ایک قلمکار نے کتاب لکھنے کے لیے وقت نکالا

ساجد علی ساجد  ہفتہ 25 فروری 2017

آج پھرہمیں حال ہی میں شایع ہونے والی ایک کتاب کا تذکرہ کرنا ہے۔ہم اکثر اپنے کالموں میں اس قسم کی دلچسپ کتابوں پر ہونے والے تبصروں کو شامل کرتے رہے ہیں، جن سے ہمارے کالم کے مستقل عنوان سے مطابقت کو محض اتفاقی قراردیا جاسکتا ہے۔ ہمیں بہرحال یہ امید بلکہ یقین ہے کہ یہ تبصرے اپنی جگہ سیرحاصل اور READABLE ہوتے ہیں اور ہمارے قارئین کو ضرور پسند آتے ہوںگے۔

WHY TIME FLIES:AMOSTLY SCIENTIFIC INVESTIGATION یعنی وقت پرواز کرتا یا دوڑتا کیوں ہے؟ ایک زیادہ تر سائنسی تحقیق۔ یہ کتاب ایلن بلورڈک نے تحریرکی ہے اور اس پر تبصرہ کار لوروویلی نے کیا ہے جس کا تقریباً من وعن اردو ترجمہ ہم ذیل میں پیش کررہے ہیں۔

ایلن بلورڈک کی یہ کتاب ’’وہائے ٹائم فلائز‘‘ ہمارے ہر سوال کا جواب نہیں دیتی اور شاید اسی لیے ہمیں مغلوب کرلیتی ہے کیونکہ یہ ہمارے لیے بڑے متحیر کن سوالات کا ایک کنواں کھودتی ہے اور ایک جھلک اس معمے کی دکھاتی ہے جو ہم انسانوں کے لیے انتہائی پراسرارگہرائی پر مبنی معاملہ بن گیا ہے۔ یعنی وقت کی نوعیت نیچرآف ٹائم کیا ہے؟

وقت پہلے ایسے لگتا ہے جیسے ہمارے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔آخر اس کے بارے میں کہنے کوکیا ہے؟ یہ پروازکرتا ہے اور جب گزر رہا ہوتا ہے تو چیزیں پیش آتی ہیں واقعات رونما ہوتے ہیں۔ گھڑیاں اسے ناپتی ہیں اور ہم اس کے گزرنے سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔

اس تبصرے (ریویو) کو پڑھنے میں آپ کو مشکل سے تین منٹ لگیںگے وقت کے بارے میں کوئی خاص تجسس پیدا نہیں ہوتا مگر جب ہم قریب سے اسے دیکھتے ہیں ہمارا زمانے کے متعلق سینس اتنا ہی کم واقع ہوجاتا ہے۔ سب سے پہلے ہمارا دماغ جسم اورخلیے ایسے مختلف النوع انداز سے وقت کا ٹریک رکھتے ہیں جن کو اچھی طرح سمجھا نہیں جاسکتا۔ ماہرین نفسیات تجربوں کی دولت سے ششدر رہ جاتے ہیں جن سے ظاہرہوتا ہے کہ ہم وقت کو زیادہ چالاکی اور پیچیدہ طریقوں سے پروسیس کرتے ہیں جس کی ہمیں بالکل توقع نہیں ہوتی۔

بعض دماغی سائنسدان تو دماغ کو ٹائم مشین کا درجہ دیتے ہیں جس کا اندرونی میکنزم ماضی کی یادوں کو جمع کرتا ہے تاکہ مستقبل کی پیشن گوئی کی جاسکے۔ فلاسفر حضرات وقت کے وجود پر بحث کرتے ہیں اور شاید سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ طبیعیات (فزکس) ہمیں سکھاتی ہے کہ ’’فزیکل ٹائم‘‘ حیرت انگیز طور پر اس سے کہیں مختلف ہے جس طرح ہم اس کا وجدانی تصور کرتے ہیں۔ یہ مختلف اونچائی یا گہرائی پر مختلف رفتار سے دوڑتا ہے۔ مواد (میٹر)سے منتشر ہوتا ہے اسٹریٹ فارورڈ انداز میں ماضی حال اورمستقبل میں منظم نہیں ہوتا، کائنات کی ایڈوانس تھیوریز تو اسے دنیا کی بنیادی جزئیات سے ہی خارج کردیتی ہیں جس رخ سے بھی ہم اسے دیکھیں وقت ہمیں اچبھنے اورحیرت میں ڈالنے والی چیز ہے۔

اس سے بھی زیادہ الجھن میں مبتلا کرنے والی بات یہ ہے کہ وقت کی تجریدی یا پوشیدہ خاصیت اگر سب نہیں تو بہت سوں کے نزدیک ہمارے ارد گرد پھیلے ہوئے غیرحل شدہ پراسرار رازوں میں سے ایک ہے جس میں ذہن کی کیفیت،کائنات کی ابتدا بلیک ہولزکا مقدر، میکرو اسکوپک طریقہ کار کاریورس نہ ہونا اور زندگی کے کام کرنے کا انداز شامل ہے۔

بورڈک دی نیو یارک کے اسٹاف رائٹر اوراس کے میگزین کے سائنس اورٹیکنالوجی بلوگ میں لکھتے ہیں وہ ان قابل تعریف صحافیوں میں سے ہیں جن کو اس بات کا سینس ہے کہ ہمارے لیے کون سی چیز سائنٹفک انداز سے واسطہ رکھنے والی ہے۔ ان میں یہ صلاحیت بھی ہے کہ وہ لیب سائنس کی خشک زبان کو ایسی شکل دے دیتے ہیں جو ہمارے سمجھ میں آنے لگتی ہے۔ وہ سائنٹفک انکوائری کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ پتا چل جاتا ہے کہ حقیقت میں یہ کیا ہے انھیں دلچسپ موضوعات کے انتخاب میں بھی کمال حاصل ہے، مثلاً یہی دیکھیے بہت کم موضوعات ایسے ہیں جو وقت کی طرح ہمیں براہ راست متاثر کرتے ہیں۔ان کے علاوہ کون ہوگا جو وقت کو اپنی کتاب کا موضوع بنائے گا۔

وقت نہ صرف ایک ایسی چیز ہے جس میں ہم اس طرح سے ڈوبے ہوئے ہیں، جس طرح مچھلی پانی میں تیرتی رہتی ہے بلکہ یہ ہماری زندگیوں کا ایک ایسا عنصر ہے جس سے ہم ہمہ وقت نبرد آزما رہتے ہیں۔ جو ہمیں پاگل کردیتا ہے ہمارے لیے بہت سے امکانات کا درکھولتا ہے بہت سی چیزیں دیتا اور بہت سی چیزوں سے ہمیں محروم بھی کرتا ہے۔ وہائے ٹائم فلائزWHY TIME FLIES میں بورڈک بڑی نزاکت سے وقت سے خود اپنی ذاتی جدوجہد کی کہانی بھی بیان کرتے ہیں۔ کس طرح انھیں وقت کے سائنس اورآرگنائزیشن میں تبدیلیوں سے گزرنا پڑا خاص طور پر اس وقت جب ان کے بے پناہ خوشیاں دینے والے بچے پیدا ہوتے اور بڑا ہونا شروع کردیتے ہیں ان کے پاس پچھلی صدی کے اوورویو کی دولت اور لیب کے تجربات ہیں جن کی بدولت وہ اس بات کا کھوج لگاتے ہیں کہ وقت سے زندہ رہنے کا پیچیدہ رشتہ کیا ہے۔

اگر چہ اس لحاظ سے یہ کوئی جامع دستاویز نہیں ہاں خاصی باتیں کورکرتی ہے۔ پہچان پیدا کرنے سے لے کر ذہنی انداز سے اور دورانیے کا تصور حیرت انگیز طور پر وہ بہت سے انداز جن میں ہمارا جسم وقت کا ٹریک رکھتا ہے ور یہاں سے لے کر وہ تاریخ کہ ہم کس طرح پورے کرۂ ارض پر ایک مشترکہ گھنٹہ تخلیق کرنے پر متفق ہوئے تھے۔

بلاشبہ یہ کتاب ایسی ہی کہانیوں اور حیرت انگیز حقائق کا خزانہ ہے جس کا ہر صفحہ ہمارا اس میں وہ حصے بھی شامل ہیں جن میں پلیٹو سے لے کر سینٹ آگسٹائن اورپھر ولیم جیمز کی وقت کی نوعیت پر فلسفیانہ بحث مباثہ شامل کیا گیا ہے۔

بورڈک اپنی کتاب کی تشنگی اورنامکمل رہ جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے ختم کرتے ہیں وہ کہتے ہیں۔ میں اس بات کی ضمانت دے سکتا ہوں کہ یہ صفحات وقت کے بارے میں آپ کے ہر آخری سوال کا جواب نہیں دیتے حقیقت میں ایسا ہی ہونا چاہیے اور مصنف کا ارادہ بھی یہی تھا آپ کو یہ اندازہ ضرور ہوجاتا ہے کہ کتاب پڑھنے سے پہلے آپ کا جو خیال رہا ہوگا وقت کے بارے میں اس سے کہیں زیادہ معمے موجود ہیں۔

میرا خیال ہے وہ تین منٹ جن میں آپ یہ تبصرہ پڑھ رہے تھے ختم ہونے والے ہیں آپ کا دماغ کس طرح آپ کی تین منٹ پہلے کی شخصیت کو موجودہ شخصیت سے کنیکٹ کرتا ہے اور تین منٹ کے واقعات کو وقت گزرنے کے عمل میں سموتا ہے۔ یقینا کتاب پڑھنے کے بعد آپ اس بات پر ششدر رہ جائیںگے۔ آخر ’’حال‘‘ کا اصل میں مطلب کیا ہے آپ خود سے پوچھنے لگیںگے کہ گھڑی کو دیکھے بغیر ہمیں کس طرح پتا چلتا ہے کہ وقت کیا ہوا ہے اور ہمیں کس طرح معلوم ہوتا ہے کہ وقت پرواز کر رہا ہے اور یہ بھی کہ وقت کے پرواز کرنے کا مطلب کیا ہے کم از کم آپ کو یہ ضرور پتا چل جائے گا کہ آج وقت کی نوعیت کے بارے میں سائنفٹک نالج کی حالت کیا ہے جو اپنی جگہ ایک جادوئی پہلی ہے، بہر حال وقت ایسی چیز ہے جو گزرے چلا جارہا ہے دنیا کی کوئی طاقت بھی اسے روک نہیں سکتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔