80 فیصد سے زیادہ عوام اس مسابقتی گراؤنڈ ہی سے باہر ہوتے ہیں۔ کیونکہ انھیں اس مسابقتی اہلیت ہی سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں آئی ٹی شعبے کے ایک ’’آئی کون‘‘ کے حوالے سے یہ خبر میڈیا میں آئی تھی کہ اس آئی کون نے ایک گھنٹے میں تین کھرب روپے یا تین ارب ڈالرکما لیے۔ معاشی ماہرین چیخ رہے ہیں کہ جب تک دنیا کی 80 فیصد دولت کو دو فیصد مراعات یافتہ طبقات کی گرفت سے نہیں نکالا جاتا دنیا طبقات میں بٹی رہے گی اور غریبوں کے بچے بھوک سے دم توڑتے رہیں گے۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کی یہ رپورٹ اسی طبقاتی نظام کی ترجمان ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں غذائی قلت سے مزید 5 لاکھ بچے لاغری کا شکار ہو جائیں گے۔ اسی رپورٹ میں دنیا بھرکے اعداد و شمار کے حوالے سے انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا میں 4کروڑ 80 لاکھ بچے لاغری کا شکار ہیں یعنی بیمار ہیں۔ پاکستان کا حکمران طبقہ عوام کو اپنے دور کی غیر معمولی ترقی کے مژدے سناتا رہتا ہے کیا اس کی نظروں سے یونیسف کی رپورٹیں گزرتی ہیں جن میں پاکستان کا مستقبل جھلکتا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔