مہرکا حق نظرانداز نہ کیا جائے

اہلیہ محمد فیصل  پير 27 فروری 2017
جس طرح شادی کے موقع پر رائج بہت سی دیگر دقیانوسی اور بے جا رسومات پر بند باندھنے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

جس طرح شادی کے موقع پر رائج بہت سی دیگر دقیانوسی اور بے جا رسومات پر بند باندھنے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

نکاح کے وقت ایک عورت کے لیے خاوند کی طرف سے ایک لازمی حق مہر کا ہے، جس کے بغیر نکاح نہیں ہو سکتا۔ 

خاتون کے اس شرعی حق کو ایک کاغذی کارروائی اور بس ایک رسم کی سی اہمیت دے دی جاتی ہے۔ لڑکی والے ویسے بھی دب کر رہتے ہیں، اس لیے لڑکے والوں کی جانب سے آج کے دور میں بھی برسوں پہلے  دیے جانے والا مہر لکھ دیا جاتا ہے، لڑکی والوں کی مجال نہیں ہوتی کہ اس پر بات کرسکیں، انہیں تو ہر لمحہ اس کا ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں کوئی غلط فہمی یا تلخی پیدا نہ ہو جائے، چناں چہ شرم ناک حد تک معمولی سے پیسے مہر کے خانے میں لکھ دیے جاتے ہیں۔ چوں کہ ایجاب وقبول کے سلسلے میں اس کا تذکرہ لازم ہے، اس لیے کارروائی پوری کرنے کے لیے اس خانے کو پُر کر دیا جاتا ہے، لیکن کون کہے کہ یہ لڑکی اور لڑکی والوں کا حق ہے، اس کا تعین انہیں آزادانہ طور پر کرنے دیا جائے۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عین نکاح کے موقعے پر اچانک ہی دلہن کے والد،بھائی یا اور کوئی بزرگ کھڑے ہو کر ایک بڑی رقم حق مہر کے طور پر لکھوانا چاہتے ہیں، جب کہ دلہا یا دلہا والے اتنی رقم دینے کی استطاعت میں نہیں ہوتے، یا دینے پر رضا مند نہیں ہوتے۔  اس طرح اس رقم کو بطور ادھار رکھ کر دلہا والے اس نازک موقعے کو نمٹاتے ہیں۔

حق مہر کے حوالے سے ایک عجیب بات ہمارے ذہنوں میں یہ بیٹھ گئی ہے کہ خدانخواستہ یہ  طلاق کے موقع پر ادا کرنے کے لیے ہے۔ اسی وجہ سے اگر کوئی عورت اس کا مطالبہ کرے تو شوہر اور سسرال والے اس بات کی بنیاد پر ایک ہنگامہ کھڑا کردیتے ہیں اور چھوٹتے ہی یہ الزام لگادیتے ہیں کہ بیگم صاحبہ کے  ارادے ٹھیک نہیں ہیں۔ کچھ تو براہ راست اسے مطالبۂ طلاق قرار دے دیتے ہیں، جب کہ مہر کا تعلق کسی طرح بھی طلاق سے نہیں ہے، یہ نکاح کے موقعے کی ایک ضروری چیز ہے۔ اس لیے اسے نکاح کے وقت ہی ادا ہو جانا چاہیے۔

کبھی مہر طے کرتے وقت بھی یہ بات کہہ دی جاتی ہے، ارے بچی نے کون سی طلاق لینی ہے، جو ایسی بات کر رہے ہیں، کوئی بات نہیں لکھ دیجیے کچھ بھی۔ یعنی یہ بات کردی جاتی ہے کہ یہ تو صرف ایک کاغذی کارروائی ہے، اس پر عمل نہیں ہونا۔ بعض دفعہ تو بعد میں دلہا کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ پریشان نہ ہو، دلہن جب تمہارے گھر آجائے، پھر اس سے حق مہر کی رقم معاف کرالینا۔ اس طرح وہ روز اول ہی حق مہر نہ دینے کی نیت کرلیتا ہے۔ یہ امر شرعی اور قانونی طور پر نہایت غیر مناسب ہے۔ یہ کھلی طور پر ایک عورت کی حق تلفی ہے۔

اکثر حق مہر کے طور پر برائے نام رقم رکھی جاتی ہے۔ یہ طریقہ بھی درست نہیں، بلکہ اعتدال کو اختیار کرتے ہوئے حیثیت اور کفایت کے اعتبار سے حق مہر کی رقم مقرر کی جانی چاہیے۔ جس میں لڑکی والوں کی  مرضی شامل ہونی چاہیے۔

بہت سے صاحب ثروت گھرانوں میں مہر کو نمود ونمائش کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، چوں کہ نکاح کے وقت حق مہر کا بطور خاص تذکرہ ہوتا ہے، اس لیے وہ اس موقع کو بھی اپنی واہ واہ اور شہرت کرانے کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ لوگ دس جگہوں پر اس مہر کا تذکرہ کریں اور ان کا شملہ اونچا ہو۔ اس سے متوسط اور نچلے طبقے میں احساس کم تری پیدا ہوتا ہے۔ شرعی طور پر ایک برکت کی چیز کو اس طرح نمایاں کرنا بھی افسوس ناک ہے۔

جس طرح شادی کے موقع پر رائج بہت سی دیگر دقیانوسی اور بے جا رسومات پر بند باندھنے کی ضرورت ہے، اسی طرح نکاح کو سہل اور آسان بنانے کے ساتھ حق مہر کو جائز طریقے سے مقرر کرنا بھی ضروری ہے۔ سب سے بڑھ کر اس کی ادائی کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔ یہ شادی کے بندھن میں بندھنے والی کسی بھی  عورت کا ایک بنیادی حق ہے، اسے کسی بھی قسم کی سماجی جھجک کی نذر کرنا چاہیے اور نہ ہی اسے معیوب سمجھنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔