کتنا رولا پائے گا

سعید پرویز  پير 27 فروری 2017

ملک خودکش دھماکوں کی زد میں ہے، تواتر سے ہولناک دھماکے ہو رہے ہیں، چاروں صوبے دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں اور پنجاب میں دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں۔ پنجاب کا صدر مقام پاکستان کا دل لاہور پچھلے دس دنوں میں دو مرتبہ دہشت گردی کا شکار ہوا۔ پہلی بار پنجاب اسمبلی کے عین سامنے شہر کی سب سے بڑی سڑک مال روڈ پر خودکش بمبار نے خود کو اڑالیا۔ ڈی آئی جی اور ایس ایس پی سمیت کئی جانیں گئیں، درجنوں زخمی ہوئے، جو اسپتالوں میں زندگی موت کی صورتحال سے دوچار ہیں۔

ابھی یہ حادثہ ہوئے تین چار دن ہی گزرے تھے کہ 23 فروری2017 صبح سوا گیارہ بجے لاہور کے علاقے ڈیفنس میں ایک اور دھماکا ہوگیا۔ آٹھ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور 30 کے قریب زخمی ہیں۔ سہون شریف درگاہ کا حادثہ اس کے علاوہ ہے۔ حضرت لعل شہباز قلندر کے لاکھوں عقیدت مند ہیں۔ مزار اور صاحب مزار بہت بڑی تاریخ رکھتے ہیں، اس حوالے سے اس خودکش دھماکے کی آواز پوری دنیا میں سنی گئی۔

پاکستان کے ہر خاص و عام کا یہ مطالبہ تھا کہ شہر کراچی جیسا ایکشن ضرب عضب پنجاب اور اندرون سندھ میں بھی لیا جائے، مگر حکمران جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ صوبہ پنجاب اور اندرون سندھ دہشت گردوں کے حوالے رکھا گیا۔ دہشت گرد تنظیمیں صوبہ بلوچستان، صوبہ خیبرپختونخوا، کراچی، اسلام آباد میں خودکش حملے کرتی رہیں اور ان کے کرتا دھرتا پنجاب اور اندرون سندھ کے محفوظ ٹھکانوں میں پناہ گزیں رہے۔

22 فروری 2017 کی سہ پہر اچانک پاکستان آرمی کی طرف سے ٹی وی پر بریکنگ نیوز آنا شروع ہوگئی’’لاہور میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی زیرصدارت فوج کے اعلیٰ افسروں کے اجلاس میں یہ فیصلہ کرلیا گیا کہ پورے ملک میں دہشت گردوں کے خلاف شدید ایکشن لیا جائے گا۔ اس مہم کا نام ’’ردالفساد‘‘ رکھا گیا ہے۔‘‘

ابھی اس خبر کو آئے پانچ منٹ ہوئے تھے کہ مرکزی حکومت کے ترجمان خاص اسحاق ڈار ٹی وی اسکرین پر آگئے وہ بھی بریکنگ نیوز دے رہے تھے ’’مرکزی حکومت نے فوج کا بھرپور ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ حکومت نے دہشت گردوں کے مکمل صفائے کے لیے فوج کو تمام ضروری اختیارات دے دیے ہیں۔‘‘

پنجاب کا جنوبی علاقہ عملاً دہشت گردوں کے حوالے رہا۔ ’’چھوٹو گینگ‘‘ کے لشکر والے کھلم کھلا اپنے جدید ترین اسلحے لہراتے ڈبل کیبن گاڑیوں میں آتے جاتے رہے۔ بلوچستان کے ’’مطلوبہ مجرمان‘‘ چھوٹو کی پناہ گاہوں میں مزے سے روپوش رہے۔ چھوٹو کی طرف سے ’’سہولت کاری‘‘ کا یہ کاروبار فاٹا اور افغانستان تک پھیلا رہا۔ وہاں کے ’’مطلوبہ مجرم‘‘ بھی چھوٹو کی راجدھانی میں محفوظ زندگی گزارتے رہے۔

بظاہر یہ چھوٹو حکومتی بڑوں پر حاوی رہا یا کہہ لیں کہ چھوٹو کو حاوی رکھا گیا۔ چھوٹو کے حملے ہوتے رہے، حادثوں میں لوگ مرتے رہے اور موت کا رقص طویل عرصے تک جاری رہا۔ حتیٰ کہ حکومت کو چھوٹو کی ضرورت نہ رہی اور پھر دہشت، ہیبت کی نشانی چھوٹو کا نام و نشان مٹا دیا گیا، مگر چھوٹو ابھی زندہ ہے اور آرام سے ہے۔

جنوبی پنجاب کے ساتھ ہی ہندوستان کا بارڈر ہے۔ اس علاقے میں تمام ممنوع دہشت گرد تنظیموں یہی داعش، طالبان وغیرہ کے لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ مگر حکومتیں خاموش رہیں۔ یہی سناٹا، چشم پوشی، لٹیروں، رسہ گیروں، دہشت گردوں کی مکمل سرپرستی، سندھ حکومت کا بھی وطیرہ رہا۔ ہم ووٹرز، ہم عوام کے نصیب میں سندھ کے ایک ایسے وزیر بھی لکھے ہوئے تھے مگر سب جانتے ہیں کہ ان کے چہیتے فرنٹ مین کو پکڑا گیا تو ’’ان‘‘ کے مسلح لوگ آئے اور تھانے سے اپنے فرنٹ مین کو چھڑا کر لے گئے۔ بڑا ’’رولا ‘‘ پڑا۔ مگر کچھ بھی نہیں ہوا، اور ’’معاملہ رفع دفع ہوگیا‘‘۔ ویسے ’’رولا‘‘ تو پاکستان کے قیام کے تھوڑے ہی عرصے بعد پڑنا شروع ہوگیا تھا، مگر حکمران کان لپیٹے اپنے ’’کام‘‘ میں لگے رہے، بلکہ جتے رہے، اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے رہے ’’کتنا رولا پاؤگے‘‘ PCL والوں نے یہ رولے والا خیال وہیں سے لیا ہے یا پھر میں نے PCL سے لیا ہے۔

بہرحال اب ’’ردالفساد‘‘ شروع ہوگیا ہے۔ دہشت گردوں نے جتنا جانی اور مالی نقصان پہنچانا تھا، شاید اتنا ہی بغیر دل والی ’’سیاست‘‘ کو درکار تھا (وہ کہتے ہیں نا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا) احمد ندیم قاسمی صاحب کا مصرعہ یاد آگیا ’’سرخ پتھر جسے دل کہتی ہے، بے دل دنیا‘‘ ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ’’ردالفساد‘‘ شروع ہوگیا ہے۔ اور پہلے ہی ہلے میں درجنوں دہشت گرد مار دیے گئے ہیں، سیکڑوں گرفتار کرلیے ہیں، بہت سے ٹھکانے بموں سے اڑا دیے گئے ہیں۔ دیکھیں ’’ردالفساد‘‘ کہاں تک پہنچتا ہے۔ ایک تو مشہور دہشت گرد ہیں اور ان کے ٹھکانے ہیں ’’کچھ اور بھی‘‘ دہشت گرد اور ان کے ٹھکانے ہیں۔

میرا کالم بھی رولا ہے، جو میں پا رہا ہوں، بہت سے نیک بندے یہی رولا پاتے پاتے دنیا سے چلے گئے، انھی جیسے اور بھی رولا پاتے پاتے چلے جائیں گے۔ کہتے ہیں کہ ’’یہ جہاں یوں ہی رہے اور ہزاروں بلبلیں اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے‘‘ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں ’’رولا پانے والوں کو رولا پانے میں مزہ آتا ہے‘‘ لہٰذا وہ ’’رولیے‘‘ اگر خود کو اور اپنے بچوں کو بھوکا مارتے ہیں، جیل جاتے ہیں، سڑکوں پر مار کھاتے ہیں تو اپنے مزے کے لیے ایسا کرتے ہیں اور ’’دوسرے لوگ‘‘ جو چپ رہ کے ستم سہتے ہیں، تائید ستم گر کرتے ہیں۔ چلیے میں قتیل شفائی صاحب کا مصرعہ لکھ دیتا ہوں:

تائید ستمگر ہے، چپ رہ کے ستم سہنا

اور اسی تائید ستم گر کی نذر ہم ہوتے رہے اور ہو رہے ہیں۔ ایک واقعہ یاد آگیا۔ ظلمت کو ضیا کہنے پر جنرل ضیا الحق حبیب جالب سے ناراض ہوگئے اور انھوں نے ادیبوں شاعروں کے سجے دربار میں کہا ’’وہ شاعر ادیب جو پاکستان کی اساس کے منکر ہیں ان پر اس وطن کی بہاریں، پھول پھلواری کی مہکاریں حرام ہیں‘‘ تو جالب صاحب نے جنرل صاحب کو تین اشعار لکھ کر جواب دیا تھا:

وہ کہہ رہے ہیں محبت نہیں وطن سے مجھے
سکھا رہے ہیں محبت مشین گن سے مجھے

میں ’’بے شعور ہوں‘‘ کہتا نہیں ستم کو کرم
یہی خطاب ملا ان کی انجمن سے مجھے

سپر جو شہ کی بنے، غاصبوں کے کام آئے
خدا بچائے رکھے ایسے علم و فن سے مجھے

جالب کو اسی میں مزہ آتا تھا اور وہ مزے لیتے لیتے چلا گیا۔ اور میرا ’’رولا‘‘ بھی پورا ہوگیا، میں بھی اجازت چاہتا ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔