میری بیوی مجھے روزانہ 300 روپے دیتی ہے

علیم احمد  ہفتہ 25 فروری 2017
زندگی میں اعتدال کے لئے ضروری ہے کہ شوہر اور بیوی کو ایک گاڑی کے دو پہیئے سمجھا جائے وہیں یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ خانگی ذمہ داریوں کا تعین دونوں باہمی مشورے اور افہام و تفہیم سے کریں، فوٹو: فائل

زندگی میں اعتدال کے لئے ضروری ہے کہ شوہر اور بیوی کو ایک گاڑی کے دو پہیئے سمجھا جائے وہیں یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ خانگی ذمہ داریوں کا تعین دونوں باہمی مشورے اور افہام و تفہیم سے کریں، فوٹو: فائل

اگر آپ بھی میری طرح تنخواہ دار طبقے سے تعلق رکھتے ہیں تو یہ تحریر آپ کو ضرور پڑھنی چاہیئے۔

دفتر میں لنچ کا وقفہ تھا اور ہم سب لوگ کھانے کی میز کے گِرد جمع تھے۔

ایسے میں فہیم میاں نے پوچھا، ’’علیم صاحب! آج آپ کو گھر سے کتنا جیب خرچ ملا ہے؟‘‘

’’آج مجھے پورے 400 روپے ملے ہیں،‘‘ میں نے مصنوعی انداز سے گردن اکڑاتے ہوئے جواب دیا۔

’’واہ! یعنی پورے 100 روپے زیادہ، آج تو آپ کے مزے ہوگئے،‘‘ فہیم کے لہجے کا طنز چھپا نہ رہ سکا۔

خرم ساری بات نہیں جانتا تھا، اس لئے حیران ہو کر پوچھنے لگا ’’کیا مطلب؟ آپ کو روزانہ گھر سے جیب خرچ کے پیسے ملتے ہیں؟‘‘

’’ارے ہاں بھئی! میری بیگم صاحبہ روزانہ مجھے 300 روپے جیب خرچ دیتی ہیں اور آج انہوں نے 100 روپے زیادہ دیئے ہیں کیونکہ واپسی پر کچھ چیزیں لیتے ہوئے جانا ہے،‘‘ میں نے وضاحت کی۔

یہ سن کر خرم کے چہرے پر حیرت کا رنگ مزید گہرا ہوگیا اور کہنے لگا ’’یہ کیا بات ہوئی! آپ اپنی بیگم سے جیب خرچ لیتے ہیں تو کیا آپ کو بُرا نہیں لگتا؟‘‘

’’اِس میں بُرا لگنے والی کونسی بات ہے یار؟ یہ فیصلہ ہم دونوں نے مل کر کیا ہے کیونکہ میں بہت فضول خرچ ہوں اور جیب میں جتنے بھی پیسے ہوں، بہت جلدی اُڑا دیتا ہوں اس لئے ضروری ہے کہ مجھے روزانہ لگا بندھا جیب خرچ ہی دیا جائے‘‘ میں نے اپنی بات مزید واضح کی۔

میرا کہنا کچھ غلط بھی نہیں تھا کیونکہ پُرانے احباب میری فضول خرچی کی عادت سے بخوبی واقف ہیں، اور یہ بھی جانتے ہیں کہ کئی مواقع پر اسی بناء پر مجھے کئی پریشانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔

300 روپے روزانہ جیب خرچ کا قصہ یہ ہے کہ شادی کے ابتدائی چند سال میں ہم دونوں میاں بیوی نے گھر کا بجٹ بنانے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ صرف اندازے کی بنیاد پر اپنے ماہانہ اخراجات کا حساب رکھا کرتے تھے۔ پیسے خرچ کرنے کے معاملے میں میرا لااُبالی پن اپنی پرانی روِش پر جاری تھا۔

لیکن ایک مہینہ ایسا بھی آیا کہ جب میں نے مزے میں آکر کچھ زیادہ ہی رقم خرچ کردی اور اگلی تنخواہ سے بہت پہلے جیب خالی ہوگئی۔ الحمدللہ فاقے کی نوبت نہیں آئی کیونکہ بیگم صاحبہ ہر مہینے کھینچ تان کرکے تھوڑی بہت رقم پسِ انداز کرلیا کرتی تھیں جو اُس بحران میں کام آگئی۔ البتہ اتنا ضرور ہوا کہ اگلے دو ہفتے تک انتہائی احتیاط سے اخراجات چلانے پڑے۔

سچی بات ہے دوستو! اُس وقت نصیحت تو ضرور ہوئی لیکن میں ٹھہرا پوتڑوں کا بگڑا ہوا فضول خرچ، اور مجھ سے صرف تنگ دستی ہی میں کفایت شعاری کی توقع کی جاسکتی ہے۔ زندگی میں بہت زیادہ خواہشات کبھی نہیں پالیں مگر پیسہ جب بھی ہاتھ میں آیا، اللّے تللّے ہی اُڑایا۔ وہ ریاضی جس کا تعلق معاشیات سے ہو، ہمیشہ سے میرے لئے اُکتاہٹ کا باعث ہی بنی ہے لیکن اب معاملات شادی سے پہلے والے نہیں رہے تھے۔ اب سنبھلنا ضروری ہوگیا تھا۔

تب ہم دونوں میاں بیوی نے ٹھنڈے دل و دماغ سے اپنے مالی حالات کا جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمیں ہر مہینے کا باقاعدہ بجٹ بنانا چاہئے؛ اور بجٹ بنانے سے پہلے ہم نے غور کیا کہ انتہائی لازمی نوعیت کے گھریلو اخراجات کون کونسے ہیں۔ یعنی وہ اخراجات جن پر کوئی سمجھوتہ ممکن ہی نہیں۔ اس طرح ہم نے گھر کے بجٹ کو ’’مدّات‘‘ (ہیڈز) میں تقسیم کرنا شروع کردیا جیسے کہ راشن، بجلی اور گیس کے بل، بلڈنگ مینٹی ننس، مرغی، گوشت، موبائل کارڈز، انٹرنیٹ فیس اور دوائیں وغیرہ۔

ماہانہ مدّات بنانے کے بعد ہم نے یہ حساب لگایا کہ باقی کی رقم سے مہینے بھر کے روزمرہ اخراجات کس حد تک ممکن ہیں، اس کے لئے ہم نے باقی کی رقم کو مہینے کے 30 دنوں پر تقسیم کرکے روزانہ مدّات بنائیں۔ احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہم نے ’’ناگہانی اخراجات‘‘ کی مد میں بھی کچھ رقم علیحدہ کرلی تاکہ تقریب یا تکلیف، ہر دو میں سے کسی کی صورت میں بھی زیادہ پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوئی۔ اس کے بعد تنخواہ ملتے ہی تمام مدّات کی پرچیاں بنائیں اور ہر مدّ کے لئے مختص کردہ رقم اس کی پرچی کے ساتھ پِن لگا کر رکھ دی۔ یہی معاملہ روزمرّہ اخراجات کے ساتھ بھی کیا گیا اور یوں 30 دن کی 30 پرچیوں کے تحت رقم رکھ دی گئی۔

اس ساری تقسیم کے نتیجے میں روزانہ جیب خرچ کے طور پر میرے لئے جو رقم بچی، آج وہ 300 روپے یومیہ ہے اور اسی میں مجھے دفتر جانے آنے کے کرائے سے لے کر کھانے پینے تک، سارے ذاتی اخراجات کرنے ہوتے ہیں۔

اس پابندی کی وجہ سے میری فضول خرچ فطرت کی تسکین تو نہیں ہوتی لیکن اتنا ضرور ہے کہ اخراجات اعتدال پر رہتے ہیں، اور اس کا سارا کریڈٹ میں اپنی بیگم صاحبہ کو دینا چاہوں گا جو مجھے روزانہ 300 روپے جیب خرچ کے طور پر دیتی ہیں۔

یہی نہیں بلکہ ہم دونوں کی مشترکہ ذمہ داری یہ بھی ہے کہ روزانہ خرچ ہونے والی رقم کی ایک ایک پائی کا حساب (چاہے اس کا تعلق کسی بھی مدّ سے ہو) پابندی سے لکھیں تاکہ مہینے کے اختتام پر معلوم ہوجائے کہ پورے مہینے میں ہم نے کون کون سے اخراجات کئے اور آئندہ مہینے کے لئے ہمیں کن مدّات میں اخراجات کم کرنے پر توجہ دینی چاہیئے، یہ سلسلہ تادمِ تحریر جاری ہے۔

ہمارے معاشرے میں عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ روپے پیسے کا سارا کنٹرول مرد کے ہاتھ میں ہونا چاہیئے اور روزمرہ خرچ کی رقم بھی شوہر ہی کو بیوی کے ہاتھ پر رکھنی چاہیئے۔ اس کے برعکس بیوی سے روزانہ جیب خرچ کے پیسے لینے والے مرد کو ہمارے یہاں زن مرید اور اسی قسم کے نہ جانے کیسے کیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ بیوی سے جیب خرچ لینے کو مرد کی انا کو مسئلہ بنادیا جاتا ہے اور گھروں میں اس بات پر شدید نوعیت کے جھگڑے ہوجاتے ہیں لیکن اگر شوہر میرے جیسا ’’الل بچھیرا‘‘ ہو تو اسے کم از کم اپنی اس خرابی کا اعتراف ضرور کرنا چاہیئے۔

زندگی میں اعتدال کے لئے جہاں یہ ضروری ہے کہ شوہر اور بیوی کو ایک گاڑی کے دو پہیئے سمجھا جائے وہیں یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ خانگی ذمہ داریوں کا تعین دونوں باہمی مشورے اور افہام و تفہیم سے کریں، چاہے ان کا تعلق امورِ خانہ داری سے ہو یا پھر گھریلو معاشیات سے۔ ایسا کرنے سے کوئی بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا بلکہ اس مشاورت سے گھر کے معاملات ہی بہتر ہوتے ہیں۔

6 سال پر مُحیط اپنے اس تجربے کی روشنی میں میرا تو تمام تنخواہ دار دوستوں کو یہی مشورہ ہوگا کہ ایک بار ماہانہ گھریلو بجٹ بنانے اور بیوی سے جیب خرچ لینے کا معمول بنا کر دیکھیں، تب ہی انہیں اس کا فائدہ صحیح معنوں میں معلوم ہوگا۔

کیا آپ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اخراجات کو قابو کرنے کے لیے بیوی سے خرچہ لینا چاہیے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
علیم احمد

علیم احمد

بلاگر 1987ء سے سائنسی صحافت کررہے ہیں، ماہنامہ گلوبل سائنس سے پہلے وہ سائنس میگزین اور سائنس ڈائجسٹ کے مدیر رہ چکے ہیں، ریڈیو پاکستان سے سائنس کا ہفت روزہ پروگرام کرتے رہے ہیں۔ آپ ورلڈ کانفرنس آف سائنس جرنلسٹس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے پہلے صحافی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔