دما دم مست قلندر

زاہدہ حنا  اتوار 26 فروری 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

ہم لوگ ڈھابے کے سامنے پیڑ کے نیچے کھڑی کھاٹ پر بیٹھے ہیں۔ سامنے کئی تندور ایک ساتھ دہک رہے ہیں، کسی میں نان لگ رہے ہیں اور کسی پر جہازی سائز کے توے اور کڑھاؤ چڑھے ہوئے ہیں، پراٹھے تلے جارہے ہیں، ایک بڑے دیگچے میں چائے پک رہی ہے۔

لوگوں کا ایک ریلا ہے جو ہمارے سامنے سے گزر رہا ہے۔ بوڑھے، بچے، مرد اور عورتیں رنگ برنگ لباس میں، کوئی سواتی کرتا پہنے ہوئے ہے، کسی کے سر پر اون کی بنی ہوئی سفید چترالی ٹوپی ہے جس میں مور کا چھوٹا سا پر اپنی بہار دکھا رہا ہے۔ مختلف ٹیلی وژن چینلوں والے اپنے کیمرے اٹھائے ادھر سے ادھر پھر رہے ہیں اور پاکستانی زبانوں کے ادیبوں اور شاعروں سے انٹرویو لے رہے ہیں۔

کل 21 فروری ہے، 18 برس پہلے یونیسکو نے 21 فروری کو ماں بولی کا عالمی سطح پر دن منانے کا اعلان کیا تھا اور اب تقریباً ساری دنیا میں یہ دن منایا جاتا ہے۔ ہم بھی اسے مناتے ہیں اور بیشتر نہیں جانتے کہ یہ 21 فروری 1952ء تھا جب پاکستانی بنگالیوں نے اردو کے ساتھ ساتھ اپنی ماں بولی بنگلہ کو پاکستان کی قومی زبان تسلیم کیے جانے کی آواز بلند کی تھی، احتجاجی جلوس نکلا تھا، اس روز ڈھاکا یونیورسٹی میدان جنگ بنی۔

بنگلہ بولنے والے پولیس والوں نے اپنے ہی نوجوانوں پر آنسو گیس کے گولے پھینکے، نوجوانوں کا جوش پھر بھی کم نہ ہوا تو سیدھا نشانہ لے کر فائر کھول دیا اور چار بنگالی نوجوان سلام، برکت، رفیق اور جبار ڈھاکے کی سرزمین پر اپنا خون چھڑک گئے۔ اسی المناک سانحے کی یاد میں 1999ء سے یونیسکو کی طرف سے ساری دنیا میں ماں بولی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ڈھاکا کے ’شہیدِ مینار‘ کی ایک شبیہہ بنائی گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی زمین کا ایک پتھریلا گولہ بھی بنا ہوا ہے جس پر بنگلہ اور انگریزی میں لکھا ہے ’ہم 21 فروری کے شہیدوں کو یاد رکھیں گے‘۔

چند برس پہلے کا مجھے وہ جوشیلا جلوس یاد آ رہا ہے جو نعرے لگاتا ہوا ڈھاکا کی سڑکوں پر چل رہا تھا، میں بھی اس کا حصہ تھی، پھر ہم نے شہیدِ مینار پر پھول چڑھائے تھے اور یہی سوچتے رہے تھے کہ اگر ہمارے لوگوں نے انصاف اور دیانت سے کام لیا ہوتا اور بنگالی جن کے اکثریتی ووٹوں سے پاکستان بنا تھا، ان کا جائز حق تسلیم کیا گیا ہوتا تو آج ہم ایک ساتھ ہوتے۔ میرا اس بارے میں نقطہ نظر یہ ہے کہ مغربی پاکستان کے حکمرانوں کو اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ مشرقی پاکستان اگر مغربی پاکستان کے ساتھ رہا تو آنے والے دنوں میں آمریت کے محل تعمیر نہیں ہو سکیں گے۔

21 فروری 1952ء کو اب 65 برس گزر چکے ہیں، کتنی ہی برساتیں آئیں اور گزر گئیں لیکن خون کے دھبے نہیں دھلے ہیں۔ کسی کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ اس وقت بائیں بازو کے کچھ اردو ادیب، شاعر اور طلبہ بھی تھے جو بنگلہ زبان کی تحریک میں شامل تھے۔ ان کے نام بھی لوگوں کو یاد نہیں۔ 1952ء میں پھینکے جانے والے آنسو گیس کے گولوں کا دھواں میری آنکھوں میں چبھ رہا ہے اور آنکھیں ڈبڈبا رہی ہیں۔

میں اپنا دھیان بٹانے کو ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر پروگرامز خورشید احمد ملک سے باتیں کرنے لگتی ہوں جو اس بات پر مُصر ہیں کہ دوپہر کے کھانے پر وہ میری میزبانی کریں گے۔ میں انھیں بتاتی ہوں کہ میری فلائٹ میں کچھ ہی دیر رہ گئی ہے اور مجھے ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہونا ہے۔ وہ اپنے ساتھی کو اشارہ کرتے ہیں اور وہ لپک کر حلیم کی ایک پلیٹ لے آتے ہیں جو گرم اور چٹپٹی ہے۔

ان کی اور سب ہی لوگوں کی خاطرداریاں دل کو ملول کرتی ہیں۔ مجھے ڈھیروں ڈھیر کتابیں ملی ہیں جو میرے برابر میں رکھی ہیں۔ یہ پنجابی کی معروف ادیب پروین ملک کا مجموعہ ’’کیہہ جاناں میں کون‘‘ ہے، جسے ہمارے بڑے لکھاری احمد ندیم قاسمی، امین مغل، شفقت تنویر مرزا، فرخندہ لودھی اور کنول مشتاق نے اپنے اپنے ڈھنگ سے داد دی ہے۔ میں لوک ورثہ کے بک اسٹال پر کھڑی تھی تو سعید احمد مل گئے تھے، وہ لوک کہانیوں اور صوفی شاعروں پر کتابیں لکھتے ہیں، چھاپتے ہیں اور اپنی بساط بھر انھیں پھیلاتے ہیں۔ وہ شکاری، کبوتر، باز اور سانپ نامی مختصر کتاب مجھے عنایت کرتے ہیں۔ یہ انھوں نے بچوں کے لیے لکھی ہے۔

’’سیف الملوک‘‘ کے خالق حضرت میاں محمد بخش (1830-1907ء) کی یہ کہانی انھوں نے بچوں کے لیے آسان زبان میں لکھی ہے۔ ان کی لکھی ہوئی متعدد مختصر کہانیاں دور نزدیک تک صوفیا کا پیغام پھیلاتی ہیں۔ کلثوم زیب پشاور سے آئی ہیں، محبت سے چھلکتی ہوئی شاعری کا مجموعہ ’’لمسِ حیات‘‘ انھوں نے مجھے بائیں بازو کے حوالے سے ’’کامریڈ‘‘ کہہ کر دیا ہے۔ اسی طرح کوئٹہ سے آئے ہوئے عابد میر ہیں جو نیکی کرتے ہیں اورکنویں میں ڈالتے ہیں یعنی ’’مہرور‘‘ کے زیر اہتمام براہوی، بلوچی، سندھی اور اردو کی کتابیں اور ترجمے شایع کرتے ہیں، دل کش کہانیاں لکھتے ہیں، چار افسانوی مجموعے شایع ہو چکے ہیں۔

ڈاکٹر شاہ محمد مری ان کے مرشد ہیں۔ ان سے کوئٹہ میں بھی ملاقات ہو چکی ہے۔ اس مرتبہ غلام دستگیر صابر کا براہوی ناول ’’ماہ گل‘‘ لے کر آئے ہیں جس کا ترجمہ سمیر بلوچ نے کیا ہے۔ ایک اداس کر دینے والا ناول جس میں انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی بھی ہے اور عشق کا فسانہ بھی۔ دل کش زبان میں سمیر بلوچ نے براہوی کا حسن برقرار رکھا ہے۔ عابد میر نے آٹھ دس برس کے عرصے میں تیزی سے ابھرنے والی بلوچ افسانہ نگار امرت مراد کی کہانیوں کا مجموعہ ’’گیلا کاغذ‘‘ شایع کیا۔

امرت موجود رہتیں تو یقیناً بہت نام کماتیں لیکن کینسر نے ان پر چھاپہ مارا اور وہ کہانیاں لکھتے لکھتے رخصت ہوئیں۔ سانجھ پبلشرز کی طرف سے ایک افسانوی مجموعہ ’’دھارے‘‘ مجھے ملا۔ یہ اس حوالے سے نئی جہت رکھتا ہے کہ اس میں پانچ دوستوں محمد عثمان عالم، ابن مسافر، طیب عزیز ناسک، شاہنواز اور فاطمہ عثمان کی کہانیاں ہیں۔ عموماً ایک ہی موضوع پر ان دوستوں کی کہانیاں ہیں جو انھوں نے اپنے اپنے انداز میں لکھیں۔ یوں کہہ لیجیے کہ ایک نیا تجربہ محمد عثمان عالم اور جواد حسنین بشر نے کیا۔

پناہ بلوچ نے بلوچستان کے ایک دور دراز اور دشوار گزار علاقے ’’لاہوت لامکاں‘‘ کا سفرنامہ لکھا ہے جسے ’’لوک ورثہ اشاعت گھر‘‘ نے شایع کیا ہے۔ پناہ بلوچ نے اس سفر کے ایک ایک مرحلے اور ایک ایک منزل کو ڈوب کر لکھا ہے، اسے پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ’’سوا پاؤ فقیری‘‘ کیا ہے اور پوری فقیری کیوں کر حاصل ہوتی ہے۔ ’’لاہوتی‘‘ کا لقب کسے ملتا ہے اور کچھ لوگ سارا سال اس سفر میں رہتے ہیں۔ لعل شہباز قلندر کے عرس کے خاتمے پر ہزاروں معتقدین شاہ بلاول نورانی کے راستے لاہوت تک کا سفر طے کرتے ہیں۔

چند دنوں پہلے قلندر کے مزار پر ہونے والے خودکش دھماکے نے سب ہی کو نومبر 2016 ء میں شاہ بلاول نورانی کی درگاہ پر کیے جانے والے خودکش دھماکے کی یاد دلادی، جہاں 60 سے زیادہ دھمال کرتے ہوئے زائرین شہید ہوئے تھے۔ ماں بولیوں کا میلہ شروع ہونے سے ایک دن پہلے قلندر کی درگاہ پر ہونے والا خودکش حملہ 90 بے گناہ انسانوں کو اپنے ساتھ لے گیا جو آسمان سے لو لگائے سرمستی اور سر شاری کے عالم میں دھمال ڈال رہے تھے۔ قلندر کی درگاہ کا فرش انسانوں کے خون سے لالوں لال ہوگیا تھا۔

ایسا غیر انسانی کام کرنیوالوں کا خیال تھا کہ قلندر کے چاہنے والے خوفزدہ ہو جائیں گے اور اپنے پیر توڑ کر بیٹھ رہیں گے لیکن چند گھنٹوں بعد ہی نقارے پر چوٹ پڑی اور دھمال کرنیوالوں کا ہجوم بیقراری سے دھمال ڈالنے لگا۔ گدڑی پہننے والے فاقہ مست انسانوں کے پیر نہیں تھمتے کہ یہ ان کی شریعت تھی لیکن اسلام آباد میں جب مادری زبانوں کا میلہ شروع ہوا تو سوگ میں رقص و موسیقی کے پروگرام منسوخ کر دیے گئے۔

ایسے میں نصرت زہرہ اور نیاز ندیم نے لعل شہباز قلندر کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لیے گلاب آفریدی کو دعوت دی۔ وہ اپنے رباب کے ساتھ اسٹیج پر آئے اور ان کے رباب کے تاروں سے موسیقی کا جھرنا پھوٹ بہا۔ دمادم مست قلندر، علی دم دم دے اندر، لوگوں کو حال آ رہا تھا۔ ایسے میں ہمارے نہایت معتبر اور موقر شاعر علی محمد فرشی خود کو روک نہ سکے۔ وہ اپنی نشست سے اٹھے اور انھوں نے بہتے پانی کی روانی جیسے انداز میں دھمال ڈالنا شروع کیا۔ وہ آب دیدہ تھے اور ان کی بیقراری دوسروں کی آنکھیں بھی نمناک کر رہی تھی۔

محمد علی فرشی کا یہ عالم میلے کے پہلے دن کی پہلی نشست میں ہوا۔ میں اسے اختتام پر اس لیے بیان کر رہی ہوں کہ ان کی شاعری اردو نظم کا اگلا پڑاؤ ہے۔ انھوں نے اپنا تازہ مجموعہ ’’محبت سے خالی دنوں میں‘‘ مجھے عنایت کیا۔ وہ مبہوت کر دینے والی نظمیں لکھتے ہیں۔ اور اب جب کہ مجھے اپنی بات ختم کرنی ہے سلطانہ وقاصی، نسرین الطاف، جامی چانڈیو اور دوسرے دوست یاد آ رہے ہیں اور فوزیہ سعید، نصرت مرزا اور ثروت زہرا۔ پاکستان کی ماں بولیوں کے درمیان ایک نہایت مشکل سفر ان لوگوں نے کس سہولت سے طے کیا۔ نیت نیک ہو تو کڑے کوس آسانی سے طے ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں ایک آواز دور سے آتی ہے۔ دمادم مست قلندر۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔