دھماکا نہیں، دھمال

حسین مسرت  پير 27 فروری 2017

وہاں کے گلابوں میں ابھی تک خون کی بساند رچی تھی، ماحول سوگوار، کہیں سے سسکیاں، کہیں سے بین، کہیں سے ماتم، کہیں سے سینہ کوبی کی پردرد آوازیں بلند ہو رہی تھیں، ایک کونے میں ایک ادھیڑ عمر عورت رو رہی تھی، سنو! لعل سائیں تم سنتے ہو!

سنو! میرا سوال تو سنو ناں!

دوسری عورت: قلندر میں سب در چھوڑ کے تمہارے در پہ آئی ہوں، کچھ کے خاموش دکھ تھے، جو آنکھوں سے چھلک رہے تھے، کچھ غموں کے بوجھ تلے دبے ہوئے بے سدھ صبح درگاہ کے احاطے میں پڑے ہوئے تھے۔ یہاں تو ہر طرف کربلا کے منظر بکھرے پڑے ہیں۔ ظلم و ستم کے ستائے ہوئے خانماں برباد لوگ، روتے بلکتے ہوئے لوگ، مرد و عورتیں سب کا رخ لعل قلندر کی طرف تھا، دل میں یقین کہ وہ سنتا اور محسوس کرتا ہے۔ کرب و بلا کا انجام ماتم کے سوا اور ہے بھی کیا۔

پھر لبیک یا حسین! اور نقارہ پر لگنے والی چوٹ کے ساتھ ہی قلندر کا مزار جیسے کہ شام کی گلیاں ہوں، کوفے کا بازار ہو۔

لٹے قافلوں کے پاس درد کے سوا بچتا ہی کیا ہے۔ درد یا تو بے بسی کو جنم دیتا ہے یا بغاوت اور انکار کو۔ درد کے قصے اسے سنائے جاتے ہیں جو اس کو محسوس بھی کرے۔ شام اور کوفے کی گلیوں نے جتنے کربلا کے قافلوں کے مناظر دیکھے ہوں گے۔ اتنے ہی مناظر قلندر کی درگاہ پر بھی ہوتے ہیں۔

درد کی ایک انتہا جنوں بھی ہے۔ جنوں کو رقص میں تبدیل کرکے لوگ اپنے اندر کے درد اور الجھنوں سے نجات پا لیتے ہیں۔ بال کھولے بین کرتی ہوئی دھمال ڈالتی ہوئی عورتیں، اندر دبے سارے جذبات، دکھ، تکلیف، درد کو گردشوں میں گم کرتی جاتی ہیں۔ قلندر کی درگاہ جیسے کہ کوئی ٹراما سینٹر ہو جہاں کے ٹھنڈے فرش پر گر کر لوگ اندر کے جلتے دوزخ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

قلندر کی درگاہ مزاحمت، عشق اور جنوں کا مرکز ہے۔ روایت کی زنجیریں یہاں ٹوٹ جاتی ہیں۔

وہ دن بھی کربلا سے کم نہیں تھا جب خودکش بمبار مزار کے احاطے میں داخل ہوا۔ سب ظاہری حدوں کو عبور کرتا ہوا مزار کے سامنے پہنچا۔ عین اس وقت جب قلندر کے دیوانے، عشق کے مستانے، علی کے پروانے، حسین کے فرزانے، زینب کے معتقد، جوق در جوق لعل کے دربار میں دکھوں کی گٹھڑیاں اٹھائے ماتم اور سینہ کوبی میں مدہوش تھے۔

کچھ سوال لے کے آئے تھے، کچھ مرادیں پوری ہونے کی مٹھائیاں بانٹنے آئے تھے۔ کچھ اولاد مانگنے آئے تھے اور کچھ مائیں برسوں بعد جھولی بھرنے کی منتیں پوری کرنے آئی تھیں۔ چند سیکنڈ میں دھماکا کرنے والا پھٹ پڑا۔ لوگ گوشت کے ٹکڑوں میں تبدیل ہوگئے۔ گلاب خون میں رنگ گئے۔ وار لوگوں کے دلوں پر تھا ، یہ حملہ سندھ کی شہ رگ پہ تھا۔ یہ حملہ غریب، بے یار و مددگار لوگوں کے جذبوں پر تھا۔ یہ حملہ سندھ کے صوفی ازم پر تھا۔

سوال تو ہر ذہن میں ابھرتے ہیں۔ سندھ کی سوسائٹی کے لوگ بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ 9 فروری کو سارے سندھ سے ادیب، فلاسفر، شاعر، وکیل، استاد، قلندر کی درگاہ پر جمع ہوئے۔ علامتی دھمال ڈالی گئی۔ جس میں مرد و عورتیں سب شریک ہوئیں۔ یہ عمل بھی انتہا پسندوں پر کسی بم بلاسٹ سے کم نہیں تھا۔

پھر بات کھل کے سامنے آگئی، بہت ساری چیزیں پردے سے باہر آنے لگیں، نقاب کے پیچھے چہرے ظاہر ہونے لگے۔ لعل شہباز کی درگاہ کو دھماکے کے لیے کیوں چنا گیا۔ کیونکہ یہ مرکز ہے ہماری تہذیب اور کلچر کا، یہ مرکز ہے صوفی ازم کا۔ قلندر کی درگاہ پر ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی ہر مذہب ہر ذات ہر فرقے کے لوگ آتے ہیں۔ یہ ایسی جگہ ہے جہاں سارے ندی کے دھارے آکر مل جاتے ہیں اور ہم جانتے ہیںکہ جب لوگ مل کر ایک آواز بنتے ہیں تو طاقت میں تبدیل ہوجاتے ہیں اس جگہ عورتیں بھی بہت بڑی تعداد میں آتی ہیں، بیٹھتی ہیں، دھمال ڈالتی ہیں، دیوانہ وار رقص کرتی ہیں۔

انتہاپسندوں کا اصل نشانہ ایسے ہی عوامی مراکز ہیں جہاں لوگ آزادی سے جمع ہوتے ہیں۔ داعش نے شام میں بھی مزاروں پر حملے کیے تھے۔ عراق میں بھی مزارات کو نشانہ بنایاگیا۔ تاریخی مقامات پر حملے کیے گئے۔ سندھ میں داعش کی موجودگی کی اطلاعات نئی نہیں ہیں۔

سندھ کے وہ اضلاع جہاں مدرسے ہیں اور ان مدرسوں میں بہت سارے مدرسے ایسے ہیں جو دہشت گردی کی تربیت بھی دیتے ہیں وہاں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ دوسرے مدارس سے مختلف ہوتا ہے، گورنمنٹ کی طرف سے ان ساری چیزوں کو چیک نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ آئین کی رو سے تعلیم ریاست کی ذمے داری ہے۔ لیکن ہماری حکومت اس بات کو نظر انداز کر رہی ہے کہ ہماری نئی نسل کی کس طرح برین واشنگ ہو رہی ہے۔ چھوٹے چھوٹے معصوم ذہنوں کو محبت کی جگہ غصہ، نفرت اور دہشت، مار دھاڑ کے سبق پڑھائے جاتے ہیں۔ ان مدارس کو چلانے والے کون ہیں، ان کے فنڈ کہاں سے آتے ہیں، ان کی سرگرمیاں کیا ہیں، ان مدارس میں کس قسم کے لوگوں کا آنا جانا رہتا ہے۔

بہت ساری باتیں عام انسان ضرور سوچتا ہے۔ لیکن حکومتی بے حسی اور نظراندازی پر حیرت ہوتی ہے۔ ایسی کئی رپورٹس میڈیا پر آچکی ہیں جن میں ایسے مدارس کی نشاندہی کی گئی تھی۔ حکومت نے اعلان بھی کیا تھا کہ ایسے مدارس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ لیکن یہ نیٹ ورک بہت مضبوط ہے دہشت گرد ان مدارس کو اپنے محاذ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

موجودہ صورتحال اس لحاظ سے بھی بہت خطرناک ہے کہ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے حادثات اور واقعات کے پیش نظر لوگوں کو عوامی مراکز پر جانے سے روکا جا رہا ہے۔ خاص طور پر عورتیں اس صورتحال سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں ایک انتہا کا رویہ سماج میں پیدا ہو رہا ہے۔

جہاں حادثے ہوتے ہیں، لوگ مرتے ہیں، وہاں بین کرنے کو تو عورتیں ہی بچتی ہیں، سب سے زیادہ افتاد اس پر پڑتی ہے کسی کا باپ، کسی کا بھائی، کسی کا شوہر، کسی کا بیٹا، جب جان سے گزرتا ہے تو عورت کو سماجی اور معاشی طور پر بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی خواتین کے لیے کوئی سپورٹ سسٹم موجود ہی نہیں ہے۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ جب لعل قلندر پر دھماکا ہوا تو لوگ اس حادثے کی حساسیت اور خوفناکی پر بحث کرنے کے بجائے اس بات پر بحث کرنے لگے کہ وہاں عورتیں دھمال ڈالتی ہیں، وہاں عورتیں کیوں جاتی ہیں؟

عورتیں کیا کرسکتی ہیں، کیا نہیں کرسکتیں۔ عورتوں کو کس طرح اپنے دکھوں کو ظاہر کرنا چاہیے۔ کس طرح رونا چاہیے۔ سماج اپنی پوری طاقت صرف عورت کی سرگرمیوں کو معطل کرنے میں صرف کر رہا ہے۔ جو لوگ قلندر پر ہونے والے دھماکے کی مذمت کرنے کے لیے وہاں گئے ان کے اچھے عمل کو زیادہ فوکس نہیں کیا گیا، جتنا وہاں عورتوں کی علامتی دھمال کو برا کرکے پیش کرنے میں توانائیاں ضایع کی گئیں۔

اب حقیقتیں چھپانا بہت کٹھن ہے۔ انتہاپسندی، دہشت گردی کو روکنے یا ختم کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ لوگوں سے آزادی کا حق چھینا جائے۔ اگر قید میں ہی پناہ ہے تو پھر تو سارے مجرم جو جیلوں میں ہیں وہ محفوظ ہیں۔ ہم بھی اپنے گھروں میں بند ہوکر ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتیں اور موت کے منتظر رہیں۔ پھر تو ریاست اور حکومت کا تصور ہی ختم ہوجاتا ہے۔ عوام کی آزادی آزادی میں ہی اس کا تحفظ ہے۔

یہ ظلم کی فصل جو بوئی جاچکی ہے۔ اب ہم اس کا پھل کھا رہے ہیں۔ ہر دھماکا ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اب امان کہیں نہیں۔ جائے پناہ کہیں نہیں۔ قلندر ہو یا امام بری، شاہ نورانی ہو، کوئی اور درگاہ ہو۔ وہ محبت سے ڈرتے ہیں وہ عشق سے ڈرتے ہیں وہ لوگوں سے ڈرتے ہیں۔ وہ صوفی ازم کی اجتماعیت سے ڈرتے ہیں۔ دہشت کا مقابلہ قید سے نہیں محبت اور رقص سے ممکن ہے، عشق کے گیت ہی ان دھماکوں کی آواز کو دبا سکتے ہیں۔

سارے سندھ کی ایک آواز

دھماکا نہیں، دھمال!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔