شدت پسندی جب دہشت گردی کا روپ دھارتی ہے

سید عاصم محمود  اتوار 26 فروری 2017
سانپ کچلنے کی خاطر شدت پسندی کے عفریت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ فوٹو : فائل

سانپ کچلنے کی خاطر شدت پسندی کے عفریت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ فوٹو : فائل

12 فروری کو پاک فوج کے سربراہ، جنرل قمر جاوید باجوہ نے فاٹا کا دورہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ آپریشن ضرب عضب نے شدت پسندوں کی کمر توڑ دی ہے تاہم اگلے ہی ہفتے جنگجوؤں نے پے در پے کارروائیاں کرکے ثابت کردیا کہ ابھی شدت پسندی کا سانپ مرا نہیں۔ پانچ دن میں انھوں نے چاروں پاکستانی صوبوں میں سکیورٹی فورسز، ججوں، میڈیا اور عوام بشمول خواتین اور بچوں کو حملوں کا نشانہ بنایا۔

سانپ کچلنے کی خاطر شدت پسندی کے عفریت کو سمجھنا بہت ضروری ہے جس کے تانے بانے اب ریاستی دہشت گردی سے جاملے ہیں۔ اس کا سہارا لے کر خصوصاً پاکستان پہ پراکسی یا خفیہ جنگ تھوپی جا چکی۔شدت پسندی کی تاریخ جان لینے کے بعد پاکستانی حکومت اور عوام کے لیے آسان ہو گا کہ وہ مل کر اس سانپ کو کچل سکیں جس نے وطن عزیز ہی نہیں پورے عالم اسلام میں جنگ و جدل اور قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔یہ تاریخ ڈرامائی اور پُراسرار ہے۔

ماضی پر نظر
دور جدید کے عالم اسلام میں شدت پسندی نے دوسری جنگ عظیم کے بعد جنم لیا جب مغربی استعماری طاقتوں کے چنگل سے کئی اسلامی ممالک آزاد ہوئے۔ جلد ہی بعض اسلامی ملکوں کے حکمران مغربی (امریکی) سرمایہ دارانہ بلاک یا سویت سوشلسٹ بلاک کا حصّہ بن گئے۔

دورِ غلامی میں استعماری قوتوں سے نبردآزما رہنے والے طبقے خصوصاً بعض علما نے حکمرانوں کو مغربی یا سویت حکمرانوں سے دوستی کی پینگیں بڑھاتے دیکھا تو طیش میں آگئے۔ انہیں محسوس ہوا کہ اپنے مفادات کی خاطر بیرونی طاقتوں کا آلہ کار بن کر یہ غدار حکمران عالم اسلام میں مغربی تہذیب وتمدن پروان چڑھا رہے ہیں۔ مصر ان اولین اسلامی ممالک میں شامل ہے جہاں بعض علما نے حکومتوں اور مغرب پرست مسلمانوں پر حملے جائز قرار دے دیئے۔

شکری مصطفی مصر کی مشہور سماجی و اصلاحی تنظیم، اخوان المسلمون کے کارکن تھے۔ 1965ء میں حکومت نے تنظیم کے پمفلٹ تقسیم کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرلیا۔ شکری پھر چھ سال جیل میں رہے۔ دوران قید انہوں نے مصری عالم دین، محمد قطب کی کتب کا مطالعہ کیا۔ ان کتب میں محمد قطب نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ مصری معاشرہ اب شریعت پر عمل پیر ا نہیں لہٰذا وہ دوبارہ دور جاہلیت میں داخل ہوچکا۔

اس نظریے سے شکری مصطفی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ دور جاہلیت میں داخل ہونے کی وجہ سے بیشتر مسلمان مرتد ہوچکے۔ لہٰذا جو مصری شریعت پر عمل نہیں کرتا، اس کا قتل جائز ہے۔ شکری نے پھر اپنی مرتد حکومت ختم کرنے کے لیے ایک تنظیم ’’جماعت المسلمین‘‘ کی بنیاد رکھی۔ یہ تنظیم اپنے شدت پسندانہ نظریات کی وجہ سے ’’تکفیر والھجرہ‘‘ بھی کہلاتی ہے۔حکومت مخالف سرگرمیاں انجام دینے پر1977ء میں شکری اور دیگر کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔

مارچ 1978ء میں شکری سمیت تنظیم کے چار لیڈروں کو پھانسی دے دی گئی۔ ایمن الظواہری بھی اسی تنظیم کا حصہ تھے جو فرار ہوکر افغانستان پہنچے اور پھر اسامہ بن لادن کے دست راست بن گئے۔مصری علماء کے فتاویٰ کی وجہ سے مصر میں نوجوانوں کی مزید شدت پسند تنظیمیں وجود میں آئیں جو سرکاری افراد، اداروں اور تنصیبات پر حملے کرنے لگیں۔ انہوں نے آخر کار 1981ء میں مصری صدر، انورسادات کو قتل کردیا۔

مصری شدت پسند اپنے نظریات سے اتفاق نہ کرنے والے مسلمانوں کو بھی واجب القتل سمجھتے ۔ یوں وہ جدید دور کے خارجی یا تکفیری کہلائے ۔ جب مصری حکومت نے شدت پسندوں پر کریک ڈاؤن کیا، تو بہت سے افغانستان چلے آئے جہاں افغان مجاہدین سویت حملہ آور فوج کے خلاف جہاد کررہے تھے۔ مصری شدت پسند بھی اس جہاد کا حصہ بن گئے۔

عالم اسلام کے تقریباً سبھی ممالک سے کئی پُر جوش مسلم نوجوانوں نے افغانستان کا رخ کیا تاکہ افغان بھائیوں کی مدد کرسکیں۔ ان میں امیر سعودی خاندان کے چشم و چراغ، اسامہ بن لادن بھی شامل تھے۔ کئی شدت پسند رہنما ان کے ساتھی بن گئے۔تاہم اس وقت شدت پسندوں کا نشانہ وہ استعماری قوتیں تھیں جنہوں نے مسلم علاقوں پر قبضہ کررکھا تھا۔ چناں چہ ان قوتوں کو شکست دینے کی خاطر 1988ء میں ایک جنگجو تنظیم ’’القاعدہ‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔

یہ تنظیم مقبوضہ کشمیر، فلسطین، چیچنیا اور فلپائنی جزائر کو آزاد کرانا چاہتی تھی۔امریکی سرمائے اور اسلحے کے بل بوتے پر افغان اور عرب مجاہدین نے سوویت فوج کو شکست دے دی۔ مگر بعدازاں افغان گروپوں میں خانہ جنگی اور اقتدار کی جنگ شروع ہوگئی۔ اس جنگ نے افغان نسلوں اور فرقوں کے مابین موجود فرقہ وارانہ، نسلی اور لسانی اختلافات اجاگر کردیئے۔ تب تک پڑوسی پاکستان کا معاشرہ بھی اسی قسم کے اختلافات کا نشانہ بن کر قتل و غارت میں مبتلا ہوچکا تھا۔

پاکستان میں فرقہ وارانہ اختلافات پہلے سے موجودتھے مگر ان کے باعث تشدد و فساد کی نوبت کم ہی آتی ۔ انہوں نے شدت 1978ء کے بعد اختیار کی جب جنرل ضیاء الحق نے مذہبی قوانین متعارف کرائے۔ ایک فرقے نے چند قانون قبول کرنے سے انکار کردیا اور اپنی فقہ رائج کرنے کا مطالبہ کیا۔ تب تک ایران میں اسلامی انقلاب جنم لے چکا تھا۔ نئے ایرانی حکمران عالم اسلام میں راج کرتے بادشاہوں اور آمروں کے خلاف سخت تقریریں کرنے لگے۔

مشرق وسطیٰ میں شاہی خاندانوں کی حکومت تھی لہٰذا انہیں ایرانی حکمرانوں سے خطرہ محسوس ہوا۔ بعض مورخین دعویٰ کرتے ہیں کہ ان حکمرانوں نے پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں مخصوص مدارس کو فرقہ وارانہ تسلط قائم کرنے کے لیے بھاری امداد دی۔

جیسے ہی فرقہ وارانہ بنیادوں پر تسلط قائم کرنے کی کوشش شروع ہوئی۔ اِس کا ردعمل لازمی بات تھی، نتیجہ یہ ہوا کہ فرقہ وارانہ قتل و غارت گری شروع ہوگئی۔ اب انتقام کی آگ بھڑک اٹھی اور متحارب فرقوں کے لوگوں نے اپنی اپنی مسلح تنظیمیں قائم کرلیں۔حد یہ ہے کہ ایسی باتیں بھی سامنے آئیں کہ اپنے فرقے کے لوگوں کو بھی نشانہ بنایا گیا تاکہ دوسرے فرقے پر حملے کا جواز پیدا ہو سکے۔

1980ء میں خلیجی ممالک کی شہ پر عراقی حکمران، صدام حسین نے ایران پر حملہ کردیا۔ مقصد یہ تھا کہ ایرانی حکومت کو عسکری و معاشی طور پر کمزور کیا جا سکے۔ اس آٹھ سالہ جنگ میں دونوں ممالک کے لاکھوں فوجی اور شہری مارے گئے جبکہ اربوں ڈالر جنگ کی بھٹی کی نذر ہوئے۔

صدام حسین سویت بلاک سے تعلق رکھتا تھا مگر ایران کا مخالف ہونے کی وجہ سے امریکا بھی اسے خفیہ طور پر اسلحہ اور سرمایہ فراہم کرتا رہا۔جب 1988ء میں جنگ ختم ہوئی، تو عراق قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا تھا۔خاص طور پر اسے کویت کے 14 ارب ڈالر ادا کرنے تھے۔ جب کویتی حکومت نے قرضے کی واپسی کا مطالبہ کیا، تو صدام حسین نے عراق ایران جنگ ختم ہونے کے صرف دو سال بعد کویت پر دھاوا بولا اور اس پر قبضہ کرکے اسے اپنی مملکت کا انیسواں صوبہ بنادیا۔

پڑوس میں عراقی فوج کی موجودگی سعودی حکومت کو کھٹکنے لگی۔ عراقی فوج ایک جست میں تیل سے بھرے سعودی کنوؤں پر قبضہ کرسکتی تھی۔ سعودی فوج کے پاس جدید اسلحہ تو تھا مگر نفری کم تھی۔ لہٰذا سعودی حکومت مدد کے واسطے اِدھر اُدھر نگاہیں دوڑانے لگی۔ اس زمانے میں اسامہ بن لادن واپس سعودی عرب آچکے تھے۔ انہوں نے سعودی حکومت کو پیش کش کی کہ القاعدہ کے مجاہدین سعودی فوج کے شانہ بشانہ عراقی فوج سے مقابلہ کریں گے۔ تاہم اسامہ کی پیش کش رد کردی گئی۔

جلد ہی سعودی حکومت کی مددکے لیے امریکی فوج آپہنچی اور کویت کو آزاد کرانے کے لیے جنگی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ جب غیر مسلم فوج نے جزیرہ عرب نما میں قدم دھرے، تو اسامہ بن لادن کو شدید تاؤ آگیا۔ انہیں محسوس ہوا کہ سعودی حکومت نے سرزمین حرمین شریفین کا تقدس پامال کردیا۔ چناں چہ انہوں نے حکومت کوشدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ سعودی حکومت نے اسامہ کو نکال باہر کیا اور وہ سوڈان میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے لگے۔ یہ 1992ء کی بات ہے۔

نائن الیون کا تاریخی واقعہ
1992ء ہی میں القاعدہ نے یمن میں مقیم امریکی فوجیوں پر پہلا حملہ کیا جو ناکام رہا۔ امریکی فوجی تو صحیح سالم رہے، البتہ ایک یمنی مسلمان مارا گیا۔یہ پہلا موقع تھا جس نے افشا کیا کہ القاعدہ کے نظریاتی و مذہبی رہنما امریکا اور مغرب سے جنگ کے دوران مسلمانوں اور غیر مسلم شہریوں کی ہلاکت کو بھی جائز قراردے چکے ہیں۔ القاعدہ اور خصوصاً امریکا کے مابین طویل جنگ چھڑگئی۔اس جنگ کا نقطہ عروج ’’واقعہ نائن الیون‘‘ ہے جب القاعدہ کے کارکن امریکی طاقت و عظمت کے استعارے، ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو تباہ کرنے میں کامیاب رہے۔

حقیقتاً 11 ستمبر  2001ء کا واقعہ انقلاب انگیز ثابت ہوا تاہم اس کے متعلق تین مختلف آرا رائج ہیں۔ عام مسلمانوں کی رائے ہے کہ القاعدہ نے امریکی استعمار کو چیلنج کرکے عظیم کارنامہ انجام دیا۔ دوسری رائے یہ کہ واقعہ گیارہ ستمبر میں شہریوں کا قتل کرکے القاعدہ نے آزادی کی تحریکوں کو دہشت گردی کے مماثل بنادیا۔ تیسری رائے یہ کہ یہ حملہ اسرائیل اور امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں، موساد اور سی آئی اے نے مل کر انجام دیا تاکہ نہ صرف مسلم مجاہدین کو دہشت گرد ثابت کیا جائے بلکہ دین اسلام بھی دنیا بھر میں جنگجوئی کا مترادف بن کررہ جائے۔

واقعہ گیارہ ستمبر کے بعد امریکا نے افغانستان اور عراق پر حملہ کردیا۔ تب القاعدہ کے بہت سے جنگجو پاکستانی سرحدی علاقوں میں چلے آئے۔ ان علاقوں میں آباد پشتون قبائل نے انہیں پناہ دی۔ القاعدہ اور افغان طالبان کے لیڈروں نے پاکستانی سرحدی علاقوں میں ٹھکانے بنائے اور افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج پر شب خون مارنے لگے۔امریکا نے پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنے سرحدی علاقوں میں القاعدہ کے ٹھکانوں کا صفایا کردے۔ چناں چہ 2002ء میں پاک فوج پہلی بار فاٹا اور دیگر سرحدی علاقوں میں داخل ہوگئی۔ وہاں آباد بعض قبائل نے نہ صرف اسے اپنی خودمختاری پر حملہ سمجھا بلکہ وہ جنگجوؤں کو اپنا مہمان بھی سمجھتے تھے۔ چناں چہ وہ بھی شدت پسندوں کے ساتھ پاکستانی سکیورٹی فورسز سے نبرد آزما ہوگئے۔

2003ء میں جنرل مشرف کی حکومت نے ان تنظیموں کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا جو مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے بھارتی سکیورٹی فورسز سے نبرد آزما تھیں۔ اس ’’یوٹرن‘‘ سے تنظیموں کے کئی لیڈروں اور کارکنوں کو سخت صدمہ پہنچا۔ ان میں سے اکثر بعدازاں پاکستانی حکومت کے مخالف بن گئے۔

یوں القاعدہ کے ملکی و غیر ملکی جنگجو، قبائلی اور مقامی فرقہ وارانہ تنظیموں کے گوریلے پاکستانی حکومت سے جنگ کرنے لگے۔یہ مختلف الخیال گروہوں اور متفرق علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا اکٹھ تھا جنھیں بعض نکات نے یکجا کردیا۔ اول نکتہ یہ کہ غیر اسلامی پاکستانی حکومت کا خاتمہ کرکے پاکستان میں اسلامی حکومت قائم کی جائے۔ دوم اقلیتی فرقوں کی نسل کشی تاکہ دنیا سے ان کا نام و نشان مٹایا جاسکے۔ ان تنظیموں کے لیڈروں کی اکثریت مذہبی لحاظ سے شدت پسند تھی۔ اعتدال پسند لیڈر خال خال تھے۔

2007ء میں انہی لیڈروں نے تحریک طالبان پاکستان نامی تنظیم کی بنیاد رکھی تاکہ سبھی ہم خیال تنظیمیں ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔انھوں نے پھر اپنے ہی ہم مذہبوں اور ہم وطنوں کو بے دردی اورشقاوت سے قتل کرناشعار بنا لیا۔درحقیقت مسلم دشمن قوتوں سے زیادہ اپنوں پر ہی حملے کرنا عالم اسلام میں جدید شدت پسندوں کا وتیرہ بن چکا۔اسی لیے بعض مسلم دانشور انھیں مغربی استعمار کا ایجنٹ سمجھتے ہیں۔

غیروں کی سازشیں
یاد رہے، عالم اسلام میں مغرب سے تصادم کی رو نے سب سے پہلے جنم لیا جب رومیوں کے خلاف 9 ہجری (630ء) میں غزوہ تبوک انجام پایا۔ بعدازاں اسلامی فرقوں میں اختلافات پیدا ہوگئے اور مختلف ادوار میں سیاسی یا مذہبی خانہ جنگیوں نے امت مسلمہ کو خاصا نقصان پہنچایا۔ جب پندرہویں اور سولہویں صدی میں دنیا پر تین اسلامی سپرپاورز… عثمانی، صفوی اور مغلیہ کا راج تھا تو تیسری رو سامنے آئی۔یہ تیسری رو غیر مسلم طاقتوں کی پیداوار ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کے بھیس میں اپنے ایجنٹ عالم اسلام بھیجے اور انہیں یہ ذمے داری سونپی کہ وہ اسلامی فرقوں اور حکومتوں کے مابین موجود مذہبی، سیاسی اور معاشی اختلافات کی چنگاریوں کو ہوا دیں تاکہ وہ بھڑک کر شعلے بن جائیں۔ مدعا یہ تھا کہ عالم اسلام میں اتحاد و یک جہتی جنم نہ لے اور مسلمان منتشر ہوکر کمزور ہوجائیں۔

سولہویں صدی کے اواخر سے مغربی استعماری طاقتوں نے عالم اسلام پر دھاوا بول دیا۔ ان طاقتوں میں انگریز سب سے زیادہ چالاک و ہوشیار تھے۔ مثلاً ہندوستان میں قدم جمانے کی خاطر انہوں نے ’’مقامی آبادی کوآپس میں لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کو رواج دیا۔ مزید براں وہ مقامی افراد میں غدار بھی ڈھونڈنے میں کامیاب رہے۔ نواب سراج الدولہ کا سپہ سالار، میر جعفر انگریزوں کے ہاتھوں بک گیا۔ اُدھر نظام حیدر آباد انگریزوں کے ساتھ مل کر سلطان ٹیپو پر حملے کرتا رہا۔

جنگ ِآزادی1857ء کے موقع پر کئی مسلمان راجوں،سرداروں اور جاگیر داروں نے انگریزوں کو نفری اور سرمایہ فراہم کیا اور بدلے میں اعزازات اور زمینیں پائیں۔روپے پیسے اور جاہ وحشمت کی خاطر ملک وقوم سے غداری کا یہ شرمناک سلسلہ دوسری جنگ عظیم تک جاری رہا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد خصوصاً امریکا، اسرائیل اور بھارت اپنی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے اسلامی ممالک میں مذہبی و سیاسی اختلافات کی آگ بھڑکانے لگے۔ یہ تینوں طاقتیں وسائل سے مالا مال عالم اسلام کو انتشار کا شکار دیکھنا چاہتی ہیں۔انھیں بخوبی علم ہے کہ اسلامی ممالک کا اتحاد وجود میں آیا تو امت مسلمہ دنیا کی ایک عظیم قوت بن سکتی ہے۔ متذکرہ بالا تینوں طاقتیں ہی نہیں تقریباً تمام غیر مسلم ممالک عالم اسلام کو یکجا طاقت کے روپ میں نہیں دیکھنا چاہتے کہ یوں دنیا پر ان کی معاشی، تہذیبی،ثقافتی اور سیاسی حکمرانی کا دور ختم ہوسکتا ہے۔

بھارت نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مشرقی پاکستان میں وفاق کے خلاف زہر پھیلایا اور بنگالی عوام کو باغی بنادیا۔ یہ بغاوت منظم کرنے کی خاطر 1968ء میں خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ را نے پاکستان توڑنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یہی نہیں، تب سے را پاکستان میں علیحدگی پسندوں اور ملک دشمن عناصر کی مدد کررہی ہے۔را کا ایک طریقہ واردات یہ ہے کہ اس کے ایجنٹ پاکستانی مسلمانوں کا روپ دھار کر پاکستان کی گلیوں، بازاروں اور محفلوں میں نفرت انگیز گفتگو کر کے پاکستانی قوم کو اپنے ملک سے متنفر کرتے اور معاشرے میں انتشار پھیلاتے ہیں۔

افغان جہاد کے دوران را نے روسی اور کمیونسٹ افغان حکومت کی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ مل کر پاکستان میں کئی بم دھماکے بھی کرائے جن میں سیکڑوں پاکستانیوں نے جام شہادت نوش کیا۔جب 1990ء کے بعد مقبوضہ کشمیر میں مسلح تحریک آزادی شروع ہوئی، تو اسے ناکام بنانے کی خاطر بھی را نے اہم کردار ادا کیا۔ اس نے مختلف کشمیری تنظیموں میں اپنے ایجنٹ و جاسوس چھوڑ دیئے۔ ان ایجنٹوں نے اپنی شاطرانہ سرگرمیوں سے جہادی کشمیری تنظیموں کے قائدین میں پھوٹ ڈلوا دی۔ چناں چہ ان کے مابین یک جہتی نہ ہونے سے تحریک آزادی کشمیر کو شدید نقصان پہنچا اور وہ کشمیری عوام سے کٹ کر رہ گئی۔ اس تحریک کو کئی سال بعد برہان الدین وانی اور دیگر دلیر کشمیری نوجوانوں نے اپنا لہو بہا کر زندہ کیا۔

پاکستان نشانے پر!
2002ء میں امریکا نے جب افغانستان پر قبضہ کیا اور اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کردی، تو بھارتی بھی وہاں جاپہنچے۔ بظاہر بھارتی افغانستان میں ترقیاتی منصوبے شروع کرنا چاہتے تھے مگر ان کا اصل مقصد پاکستان کی مغربی سرحد کے ساتھ قدم جمانا تھا۔ لہٰذا جوں ہی بھارتی افغانستان میں جم کر بیٹھ گئے، انہوں نے مختلف مقامات پر تربیتی کیمپ قائم کرلیے۔ ان کیمپوں میں علیحدگی پسند اور مذہبی عسکریت پسند تنظیموں کے کارکنوں کو تربیت دے کر مع اسلحہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں داخل کر دیا جاتا تاکہ وہ پاکستانی سکیورٹی فورسز اور سرکاری و نجی املاک پر حملے کرسکیں۔

تحریک طالبان پاکستان کی تشکیل کے بعد راکے ایجنٹ رفتہ رفتہ شدت پسند تنظیموں میں بھی داخل ہوگئے۔ یہ عین ممکن ہے کہ بعض را ایجنٹ اسلامی علوم پر مکمل دسترس رکھتے ہوں۔ ان کا بنیادی مقصد اسلامی احکام و قوانین میں ردوبدل کرکے انہیں ناخواندہ کارکنوں تک پہنچانا ہے۔ مدعا یہ کہ انہیں مذہبی طور پر اتنا شدت پسند بنا دیا جائے کہ وہ اپنے مقصد کی خاطر جان دینے سے بھی خوفزدہ نہ ہوں۔ یہ یقینی ہے کہ را کے ایجنٹوں نے سرمایہ اور اسلحہ فراہم کرکے تحریک طالبان پاکستان کی مختلف تنظیموں میں اثرورسوخ بڑھایا اور آخر کار اس درجے پر پہنچ گئے کہ گروہ کے فیصلوں اور سرگرمیوں پر بھی اثر انداز ہوسکیں۔

بھارت کا حکمران طبقہ اس قدیم جنگی اصول پر یقین رکھتا ہے کہ دشمن کے دشمن کو اپنا دوست سمجھو۔ چناں چہ تمام پاکستان دشمن تنظیموں اور گروہوں کی ہر ممکن مدد کرنا را کا شعار بن چکا۔ جب 2014ء میں جنگجو نریندر مودی بھارتی وزیراعظم منتخب ہوئے تو ان کے دور میں را کی پاکستان دشمن سرگرمیاں اور کارروائیاں عروج پر پہنچ گئیں۔

یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ بھارت کا موجودہ مشیر قومی سلامتی، اجیت دوال نوجوانی میں مسلمان بن کر سات برس پاکستان میں گزار چکا ہے۔ مارچ 2016ء میں پاکستانی سکیورٹی فورسز نے را سے تعلق رکھنے والے ایک اور جعلی مسلمان، کلبھوشن یادو عرف مبارک حسین کو دھرلیا۔ اس نے انکشاف کیا کہ بلوچستان، سندھ اور کراچی کے علیحدگی پسند عناصر کے علاوہ را داعش سے بھی تعاون کررہی ہے تاکہ وہ پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری کی سرگرمیاں انجام دے سکے۔

جب امریکا نے عراق پر دھاوا بولا، تو صدام حسین کی شکست کے بعد وہاں امریکی فوج شیعہ اور سنی تنظیموں سے نبرد آزما ہوگئی۔ ان آزادی پسند تنظیموں سے امریکی فوج نے کئی چھوٹے بڑے معرکے لڑے۔ رفتہ رفتہ شیعہ تنظیموں کی مزاحمت تو دم توڑ گئی، البتہ سنیوں کی سب سے بڑی تنظیم، القاعدہ امریکیوں سے نبردآزما رہی۔ تاہم امریکی سکیورٹی فورسز نے پے در پے حملے کرکے اسے نیم مردہ حالت کو پہنچادیا۔

اس دوران عراق میں ایک نئی صورت حال نے جنم لیا۔سنی قبائل نے دعویٰ کیا کہ عراقی حکومت مخصوص طبقات کو نواز رہی ہے اور انہیں نظر انداز کردیا۔ جب شکایات رفع نہ ہوئیں، تو قبائل احتجاج کرنے لگے۔ القاعدہ اور صدام حسین کی فوج کے سابقہ فوجی افسروں نے اس بغاوت سے فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے قبائل کو ساتھ ملا کر 2013ء میں ایک نئی تنظیم، اسلامی ریاست عراق و شام کی بنیاد رکھ دی جو عرف عام میں ’’داعش‘‘ کہلاتی ہے۔

داعش کے لیڈر قبائل کی مدد سے ایک بڑی فوج تیار کرنے میں کامیاب رہے۔ اس نے اوائل 2014ء میں عراق و شام کے کئی شہروں پر قبضہ کرلیا۔ قائدین داعش تکفیری نظریات رکھتے ہیں اور آنے والے وقت میں اپنے متنازع اقدامات کی وجہ سے نہایت شدت پسند ثابت ہوئے۔ داعش نے یزیدی مذہب کے پیروکاروں پر ظلم و ستم ڈھایا نیز مخالفین کو ایسی خوفناک سزائیں دیں جو ناقابل فہم ہیں۔ حتیٰ کہ امیر القاعدہ، ایمن الظواہری نے بھی داعش سے ناتا توڑنے کا اعلان کردیا۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ امریکا واسرائیل نے اسلحہ و سرمایہ دے کر داعش کو پروان چڑھایا تاکہ مشرق وسطی میں بدامنی وانتشار کے بیج بوئے جا سکیں۔داعش والوں نے پڑوس میں ہونے کے باوجود آج تک اسرائیل پہ ایک بھی حملہ نہیں کیا۔

جنوری 2015ء میں داعش نے پاکستان و افغانستان میں بھی اپنی موجودگی کا اعلان کردیا۔ اس علاقے کو ’’خراسان صوبے‘‘ کا نام دیا گیا۔دیگر اسلامی ممالک کی طرح ’’صوبہ خراسان‘‘ میں بھی داعش، القاعدہ اور مقامی تنظیموں کے مابین اقتدار پانے اور اثرو رسوخ بڑھانے کی جنگ شروع ہوگئی۔ داعش نے دلیل پیش کی کہ افغان طالبان کی ریاست شرعاً ان کی خلافت کے تابع ہے۔ تاہم افغان طالبان نے یہ دلیل قبول کرنے سے انکار کردیا۔ چناں چہ القاعدہ و افغان طالبان مل کرداعش سے نبرد آزما ہوگئے۔ شدت پسندوں کی اس خانہ جنگی میں تحریک طالبان پاکستان کی بعض تنظیمیں داعش سے جاملیں جن میں جماعت الاحرار، لشکر جھنگوی اور لشکر جھنگوی العالمی قابل ذکر ہیں۔ اس خانہ جنگی کی لپیٹ میں آکر سیکڑوں افغان ہلاک ہوچکے۔

کمائی کی کمپنیاں
داعش ، القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان، نائجیریا کی بوکوحرام اور عالم اسلام میں کارفرما دیگر شدت پسند جھوٹی بڑی تنظیمیں اب ’’کمپنی‘‘ کی صورت اختیار کرچکیں۔ ایسی ہر شدت پسند ’’کمپنی‘‘ میں اوپر سے نیچے تک روایتی کمپنیوں کے مانند مختلف طبقات میں تقسیم افسر و کارکن پائے جاتے ہیں۔ افسران بالا احکامات جاری کرتے اور کارکن انہیں بجا لاتے ہیں۔ تجربے و درجے کے حساب سے ہر رکن کمپنی کی تنخواہ مقرر ہے۔یہ شدت پسند تنظیمیں اپنے زیر اثر علاقوں میں ٹیکس لگا کر، اغوا برائے تاوان، منشیات کی اسمگلنگ، اسلحے کی تجارت، جنگلات کی کٹائی اور دیگر قدرتی وسائل بیچ کر کمائی کرتی ہیں۔ بعض تنظیموں مثلاً تحریک طالبان پاکستان کو بھارت اور امریکا سے بھاری امداد ملتی ہے جبکہ افغان حکومت نے انہیں لاجسٹک سہولیات مہیا کررکھی ہیں۔

کمپنی کی شکل اختیار کرلینے کے باعث خصوصاً دیہی اور پہاڑی علاقوں میں شدت پسند تنظیمیں روزگار کا بڑا ذریعہ بن چکیں۔ غریب اور ناخواندہ نوجوانوں کو جب علم ہوتا ہے کہ یہ تنظیمیں ہزاروں روپے تنخواہ دے رہی ہیں، تو وہ برضا و رغبت ان میں جا شامل ہوتے ہیں۔ یہ تنظیمیں پھر معصوم و سادہ لوح نوجوانوں کی برین واشنگ کرکے انہیں خودکش حملہ آور بنادیتی ہیں۔ کسی کو (خودکشی کے غیر اسلامی راستے) سے جنت پہنچنے کی نوید سنائی جاتی ہے، تو دوسرے کو یقین دلایا جاتا ہے کہ اس کے گھر والوں کو بھاری رقم بطور انعام دی جائے گی۔ غرض منہ مانگی تنخواہ دینے کے باعث شدت پسند تنظیموں کو شدید خطرات کے باوجود مسلسل افرادی قوت مہیا رہتی ہے۔

ڈھائی سال قبل شروع ہونے والے پاک فوج کے آپریشن ضرب عضب نے بہرحال تحریک طالبان پاکستان کی تنظیموں پر کاری ضرب لگائی۔ دیہی علاقوں اور شہروں میں ان کے خفیہ و عیاں ٹھکانے تباہ کردیئے گئے۔ چناں چہ بیشتر تنظیموں کے لیڈر اور کارکن فرار ہوکر افغانستان جاپہنچے۔ وہاں بھارت، امریکا اور افغانستان کا ٹرائیکا ان شدت پسندوں کا سرپرست بن گیا اور انھیں ہر ممکن سہولیات دینے لگا تاکہ وہ پاکستان پہ وار کر سکیں۔

دراصل چین اور روس سے پاکستان کی بڑھتی قربت نے امریکا کو تشویش میں مبتلا کردیا۔ امریکا عالم اسلام کی اکلوتی ایٹمی طاقت کو اپنے زیر دام رکھنا چاہتا ہے۔ تاہم اس نے پاکستان کے خلاف خود کوئی قدم نہ اٹھایا بلکہ بھارت کو آگے کردیا۔ یہی وجہ ہے، پچھلے ایک برس سے مودی حکومت کی سرتوڑ کوشش رہی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو یکا و تنہا کردیا جائے تاکہ وہ مجبوراً دوبارہ امریکی کیمپ میں شامل ہوجائے۔

لیکن مودی حکومت کی تمام تر کوششیں بیکار گئیں۔ کئی مواقع پر چین اور روس نے پاکستان کا ساتھ دیا اور مودی حکومت کو منہ کی کھانا پڑی۔ پاکستان عالمی سطح پر تنہا تو کیا ہوتا، مملکت میں بتدریج معاشی استحکام آنے لگا۔ پاکستان سٹاک مارکیٹ بہترین مارکیٹوں میں سے ایک قرار پائی۔ پھر سی پیک کے منصوبے تیزی سے انجام پانے لگے جو پاکستان کو بین الاقوامی گزرگاہ میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ حال ہی میں پاک بحریہ کی بین الاقوامی مشقوں اور پاکستان سپرلیگ کی کامیابی نے بھی مودی حکومت اور اس کے سرپرستوں کو بھونچکا کردیا۔

اس دوران امریکا میں مسلم مخالف جماعت، ریپبلکن پارٹی نے حکومت سنبھال لی۔ اس کا نمائندہ ڈونالڈ ٹرمپ کھل کر مسلمانان عالم کے خلاف کارروائیاں کرنے لگا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے مودی حکومت کو بھی ہری جھنڈی دکھادی تاکہ پاکستان کے خلاف نئی پراکسی جنگ شروع کی جاسکے۔ چناں چہ بھارت اور افغانستان نے خصوصاً جماعت الاحرار کو کثیر سرمایہ اور اسلحہ فراہم کردیا تاکہ وہ پاکستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کا نیا سلسلہ شروع کرسکے۔یہی وجہ ہے ،حالیہ خود کش حملوں کے بعد پاک فوج نے سب سے پہلے افغانستان میں جماعت الاحرار کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔

پاکستان دشمن ریاستوں کی بھر پور کوشش ہے، مختلف الخیال پاکستانی و غیر ملکی تنظیموں کے مابین نیا اتحاد بناکرایک پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے۔ مدعا یہ ہے کہ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ بے چینی اور انتشار پھیلایا جائے تاکہ چینی اور پاکستانی انجینئر سی پیک کے منصوبے مکمل نہ کرسکیں۔ نیز پاکستان معاشی، سیاسی اور معاشرتی طور پر مستحکم نہ ہونے پائے۔یہی وجہ ہے، جماعت الاحرار کے اعلان کردہ ’’آپریشن غازی‘‘ کا نشانہ پورا پاکستان ہے اور وہ تمام پاکستانی جو اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں۔

یہ وقت کی ضرورت ہے کہ شدت پسندوں اور پاکستان دشمن طاقتوں کے چیلوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام پاکستانی باہمی اختلافات بھلا کر ایک ہوجائیں۔ فوج اور پاکستانی عوام یکجا ہوکر ہی ان ملک دشمنوں کو شکست دے سکتے ہیں جو خاکم بدہن پاکستان کو ایک ناکام و کمزور ریاست بنتا دیکھنا چاہتے ہیں۔

جہاد یا اقتدار کی جنگ؟
اسلامی ممالک خصوصاً پاکستان میں جب شدت پسند تنظیموں نے فلاحی اسلامی مملکت کا خیال پیش کیا، تو اسے عوام میں خاصی پذیرائی ملی۔وجہ یہ کہ پاکستان سمیت اکثر اسلامی ملکوں میں قانون کی حکمرانی کمزور ہے اور عام آدمی کو انصاف آسانی سے میسّر نہیں آتا۔ اسی لیے جب شدت پسندوں نے انصاف کی فوری فراہمی کا اعلان کیا تو عوام الناس میں انہیں سراہا گیا۔ تاہم شدت پسندوں نے جب بھی حکومت سنبھالی، تو وہ حکمرانی کا موثر ماڈل پیش کرنے میں ناکام رہے۔ افغانستان میں طالبان برسراقتدار آئے، تو انہوں نے داعش کی طرح سزائوں کے نفاذ میں اپنی بیشتر قوتیں صرف کردیں۔

طالبان نے معیشت کی ترقی اور عوام کی بھلائی کے لیے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے پر بہت کم توجہ دی۔ سوات میں بھی پاکستانی طالبان نے کنٹرول سنبھالا تو ان کا سارا زور سزائوں کے نفاذ پر رہا۔ اس روش نے مقامی آبادی کو خوفزدہ کردیا اور سوات میں خوف کے ماحول نے جنم لیا۔

ان شدت پسندوں نے الٹا دین اسلام کو یوں نقصان پہنچایا کہ جہاد کو جنگجوئی کا نام دے دیا۔ چناں چہ عالمی میڈیا کے پروپیگنڈے کی بدولت جہاد اب دہشت گردی اور خون ریزی کا مترادف بن چکا۔ مگر شدت پسندوں کے لیے جہاد کا نظریہ بنیادی ہتھیار کی حیثیت رکھتا ہے۔جہاد کے لغوی معنی جدوجہد اور سخت محنت و کوشش کرنے کے ہیں۔شرعی معنی یہ کہ انسانیت کی بھلائی اور حق کے پھیلائو کی خاطر ایسی مادی، اخلاقی اور روحانی جدوجہد جو پُر امن اور تعمیری ہو۔ اس جدوجہد کے دوران جب جنگ انسان پر مسلط کردی جائے، تب اسے دفاع میں لڑنے کا حق حاصل ہے۔ اس لڑائی کی اجازت تو بین الاقوامی قانون نے بھی دے رکھی ہے۔

عالم اسلام میں یقیناً ایسے شدت پسند بھی گزرے ہیں جو اقتدار پاکر واقعتاً اسلامی فلاحی حکومت کا قیام چاہتے تھے۔ لیکن موجودہ حالات سے عیاں ہے کہ بیشتر شدت پسند جہاد کی آڑ لے کر ذاتی مفادات کی تکمیل چاہتے ہیں۔ کسی کو ہوس ملک گیری لاحق ہے، تو کوئی مال و دولت سمیٹنا چاہتا ہے۔ کوئی جہاد کو ’’مقدس جنگ‘‘ قرار دے کر حکمرانی پانے کا متمنی ہے۔یہ واضح رہے کہ قرآن کریم میں جنگ کے لیے ’’حرب‘‘ (البقرہ، المائدہ، الانفال، محمد) اور ’’قتال‘‘ (التوبہ، البقرہ، النساء) کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ جبکہ جہاد کو انسان کی اخلاقی و روحانی جدوجہد (العنکبوت۔ 69)، علم و شعور کے پھیلائو میں جدوجہد (الفرقان۔52)، دانش ورانہ جدوجہد (لقمان۔15 اور العنکبوت۔8) اور روحانی و اخلاقی ترقی (العنکبوت۔6) سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ گویا قرآن پاک کی رو سے جہاد اور جنگ متبادل الفاظ ’’نہیں‘‘ ہیں۔

لیکن شدت پسند قرآن و حدیث کے الفاظ و اصلاحات ’’ہائی جیک‘‘ کرلیتے ہیں تاکہ اپنے مخصوص مفادات پورے کرسکیں۔ وہ انہیں سیاق و سباق سے الگ کر کے پیش کرتے اور فقہی دلائل کا تڑکا بھی لگادیتے ہیں۔ عام لوگ خصوصاً نوجوان لاعلمی کی بنا پر خود ساختہ دلائل کو درست سمجھتے اور شدت پسندوں کے اشاروں پر ناچنے لگتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ اسوہ حسنہﷺ کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری حیات مبارکہ میں دفاعی یا مدافعانہ جنگیں لڑیں، آپؐ نے کسی دشمن پر بھی حملہ کرنے میں پہل نہیں فرمائی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔