جھوٹ پر ایوارڈ

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 25 فروری 2017

سنتے آرہے ہیں کہ جھوٹ انسان کا بدترین دشمن ہے انسان کے اندر وہ تباہی پھیلاتا ہے، جس کا تصور محال ہے۔ کینسر، کوڑھ ، ہیپاٹائٹس تو بیچارے خوامخواہ بدنام ہیں۔ علم و دانش کا سب سے روشن چراغ سینٹ تھامس اکیونس پندرہ سو میل سفر طے کرنے کے بعد آخرکار پیرس پہنچ گیا مگر جب وہ عظیم یونیورسٹی کے شہر میں پہنچا تو اس کو معلوم ہوا کہ پروفیسر البرٹس میگ نس کولون میں خطبات دے رہا ہے، یہ فلسفے کا وہ مشہور استاد تھا جس کے علم و فضل کے چشمے سے اپنے پیاس بجھانے کے لیے تھامس نے یہ سارے جتن کیے تھے۔

یہ خبر سن کر اس نے دریائے رہاٹن پار کیا اور کولون کی طرف روانہ ہوگیا، وہاں پہنچ کر وہ پر ہجوم خطبہ گاہ میں گھس گیا اور البرٹس کے قدموں میں جا بیٹھا، استاد اس عزت واحترام کا مستحق تھا۔ یورپ بھر سے علم کے پیاسے اس کے خطبات سننے کے لیے آیا کرتے تھے وہ گھنٹوں چپ چاپ بیٹھ کر استاد کے سبق سنتا اورطالب علموں کی عمومی بحث میں شریک نہ ہوتا، زیر بحث موضوعات پر وہ رائے دیتا اور نہ ہی کوئی مشورہ ۔ دوسرے تمام طالب علم اپنے علم کی نمائش پر آمادہ رہتے تھے۔

تھامس کو مگر اس امر کی کوئی خواہش نہ تھی وہ تنہائی میں ڈوبا رہتا جب کہ اس سے کمتر علم و ذہانت رکھنے والے طلبہ اپنی چمک دمک کے مظاہرے میں مصروف رہتے۔ ہم سبق اس سے کوئی ایک لفظ بھی حاصل نہ کرسکے ۔ وہ اس کے بڑے سے سر اور بھاری بھرکم جسم پر حیران ہوتے وہ بیل کی طرح پھیلا ہوا تھا ساتھیوں نے واقعی اس کو ’’ گونگا بیل ‘‘ کہنا شروع کردیا تھا۔ ایک روز خطبات کے درمیانی وقفے میں ایک طالب علم نے جو ٹھٹھولیا ہونے پر ناز کرتا تھا کھڑکی سے باہر جھانکا اور چلانے لگا دیکھو ذرا دیکھو ایک سانڈ اوپر اڑ رہا ہے۔

تھامس نے دیکھنے کے لیے سر کھڑکی سے باہر نکالاتو سب ہی طالب علم اس کا مذاق اڑانے کے لیے ہنسنے لگے۔ تھامس نے بڑی متانت سے ان کا سامنا کیا اس کے چہرے پر حقارت کے آثار امڈآئے تھے ’’میں پاگل نہیں ہوں کہ یہ مان لوں کہ کوئی سانڈ ہوا میں اڑ سکتا ہے ‘‘ اس نے کہا ’’ لیکن مجھے یہ یقین بھی نہ آتا تھا کہ خدا کا کوئی بندہ جھوٹ بولنے کی حد تک جا سکتا ہے۔‘‘

اگر تھامس آج زندہ ہوتے اور کچھ عرصے کے لیے پاکستان کے دورے پرآ جاتے تو یقیناً اپنا دورہ مکمل ہونے سے پہلے ہی ذہنی توازن کھو بیٹھتے۔ کیونکہ جب انہیں پاکستان میں ہر جگہ اور ہر طرف سے بے دریغ جھوٹ پہ جھوٹ سننے کو مل رہا ہوتا اور اس قدر ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ کہ جھوٹ بولنے والے معصومیت کے ساتھ کہہ رہے ہوتے کہ ہم جھوٹ ہی تو بول رہے ہیں کوئی جرم تو نہیں کررہے کوئی گناہ تو نہیں کررہے توآپ ہی بتائیے کہ وہ اپنا ذہنی توازن کس طرح برقرار رکھ پاتا۔ چلیے اس کو چھوڑیے آپ ہی بتلادیجیے اگرآپ بھی جھوٹے نہ ہوں تو۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم آج سب جھوٹ کے پجاری ہیں۔

جھوٹ ہمارے لیے آج سب سے مقدس دیوتا ہے جس پرہم دن رات چراغاں کیے بیٹھے رہتے ہیں۔ ہم جھوٹ کے اتنے عادی مجرم ہوگئے ہیں کہ جھوٹ سنتے ہی جھومنے لگتے ہیں جھوٹ بول کر اور سن کر ہی ہمیں تسکین ملتی ہے چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا لیکن شرط یہ ہے کہ ہوجھوٹ ہی ۔

دوسری طرف سارے ملک میں لولا، لنگڑا، اپاہج، فالج زدہ سچ آوارہ گھومتا رہتا ہے بے گھر سارا وقت دھکے کھاتا پھرتا ہے، تذلیل سہتا رہتا ہے، دھتکار سنتا رہتا ہے ذلیل وخوار ہوتا رہتا ہے، ویسے آپس کی بات ہے کہ جھوٹ بولنے اور سننے میں آتا مزا ہے اور جھوٹ بولنا اور سننا ہوتا بھی مسرور کن اوردلکش ہے سننے والا بھی خوش اور بولنے والا بھی خوش۔ جب کہ سچ اتناکڑوا ہوتا ہے کہ بولنے والے کے منہ کا ذائقہ بھی خراب اورسننے والا آپ سے ناراض الگ اور آپ کا جانی دشمن ہوجاتا ہے جب کہ دوسری طرف وہ ہی شخص جھوٹ سننے کے بعد گنگناتا، ہنستا، لہلاتا جاتا ہے اور دل ہی دل میں آپ کو ہزاروں دعائیں الگ دے رہا ہوتا ہے۔

اس لیے تو کہتے ہیں کہ اناج کو گولی مارو،آؤ مل کر نئے نئے جھوٹ اگائیں اور اس کے لیے نئے نئے کھیت تیارکریں تاکہ اس میں اور نئے نئے جھوٹ اگیں جو اس سے پہلے نہ کبھی بولے گئے ہوں اور نہ ہی سننے گئے ہوں۔ جہاں اور اتنے بڑے بڑے کام اورکارنامے سر انجام دیے جارہے ہیں ۔ وہاں اگر ملک میں سچ بولنے پر پابندی عائد کردی جائے اور جھوٹ بولنے کو قانونی اور آئینی تحفظ دے دیاجائے اوریہ اعلان کردیا جائے کہ آ ج سے صرف اورصرف جھوٹ بولاجائے گا تو مزا ہی آجائے ذرا تصورکریں کہ اس اعلان کے بعد ہر جگہ سچ بولنے والوں کی مار پیٹ ہورہی ہوں گی۔

ان پر لعنت ملامت ہورہی ہوگی ان کا سوشل بائیکاٹ کیا جا رہا ہوگا اور دوسری طرف ایک سے ایک بڑا اور نیا اورشاندار جھوٹ بولنے والے کو ایوارڈ دیا جا رہا ہوگا ۔ اس کی ہر جگہ پذیرائی ہو رہی ہوگی ،اسے قومی ہیرو کا درجہ دیا جا رہا ہوگا۔ پورے ملک میں جھوٹ بولنے کے مقابلے منعقد ہورہے ہوں گے اوردوسر ی طرف ہمارے حکمران اپنے نئے عظیم الشان قانون کا پر چار اور پبلسٹی پوری دنیا میں کررہے ہوں گے اور نئے قانون کی اچھائیوں سے دنیا بھر کو آگاہ کررہے ہونگے۔اس سے ایک اور بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ سر پھرے دیوانے جو سارا وقت ٹی وی پرچیختے اورچلاتے رہتے ہیں کہ ملک میں کرپشن ہورہی ہے لوٹ مار ہورہی ہے۔

عدالتوں، ایوانوں اورقوم کے سامنے جھوٹ بولا جارہا ہے کمیشن کھایا جارہا ہے اور حکمران اپناسارا وقت وضاحتیں پر وضاحتیں دیتے پھرتے ہیں۔ ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات حاصل ہوجائے گی اور سر پھرے دیوانوں کے چیخنے اور چلانے پر پابندی عائد ہوجائے گی اس سے قوم کو بھی سکون حاصل ہوجائے گا اور پھر جھوٹ ہی جھوٹ ، جھوٹ ہی جھوٹ کا بول بالا ہوگا اور قوم کو ایک سے ایک نیا بڑا شاندار اور تاریخی جھوٹ سننے کا موقع نصیب ہورہا ہوگا ۔ اور جو یہ کہہ رہے ہوں گے کہ جھوٹ انسان کے بدترین دشمن ہیں ان کی سر عام پٹائیاں ہورہی ہونگی اور ذلیل و رسوا ہورہے ہونگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔