- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
- وزارتِ صنعت و پیداوار نے یوریا کھاد درآمد کرنے کی سفارش کردی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ 8 بار کے اولمپک گولڈ میڈلسٹ یوسین بولٹ سفیر نامزد
- کہوٹہ؛ بس میں ڈکیتی کے دوران ڈاکو کی فائرنگ سے سرکاری اہلکار جاں بحق
- نوجوان نسل قوم کا سرمایہ
- اسلام آباد میں روٹی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفکیشن معطل
- کیا رضوان آئرلینڈ کیخلاف سیریز میں اسکواڈ کا حصہ ہوں گے؟ بابر نے بتادیا
- ویمنز کوالیفائر؛ آئی سی سی نے ثنامیر کو ’’برانڈ ایمبیسڈر‘‘ مقرر کردیا
- پی او بی ٹرسٹ عالمی سطح پر ساڑھے 3لاکھ افراد کی بینائی ضائع ہونے سے بچا چکا ہے
- ایف بی آر نے ایک آئی ٹی کمپنی کی ٹیکس ہیرا پھیری کا سراغ لگا لیا
- سیاسی نظریات کی نشان دہی کرنے والا اے آئی الگوردم
- خاتون ڈاکٹرز سے علاج کرانے والی خواتین میں موت کا خطرہ کم ہوتا ہے، تحقیق
- برطانیہ میں ایک فلیٹ اپنے انوکھے ڈیزائن کی وجہ سے وائرل
- فیصل واوڈا نے عدالتی نظام پر اہم سوالات اٹھا دیئے
- پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط 29 اپریل تک ملنے کا امکان
- امریکی اکیڈمی آف نیورولوجی نے پاکستانی پروفیسر کو ایڈووکیٹ آف دی ایئر ایوارڈ سے نواز دیا
چلو تو سارے زمانے کو لے کے چلو
یہ غالباً 1949ء یا 1950ء کی بات ہے، اس زمانے میں ہم سیاست و ادب وغیرہ سے نابلد تھے، اس عمر میں نوجوانوں کا دل پسند موضوع صرف عشق اور محبت ہوتا ہے۔ ہمارے شہر بیدر میں یہ چرچا ہو رہا تھا کہ کوئی لیڈر آ رہا ہے جو تقریر کرے گا۔ اس وقت تک نہ ہم لیڈر قسم کی کسی چیز سے واقف تھے نہ تقریر قسم کی کسی چیز سے۔ بہرحال ہم جلسہ گاہ اس لیے پہنچ گئے کہ جلسہ گاہ ہمارے گھر کے قریب تھی۔ لوگوں کا ایک ہجوم تھا، ہم بھی اس ہجوم میں شامل ہو گئے۔
کوئی نصف گھنٹے بعد ایک سانولا سلونا سا نوجوان کارکنوں کی جھرمٹ میں جلسہ گاہ آیا، ہجوم کامریڈ مخدوم کے نعرے لگانے لگا، اس کے ساتھ انقلاب آوے ہی آوے کے نعرے بھی بلند ہونے لگے۔ اس جلسہ گاہ کے ساتھ ہمارے بڑے بھائی کا ہوٹل تھا، سو ہم ہوٹل کے ساتھ ایک ٹیبل پر کھڑے کامریڈ مخدوم کو دیکھنے لگے۔ مخدوم ایک سیدھا سادہ عام سا نوجوان نظر آ رہا تھا، ان دنوں تلنگانہ تحریک چل رہی تھی اور مخدوم محی الدین اسی حوالے سے بول رہے تھے۔ تقریر تو ہمیں سمجھ میں نہیں آئی، البتہ یہ مصرعہ ہمارے ذہن کو نادانستہ اور غیر شعوری طور پر بیدار کرنے لگا۔
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
بات آئی گئی ہو گئی، پھر ہم پاکستان آ گئے، یہاں آنے کے بعد اتفاقاً ہمارے گھر کے سامنے مرحوم عبدالرزاق میکش کا ایک کچے کمرے پر مشتمل گھر تھا، جس میں رزاق کے ساتھ محمد زبیر بھی رہتے تھے۔ محمد زبیر متحدہ ہندوستان میں سینئر ٹریڈ یونین لیڈر رہے تھے، ان کے ایک کمرے پر مشتمل بنگلے میں حسن ناصر بھی آتے تھے۔ چونکہ رزاق میکش اور زبیر سے ہماری دوستی ہو گئی تھی، سو ان کے ’’گھر‘‘ آنا جانا ہوتا تھا۔
یہیں ہماری ملاقات حسن ناصر سے ہوئی اور ان ہی دوستوں سے مخدوم محی الدین کے بارے میں پتہ چلا کہ مخدوم ہندوستان کے ایک انقلابی رہنما اور انقلابی شاعر ہیں، پھر مخدوم سے ملاقات کی سبیل پیدا ہوئی اور بیدر میں مخدوم کی شاعری آہستہ آہستہ سمجھ میں آنے لگی۔
ہماری جنم بھومی بیدر پہلے تلنگانے کا حصہ تھی، پھر اسے کرناٹک کا حصہ بنا دیا گیا۔ تلنگانہ انقلابیوں کا دیش تھا، پہلے اسے تلگو دیشم کہا جاتا تھا۔ آج ہمیں تلگو دیشم اس لیے یاد آیا کہ اسی سرزمین کی ایک بیٹی کے حوالے سے ایک دلچسپ خبر ہماری نظر سے گزری، اس خبر کے مطابق تلنگانہ راشٹریہ سیمتھی کی ایک رہنما جن کا تعلق ہندو مذہب سے ہے، جن کا نام نامی اجمیرا ریکھا ہے، نے اپنے گھر میں قرآن خوانی کی ایک متبرک محفل سجائی۔
وہیں سائٹ پر موجود تفصیلات کے مطابق تلاوت قرآن مجید کے دوران اجمیرا ریکھا بھی بڑے ادب و احترام کے ساتھ قرآنی آیات سنتی اور دہراتی رہیں۔ اس محفل میں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ طالبات کی ایک بڑی تعداد بھی شریک تھی۔ اجمیرا ریکھا ہشام نائیک نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایاکہ مجھے تلاوت قرآن سننے کا بہت شوق ہے، ایک سوال پر ریکھا نے بتایاکہ مجھے زمانہ طالب علمی سے ہی قرآن کی تلاوت سننے کا شوق رہا ہے، جب میری کسی مسلمان دوست سہیلی کے گھر میں تلاوت قرآن کا اہتمام ہوتا ہے تو میں اس میں ضرور شرکت کرتی ہوں۔
کسی بھی مذہب اور مذہبی سرگرمیوں سے لگاؤ انسان کی پسند کا معاملہ ہے لیکن ہم نے آج اجمیرا ریکھا ہشام نائیک کا ذکر اس وجہ سے کیا کہ اجمیرا ریکھا کی منعقد کردہ محفل قرآن پر کسی اعتدال پسند یا انتہا پسند ہندو تنظیم کی طرف سے کسی قسم کا کوئی اعتراض ہماری نظروں سے گزرا، نہ اجمیرا ریکھا پر کوئی حملہ ہوا۔ یہ محفل پرامن طور پر شروع ہوئی اور پرامن طور پر اختتام پذیر ہوئی، اس حوالے سے مذہبی برداشت اور مذہبی یکجہتی کا جو مظاہرہ کیا گیا وہ قابل تحسین ہے۔
بھارت آج کل جس مذہبی انتہا پسندی کے بہیمانہ دور سے گزر رہا ہے اور ہندو انتہاپسند جس حیوانیت کے مظاہرے کر رہے ہیں، اس کے پس منظر میں اجمیرا ریکھا کی محفل تلاوت کا پرامن طریقے سے منعقد ہونا انتہائی حوصلہ افزا بات ہے۔
ہمارا معاشرہ اور ہماری دنیا جس مذہبی انتہاپسندی کے دلدل میں گردن تک دھنسی ہوئی ہے اس پس منظر میں مذہبی یکجہتی اور برداشت کی خبریں ایک نعمت سے کم نہیں۔ ہم نے پچھلے دنوں ٹیکساس (امریکا) کے حوالے سے ایک حوصلہ افزا خبر کو اپنے کالم کا موضوع بنایا تھا۔ ٹیکساس کے ایک شہر کے یہودیوں نے مسلمانوں کو عبادت کے لیے اپنی عبادت گاہ پیش کی تھی، کیونکہ مسلمانوں کی عبادت گاہ کو ٹرمپ کے متاثرین نے جلا دیا تھا۔
ٹرمپ امریکا کے صدر منتخب ہونے کے بعد جن احمقانہ پالیسیوں پر چل رہے ہیں، ان میں مسلمانوں کے خلاف امریکیوں کے جذبات بھڑکانا بھی شامل ہے اور اسی سیاست کی وجہ سے امریکا کے مختلف شہروں میں مسجدوں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ اسی طرح تارکین وطن کی ترک وطن کے اسباب کو سمجھے بغیر ان کے خلاف نفرت انگیز زبان استعمال کرنا امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک کے صدر کے شایان شان نہیں۔
دنیا تیزی کے ساتھ مذہبی انتہاپسندی کے جس دلدل میں پھنستی جا رہی ہے اور انسان انسان کو مکھیوں، مکوڑوں کی طرح مار رہا ہے، اس تناظر میں ہندوستان کے تلگو دیشم سیمتھی کی اجمیرا ریکھا کا احترام اور ٹیکساس کے یہودیوں کی اپنی عبادت گاہ کو عبادت کے لیے مسلمانوں کو پیش کرنا بلاشبہ حوصلہ افزا اور قابل ستائش ہی نہیں بلکہ قابل فخر کارنامہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندو اور یہودی قوموں میں مذہبی دیوانگی اپنی انتہا پر ہے۔
اسرائیل میں فلسطین اور بھارت میں کشمیر اسی دیوانگی کے شکار ہیں، لیکن اس دیوانگی کے سمندر میں ٹیکساس کے یہودی اور تلنگانہ کی اجمیرا ریکھا وہ جزیرے ہیں جہاں سے نکلنے والی روشنی کی کرنیں انسانوں کے مستقبل سے مایوس لوگوں کو جینے کا حوصلہ بخشتی ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔