خواتین کے اغوا کے مجرموں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے

ایڈیٹوریل  ہفتہ 25 فروری 2017
۔  فوٹو؛ فائل

۔ فوٹو؛ فائل

انسانوں کو غلام بنانے کی روش ویسے تو قبل از تاریخ کے قصوں اور روایات میں بھی ملتی ہے بالخصوص جب حملہ آور کسی علاقے کو فتح کرنے کے بعد وہاں کے مردوں کو غلام اور عورتوں کو کنیزیں بنا لیتے تھے، اب اگرچہ وہ دور نہیں لیکن اس کے باوجود اب بھی پرانے دور کی اس قبیح روایت کی مثالیں کہیں نہ کہیں نظر آتی رہتی ہیں۔

تازہ خبروں کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے راولپنڈی اسلام آباد میں عورتوں کی اسمگلنگ اور جنسی غلامی میں دینے کے واقعات کا از خود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پولیس پنجاب اور آئی جی پولیس اسلام آباد سے 3 روز میں رپورٹ طلب کر لی ہے، جناب چیف جسٹس نے یہ ازخود نوٹس ذرایع ابلاغ میں شایع ہونے والی ایک خبر پر لیا جس میں راولپنڈی کی 3 بچوں کی ماں چالیس سالہ خاتون کے حالات بتائے گئے جو مختلف ہاتھوں میں فروخت ہوتی ہوئی افغانستان جا پہنچی اور پھر اغواء کاروں نے اس کی واپسی کے لیے 3 لاکھ روپے طلب کر لیے لیکن راولپنڈی پولیس مقدمہ درج کرنے کے باوجود تاخیری حربے استعمال کرتی رہی اور عذر یہ پیش کیا کہ وہ اس حوالے سے کچھ نہیں کر سکتی۔

خبر میں بتایا گیا کہ ڈیڑھ سو سے زائد افراد پر مشتمل ایک منظم گینگ ان شرمناک وارداتوں میں ملوث ہے جو پاکستانی خواتین کو اغوا کر کے جعلی نکاح ناموں کے ذریعے افغانستان میں فروخت کرتا ہے اور ان کو جنسی غلامی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس گینگ کے ارکان غریب خاندانوں کی نوجوان لڑکیوں کو ورغلاتے ہیں اور پرکشش رقم کی پیشکش کرتے ہیں اور جب والدین اس پر راضی ہو جاتے ہیں تو وہ انھیں افغانستان یا ملک کے دوسرے حصے میں بیچ دیتے ہیں۔

یہ گینگ افغان لڑکیوں کو پاکستان لا کر بھی فروخت کر چکا ہے، ان خواتین کو دیہی علاقوں میں جعلی نکاح ناموں کی بنیاد پر فروخت کیا گیا اور نکاح خواں بھی ملوث ہیں جو ایک نکاح نامے کا 5 ہزار روپے وصول کرتے ہیں۔ اس گینگ میں خیبر پختونخوا کے ضلع کی ایک معمر خاتون بھی شامل ہے۔ خواتین خواہ کسی بھی ملک یا معاشرے کی ہوں، انھیں لالچ، دھوکہ دہی یا دھونس دھاندلی سے اغوا کرنا اور پھر ان کا جنسی استحصال کرنا اور فروخت کر دینا انتہائی گھناؤنا جرم ہے۔

دہشتگردی اور انتہاپسندی نے ملک کے انتظامی ڈھانچے اور معاشرتی اقدار کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ملک میں لاکھوں کی تعداد میں بسنے والے غیر ملکیوں نے انتہائی قبیح جرائم کو ہوا دی ہے خصوصاً پاک افغان سرحد سے بلاروک ٹوک آمد ورفت اور سرحد کے دونوں اطراف قبائلی علاقوں میں ریاستی رٹ نہ ہونے کے باعث دہشتگردوں، اغواکاروں اور خرکاروں کو کھل کھیلنے کے مواقع میسر ہیں۔

سپریم کورٹ نے جس کیس کا از خود نوٹس لیا ہے یہ ہمارے کمزور انتظامی ڈھانچے، معاشرتی بگاڑ اور جرائم پیشہ افراد کی جرأت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پاکستان کی حکومت کو جہاں دہشتگردوں کی بیخ کنی کرنی ہے وہاں خواتین کی تجارت کرنے والوں، منشیات فروشوں، اغوا برائے تاوان کے مجرموں کا بھی خاتمہ کرنا ہے اور اس حوالے سے مقامی باشندوں اور غیرملکیوں کے درمیان گٹھ جوڑ کو توڑنا ہو گا اور ایسے جرائم میں ملوث افراد سے دہشتگردوں جیسا سلوک کرنا ہو گا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔