طلاق کا دکھ جھیلنے کے لیے قبرستان میں مراقبے کا رجحان

ویب ڈیسک  پير 27 فروری 2017
لیو تائجیائی کے مطابق طلاق کا دکھ موت کی یاد دلاتا ہے اور اب وہ مرنے کے مراقبے کرواکر طلاق شدہ خواتین کا غم دور کرنے میں مدد دے رہی ہیں۔ فوٹو بشکریہ نیٹ ایز ویب سائٹ

لیو تائجیائی کے مطابق طلاق کا دکھ موت کی یاد دلاتا ہے اور اب وہ مرنے کے مراقبے کرواکر طلاق شدہ خواتین کا غم دور کرنے میں مدد دے رہی ہیں۔ فوٹو بشکریہ نیٹ ایز ویب سائٹ

بیجنگ: دنیا کے اکثر ممالک کی طرح چینی خواتین بھی طلاق کے بعد شدید ذہنی اور نفسیاتی صدمےکے شکار ہوجاتی ہیں۔ اب خواتین کا ایک گروہ دُکھ کی اس گھڑی کو جھیلنے کےلیے کچھ وقت قبرستان میں لیٹ کر مراقبہ کرتا ہے تاکہ اسے کچھ ذہنی سکون مل سکے۔

سب سے پہلے یہ طریقہ ایک 30 سالہ خاتون لیو تائجیائی نے شروع کیا اور اب وہ دیگر خواتین کی اسی طرح مدد کررہی ہیں۔ لیو 19 سال کی عمر میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئی تھیں اور دو سال بعد ایک بچے کو جنم دیا تھا ۔ پھر 2015 میں انہیں طلاق ہوگئی اور وہ اتنی زیادہ متاثر ہوئیں کہ اپنا کوئی کاروبار شروع کرنے سے بھی قاصر تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے قبرستان میں جاکر مراقبہ کیا تو ان کی کیفیت کچھ سنبھلی اور اب انہوں نے ایسی ہی خواتین کی مدد شروع کردی ہے جو اپنے ماضی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہیں۔

لیو نے بتایا ’میں سمجھ سکتی ہوں کہ طلاق کے بعد زندگی کس قدر مشکل ہوجاتی ہے اور میں نے علیحدگی کے بعد خودکشی کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اس صدمے میں ہر ایک خود کو موت کے قریب محسوس کرتا ہے اور میں نے بھی قبر میں لیٹ کر موت کا تصور کیا۔ اب میں اپنے طالب علموں کو بھی یہ سبق دیتی ہوں تاکہ وہ ماضی فراموش کرکے نئی زندگی شروع کرسکیں۔‘

مطلقہ خواتین کی نئی تصاویر میں لیو کے ساتھ کئی خواتین کو قبر نما گڑھوں میں پلاسٹک شیٹس کے اوپر لیٹا دیکھا جاسکتا ہے اور وہ آنکھیں بند کرکے اپنے ہاتھ سینے پر باندھے ہوئے ہیں۔ اس پوزیشن میں خواتین کچھ وقت تک گزارتی ہیں اور اپنے تلخ تجربات بھولنے کی کوشش کرتی ہیں۔ تاہم یہ معلوم نہ ہوسکا کہ مراقبہ کتنی دیر جاری رہتا ہے لیکن خواتین نے کہا ہے کہ اس سے وہ نئی زندگی شروع کرسکتی ہیں۔

لیو ہر چند ماہ بعد قبرستان میں مطلقہ خواتین کو لے جاتی ہیں اور مفت میں قبرستانی مراقبہ کرواتی ہیں۔  واضح رہے کہ چین میں موت کا تصور کرنے کا عمل بہت عام ہے۔ اس سےمایوس  لوگوں نے سکون حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے.

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔