عرفان کیوں کھیل رہا ہے؟

سلیم خالق  ہفتہ 25 فروری 2017
ملکی کرکٹ سے کرپشن ختم کرنے کیلیے آپریشن کلین اپ ضروری ہو چکا ۔ فوٹو: فائل

ملکی کرکٹ سے کرپشن ختم کرنے کیلیے آپریشن کلین اپ ضروری ہو چکا ۔ فوٹو: فائل

’’پکا فکسڈ میچ تھا،2 اوورز میں 7 رنز درکار اور 7 وکٹیں باقی ہوں مگر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز جیسی ٹیم نہ بنا سکے، میں نہیں مان سکتا‘‘
غصے سے آگ بگولہ ایک نوجوان کے منہ سے یہ آگ برساتے الفاظ سن کر میں اس کی جانب متوجہ ہوا تو ایسے میں ایک اور شخص تیز آواز میں کہنے لگا ’’ لاہور قلندرز کون سا پیچھے ہے، بتاؤ ایک رن پر 5 وکٹیں تو ہمارے ٹیپ بال کے میچ پر بھی نہیں گرتی ہیں‘‘
وہ دونوں چند دیگر افراد کے ساتھ اس کیفے میں بڑی اسکرین پر میچ دیکھ رہے تھے، اسلام آباد یونائٹیڈ کی ناقابل یقین فتح انھیں ہضم نہیں ہو رہی تھی، میں بھی اپنے ایک دوست کے ساتھ وہاں گیا تھا، جب میں نے کہا کہ ’’بھائی کرکٹ بائی چانس ہوتا ہے، یہ سب چیزیں کھیل میں چلتی رہتی ہیں، کوئی ٹیم جان بوجھ کر نہیں ہارتی‘‘ یہ سن کر ایک جانب سے آواز آئی ’’ اب آپ کہیں گے کہ لندن میں اسپاٹ فکسنگ کیس پاکستان کیخلاف سازش تھی، ہمارے کھلاڑی بیچارے معصوم تھے، شرجیل خان اور خالد لطیف کیخلاف دشمن ملک کی خفیہ ایجنسی نے جال بنا، چھوڑیں جناب ہم بھی کرکٹر ہیں چاہیں گلی کے ہی سہی ہمیں بھی کرکٹ کے بارے میں پتا ہے‘‘ ایسے میں میرے دوست نے آہستہ سے مجھے کہا کہ یہاں حالات بحث کرنے کیلیے مناسب نہیں، چھوڑو چائے پیو اور واپس چلو۔
اس پر میں خاموش ہو گیا، مگر ذہن میں یہی بات آئی کہ ایک اچھے کیفے میں پڑھے لکھے لوگ جب ایسی باتیں کر رہے ہیں تو دیگر کی کیا رائے ہو گی، چند دن قبل کی ہی بات ہے جب دبئی کرکٹ اسٹیڈیم میں افتتاحی تقریب سے لطف اندوز ہوتے ہوئے میں ایک ساتھی صحافی سے کہہ رہا تھا کہ شکر ہے اب ہماری لیگ بھی مستحکم ہونے لگی، آئی پی ایل میں پاکستانی کھلاڑیوں کو نہیں بلایا جا رہا تو کوئی بات نہیں، اب ہمارے پاس بھی پی ایس ایل ہے،مگر افسوس چند گھنٹے بعد ہی جب اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل سامنے آیا تو ساری خوشی اڑن چھو ہو گئی، پی سی بی نے سخت ایکشن لیتے ہوئے شرجیل خان اور خالد لطیف کو واپس بھیج کر درست کیا ، اس وقت تو دونوں رو رہے تھے مگر وطن واپس جاتے ہی ٹریک بدل دیا، اب معصومیت کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے، یہ درست ہے کہ بورڈ کے پاس دونوں کیخلاف ٹھوس ثبوت ہیں مگر اعلیٰ حکام چاہتے ہیں کہ ایسا پکا کام کریں کہ وہ عدالت جائیں تو بھی انھیں فائدہ نہ ہو، مگر جتنی تاخیر ہو گی اس کا پی سی بی کو ہی نقصان ہو گا، جلدی یہ کیس نمٹا دینا چاہیے۔
اسی کے ساتھ ایک بڑی غلطی محمد عرفان کو بدستور کھیلتے رہنے کی اجازت دینا ہے، ان کیخلاف بھی چارج شیٹ بنائی جا چکی مگر بورڈ نیا پینڈورا باکس نہیں کھولنا چاہتا اس لیے انتظار کیا جا رہا ہے، چیئرمین شہریارخان نے ایک روز قبل ہی اعتراف کیا کہ ’’ عرفان کیخلاف تحقیقات جاری ہیں، اس نے بکیز کی پیشکش قبول نہ کی مگر اینٹی کرپشن یونٹ کو بتایا نہیں‘‘ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی ایس ایل اینٹی کرپشن کوڈ کے تحت تو اگر کوئی پلیئر مشکوک سرگرمی کی رپورٹ نہ کرے تو اسے 6 ماہ سے تاحیات پابندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جب عرفان نے اعتراف کر لیا تو وہ کیوں ایونٹ میں شریک ہیں، انھیں کیوں واپس نہ بھیجا گیا؟ زیرو ٹولیرنس کہاں گئی؟ شاید اسی بات نے شرجیل خان اور خالد لطیف کو ہمت دی کہ وہ اپنے اعتراف جرم سے مکر گئے، ظاہر ہے اس کیس میں صرف دو کرکٹرز ملوث نہیں ہو سکتے، دیگرکون ہیں، انھیں سامنے کیوں نہیں لایا جا رہا؟ دونوں ملوث کھلاڑی یہ دیکھ کر جل کُڑ نہیں رہے ہوں گے کہ ہم پھنس گئے مگر دوسرے تو کھیل رہے ہیں، بورڈ کو سب کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہیے، اس کیس میں جس پر بھی شک ہے اسے فوراً واپس بھیجیں، پی ایس ایل سے پاکستانی کرکٹ کا مستقبل وابستہ ہے، اسے کسی بھی قیمت پر صاف و شفاف رکھنا ہو گا، حالیہ واقعات سے شائقین کا بھروسہ کم ہوا ہے اسی لیے ہر میچ پر شکوک ظاہر کیے جاتے ہیں، یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے، اسی طرح پی ایس ایل میں ناقص امپائرنگ کی بھی تحقیقات کریں، کیا واقعی غلط فیصلے اتفاق ہیں؟ یہ معلوم کرنا ضروری ہے۔
ملکی کرکٹ سے کرپشن ختم کرنے کیلیے آپریشن کلین اپ ضروری ہو چکا، بورڈ میں جتنے مشکوک ماضی والے افراد ہیں انھیں بھی باہر کر کے صاف ستھرے بے داغ لوگ سامنے لائیں، سزا یافتہ کرکٹرز کو نشان عبرت بنا کر ٹیم میں دوبارہ آنے کا سوچنے بھی نہ دیں، اس سے نئے پلیئرز کو سبق ملے گا اور وہ کوئی غلط کام کرتے ہوئے سو بار سوچیں گے، ابھی ہم نے ماضی میں فکسنگ سے ملک کو بدنام کرنے والوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا ہوا ہے کوئی کوچنگ، کوئی کمنٹری تو کوئی کچھ اور کام کر رہا ہے، لوگ اب بھی ان کے ساتھ تصاویر بنوا کر فخر محسوس کرتے ہیں، عامر کے چاہنے والے ان کیخلاف لکھنے پر مجھے نفرت بھری ای میلز بھیجتے ہیں مگر ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ کوئی ملک کو بیچ کر دوبارہ ملک کی نمائندگی کا موقع پائے تو کیا یہ درست ہے؟ نجم سیٹھی نے بڑی محنت سے پی ایس ایل کو برانڈ بنایا اب انھیں اپنی محنت پر دوسروں کو پانی نہیں پھیرنے دینا چاہیے، چیئرمین شہریارخان ایماندار شخص ہیں، مجھے امید ہے وہ بھی کرپٹ کرکٹرز کو نہیں بخشیں گے۔
آخر میں ایک وفاقی وزیر صاحب کے بیان کا کچھ ذکر کر دوں، انھوں نے فکسنگ معاملے کو معمولی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ پلیئر نے جان بوجھ کر دو گیندیں روک لیں تو کون سی انسانیت کی توہین ہو گئی، انھیں سخت سزا نہ دی جائے‘‘ میں ان سے یہی کہنا چاہوں گا کہ اس سے انسانیت نہیں مگر ملک کی توہین ہوئی ہے جو کسی محب الوطن شخص کو برداشت نہیں، وزرا برائے مہربانی اپنے’’ پاناما لیکس‘‘ وغیرہ کی فکر کریں تو زیادہ مناسب ہو گا،ہم نے اگر کرکٹ کا بھی سیاست جیسا حال کیا اور پلیئرز کو کرپشن کی عادت ہو گئی تو جو ملک کا حال ہے ویسا ہی کھیل کا بھی ہوجائے گا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔