ریٹائرمنٹ اور موت

حمید احمد سیٹھی  اتوار 26 فروری 2017
h.sethi@hotmail.com

[email protected]

معروف سرجن ڈاکٹر عبدالاحد ایف آر سی ایس ہزارہا مریضوں کے جسموں سے پرانے اعضا نکال کر نئے ڈال کر انھیں قدموں پر چلانے اور اپنی دوسری مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہونے کے بعد ایک محفل میں بیٹھے ’’ریٹائرمنٹ اور موت‘‘ کے موضوع پر بات کر چکے تو میں نے کہا کہ میں اس پر اپنے آئندہ کالم میں اظہار خیال کروں گا۔ موصوف اس سے اگلے روز میری طرف آئے اور اپنا لیٹر ہیڈ میری طرف بڑھاتے ہوئے بولے کہ میں نے ریٹائرمنٹ اور موت پر یہ مضمون لکھا ہے اسی کو چھپوا لو۔ ان کی خواہش اور احترام میں ان کا مضمون بصورت کالم پڑھیے۔

ڈاکٹر صاحب نے ایڈنبرا سے FRCS کرنے کے بعد دو سال برطانیہ میں ملازمت کی اس کے بعد لاہور جنرل اسپتال میں چیف ایگزیکٹو و پروفیسر پھر USDM یونیورسٹی میں سرجری کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ رہے۔ وہ ایک بار ساٹھ سال اور دوسری بار ستر سال کی عمر میں ریٹائر ہوئے اور ابھی چاک و چوبند ہیں۔

’’یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب سے بنی نوع انسان نے اس کرۂ ارض پر قدم رنجہ فرمایا ہے اسے ایک بات کا یقین دلا دیا گیا ہے کہ یہ زندگی عارضی ہے اور موت یقینی ہے اور موت کا ایک دن مقرر ہے۔ موت کا ایک دن معین ہونے کے لاتعداد شواہد موجود ہیں۔ سب سے مستند یہ کہ کوئی بھی انسان چاہتے ہوئے بھی دوسری مرتبہ نہیں مر سکتا ماسوائے دل کے معاملات ہیں جس میں وہ کئی بار بلکہ بار بار مر سکتا ہے۔

البتہ جب کوئی انسان مر جاتا ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ دیکھیے صاحب موت کا ایک دن مقرر تھا لہٰذا وہ صاحب انتقال فرما گئے۔ بالکل درست اور ناقابل تردید، اس میں بحث کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔ انسان ایک ہی مرتبہ مر سکتا ہے۔ دوبارہ چاہے بھی تو نہیں مر سکتا۔

اب ذرا ریٹائرمنٹ پر غور کیجیے۔ جب سے ہم سرکاری ملازمت میں آئے تو ہمیں یہ یقین بھی راسخ کروا دیا گیا کہ موت کی طرح ریٹائرمنٹ کا بھی ایک دن مقرر ہے۔ یعنی جیسے ہی آپ 60 سال کی عمر کو پہنچے آپ ریٹائر کر دیے جائیں گے۔ لہٰذا اس عمر کو پہنچنے تک آپ کے لیے بوڑھا ہونا لازمی قرار پایا۔ پچپن (55) سال کی عمر کے بعد نظر میں دھندلاہٹ، کمر کا قدرے جھک جانا، ہاتھوں میں ہلکا سا ارتعاش اور قدموں میں لڑکھڑاہٹ اس بات کی دلیل سمجھا گیا کہ آپ ریٹائرمنٹ کے قریب آتے جا رہے ہیں۔ لہٰذا نوکری کے بقیہ ماندہ ماہ و سال ریٹائرمنٹ کی تیاری میں گزار دیں اور سادہ لوح انسان ایسا ہی سمجھتے رہے۔

ماسوائے چند صاحب کمال لوگوں کے جنھوں نے دانستہ یا نادانستہ طور اپنا یوم پیدائش بھول جانے میں میں عافیت سمجھی یا پھر سیکریٹریٹ میں صاحب اختیار حضرات یا کلرک بادشاہ اور اگر بہت ہی صاحب کمال ہوئے تو صاحب اقتدار سے روابط استوار کر کے ملی بھگت کے ساتھ باقاعدہ ریٹائرمنٹ کو ایک یا دو سال کے لیے بذریعہ سرکاری نوٹیفکیشن مؤخر کروا لیا یعنی Extension حاصل کر لی۔ بعض حضرات نے تو قانون سے بھی کھلواڑ کر دیا۔ اپنے Birth Certificate کو ہی چیلنج کر دیا اور قانوناً دو یا تین سال بعد پیدا ہونے کی سند حاصل کر لی اور یوں ریٹائرمنٹ مؤخر ہو گئی۔

یہاں تک تو بات آسانی سے سمجھ آ جاتی تھی لیکن اب ایک مؤثر ذریعہ بھی دریافت ہو چکا ہے جس کے ظہور پذیر ہونے کے بعد ’’ریٹائرمنٹ کا ایک دن مقرر‘‘ والی اصطلاح قصۂ ماضی ہو چکی ہے۔

اس کا اطلاق صحت کے شعبہ میں سب سے پہلے ہوا جب حکومت وقت نے صحت کے شعبہ کو Privitisation کے عمل سے گزارا۔ اس سے قبل ایک ڈاکٹر یا پروفیسر دوسرے سرکاری ملازمین کی طرح ساٹھ (60) کی عمر کو پہنچتے ہی ریٹائر کر دیا جاتا تھا۔ لیکن جب سے پرائیویٹ میڈیکل کالجز کھلے ہیں وہی صاحب مزید دس سال (10) کے لیے کارآمد قرار پائے اور اب پرائیویٹ ادارے سے وہ ستر (70) سال کی عمر میں ریٹائر ہوتے ہیں اور انھیں دس سال کے لیے (Lese of Life) مل گئی۔ لہٰذا وہ ریٹائرمنٹ کا ایک دن مقرر والی اصطلاح قصہ پارینہ ہو گئی۔

اب سرکاری ملازمت میں پروفیسری کا لیبل پانے والے حضرات اپنی خواہش کے مطابق دو مرتبہ ریٹائر ہو سکتے ہیں۔ پہلی مرتبہ ساٹھ (60) سال کی عمر میں سرکاری نوکری سے اور پھر ستر (70) سال کی حد کو بھی مزید طول دیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ اپنے اندر انتظامی صلاحیتیں اجاگر کر لیں تو انتظامی عہدہ پر مثلاً پرنسپل یا Dean وغیرہ لگ جائیں تو ستر (70) سال کی حد بھی ختم کر دی جاتی ہے۔ حالانکہ اب انھیں اس عمر میں سنائی بھی کم دیتا ہے اور دیکھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ ویسے تو دنیا میں بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں کئی معروف سائنسدان مثلاً STEVENHAWKINGS جو وہیل چیئر تک محدود ہیں نے بہت ہی اعلیٰ پایہ کی تحقیق کر کے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں آج تک ایسا کوئی مرد مجاہد پیدا نہیں ہو سکا۔

البتہ ریٹائرمنٹ کے معاملہ میں معاشرتی اور معاشی سائنس نے ترقی کرتے ہوئے ایک نہیں دو یا تین مرتبہ ریٹائر ہونے کے مواقع فراہم کر دیے ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ موت کے معاملہ کو بھی Privitise کر دیا جائے اور وہاں بھی چند سالوں کی مہلت لے لی جائے۔ ایسا ممکن تو ہے۔ اس لیے کہ جدید سائنس سے استفادہ کرتے ہوئے یہ ممکن ہو گیا ہے کہ اگر دل ناتواں ساتھ نہ دے تو دل بدلوا لیجیے۔ گردوں کی تبدیلی تو اب عام ہو چکی بلکہ کاروبار ہی بن گیا۔ دل اور پھیپھڑے اور جگر تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔ انسانی اعضا کی پیوندکاری اور تبدیلی اب ممکن ہے۔ آپ چاہیں تو بہت اعلیٰ قسم کے گھٹنے لگوا سکتے ہیں۔ آنکھوں کے لینز اور مصنوعی دانت تو اب ہر بزرگ کی مجبوری کی سرجری ہے۔

اسی طرح گونگے بہرے بچے بھی گویائی اور سماعت کی نعمتیں پا سکتے ہیں۔

اب اس پرانی اصطلاح کی جگہ کسی نئی اصطلاح کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے اور اگر آپ کسی طور پر سیاست سے لگاؤ رکھتے ہوں یا زندگی میں کسی ’’کامیاب سیاستدان‘‘ کو Oblige کر سکتے ہوں تو یقین کیجیے اس کا اجر زندگی میں بھی مل سکتا ہے اور اجر کی صورت یہاں تک ممکن ہے کہ آپ کی ریٹائرمنٹ اور موت کا دن بھی ایک ہی ہو جائے۔ اسی طرح کہ موت واضح ہونے تک ریٹائر نہ ہوں۔ دونوں ایک ساتھ ایک ٹکٹ میں دو مزے۔ یہ خصوصیت تو صرف صاحب بصیرت (Visionary) حضرات کے لیے ممکن ہے۔ ورنہ عام آدمی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اور وہ حضرات جو بہت زیادہ تجربہ کار ہو جائیں تو انھیں کنٹریکٹ پر غیر معینہ مدت کے لیے ملازمت مل سکتی ہے۔ یعنی Indispensable ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔