اے مالک! تُو میرا مان ہے، تُو تو دے دے!

ذیشان الحسن عثمانی  پير 27 فروری 2017
میری اپنی ہی نادانیاں ہیں کہ میں آج وہیں کھڑا ہوں جہاں سے چلا تھا۔ ایک موقعہ اور دے، اک واری فر سہی۔ اس بار بھی ناکام ہو جاوں تو پھر سے معاف کردینا۔

میری اپنی ہی نادانیاں ہیں کہ میں آج وہیں کھڑا ہوں جہاں سے چلا تھا۔ ایک موقعہ اور دے، اک واری فر سہی۔ اس بار بھی ناکام ہو جاوں تو پھر سے معاف کردینا۔

 

ایک دن ماں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ جاو، آج گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ اللہ جنت دے تمہارے باپ کو، اچھے دنوں میں فلاں دکاندار کی انہوں نے بڑی مدد کی تھی۔ آج جب وہ اِس دنیا میں نہیں ہیں تو جا کر کہنا کہ ماں نے بھیجا ہے، آٹآ دے دیں۔ مجھے اُمید ہے وہ ’’سابقہ مہربانیوں‘‘ کا ضرور خیال رکھیں گے۔

گیارہ سال کے بچے نے ہاتھ جھاڑے اور چل پڑا بازار کی طرف۔ اچھے اُجلے کپڑے، سنورے ہوئے بال، گورا چٹّٰا چہرہ، سرخ گال اور سفید صاف ستھرے پاوں۔ جو دیکھتا، نظر بھر کے دیکھتا۔ بس وہ بھول جانے کے ڈر سے بار بار دہرا رہا تھا۔ ’’ماں نے بھیجا ہے، آٹا دے دیں۔‘‘

اتنے میں اُس کی نظر ایک کھلونے کی دُکان پر پڑی وہ وہاں گھس گیا۔ پھر قریبی میلے میں چلا گیا، پھر قریبی دکان میں، پھر متصل میدان میں۔ انہی ’’مصروفیات‘‘ میں دن ڈھلنے کو آیا تو خیال آیا کہ گھر سے تو آٹا لینے نکلا تھا۔ بھاگ کر صحیح راستہ ڈھونڈنا چاہا تو اور الجھ گیا۔ اتنے میں کچھ غنڈے آوارہ لڑکوں نے پکڑ لیا۔ خوب درگت بنائی۔ مگر اُس کے پاس تھا ہی کیا جو دیتا؟ سو تنگ آکر انہوں نے بھی چھوڑ دیا۔

اب برخوردار پھٹے کپڑوں، الجھے بالوں، بوسیدہ حال، مٹی زدہ پاوں اور چاک گریباں کے ساتھ دکان پر پہنچے تو کوئی پہچانے نہ۔ کہاں یہ خانہ خراب بچہ، کہاں اُس کے اعلیٰ والدین اور کہاں اُن کا حسب و نصب۔ بچہ بار بار دہراتا رہا کہ ’’ماں نے بھیجا ہے، آٹا دے دیں‘‘ مگر انہوں نے تو سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ کس کے بیٹے ہو؟ کیا کرتے ہو؟ کہاں سے آئے ہو؟ پیسہ لے کر کھا تو نہیں جاو گے؟ کس مصرف میں لگاو گے؟ آٹے کا کیا کرو گے وغیرہ وغیرہ۔ نیتوں کا شک اعمال کو کھا جاتا ہے اور برکت زائل ہوجاتی ہے۔ سو اُسے بھی کچھ نہ ملا۔ حیران و پریشان بچہ واپسی پر سارا راستہ سوچتا ہی رہا کہ ’’ماں نے بھیجا تھا‘‘ تو آٹا کیوں نہیں دیا۔۔۔

کچھ ایسا ہی حال عبداللہ کا بھی ہوا۔ اُس نے سوچا کہ اللہ کے راستے میں ایک ادارہ بنایا جائے یا کسی ایسے شخص کا ساتھ ہی دے دیں جو ایسا کوئی کام کرنے جا رہا ہو۔ وہ بھی گھر سے بن سنور کے، تیار ہو کے دنیا میں نکل کھڑا ہوا کہ کوئی کام کر کے پیسے کما کے واپس آجائے گا۔ نیت سچی، منزل آسان، اور ویسے بھی پیسہ کمانا تو اُسے اپنے بائیں ہاتھ کا کھیل لگتا تھا۔ اللہ کے راستے میں، اللہ کے بندوں کے لئے پیسہ کمانا ہے اور جو دیں گے انہیں بھی اللہ ہی نے دیا ہے۔ دیے میں سے ہی تو دیں گے کیا بڑا کام کیا؟ اُسے کامیابی کا سو فیصد یقین تھا۔ مگر بچے کی طرح عبداللہ بھی اُلجھ گیا۔ کبھی یہ دکان تو کبھی وہ۔ کبھی یہ آئیڈیا تو کبھی وہ۔ کبھی یہ مورتی تو کبھی وہ۔ اُس کے راستے میں بھی لوگ آگئے۔ عموماً وہ کنّی کترا کے نکل جاتا تھا مگر اِس بار خلاف معمول وہ اُن سے بھڑ گیا کہ کام اُس کا نہ تھا، پیچھے ہٹنا بنتا نہیں تھا۔ اُس کی بھی خوب درگت بنی۔ اُس کو بھی راستہ بھول گیا۔ اُسے بھی کچھ نہ ملا، اُسے بھی شکست ہوگئی۔ اُس کے اعمال اُس کی نیتوں کو زنگ آلود کرگئے۔ اُس کی بھی شوخیاں اُس کی محنت برباد کرگئیں اور اُس کی بھی ’مصروفیات‘ نے اُسے اصل کام سے غافل رکھا۔

آج وہ بھی واپسی کی راہ پر کھڑا ہے۔ وہ بھی آسمان کو تکتا ہے۔ اُس سے بھی دنیا نے سینکڑوں سوال کر ڈالے۔ مگر وہ جواب نہیں دیتا۔ وہ تو بس روتا ہے اور روتا چلا جاتا ہے۔ اُس نے بھی گردان لگا رکھی ہے: ’’بھیجا تو تُونے تھا، کام تو تیرا تھا۔ ملا کچھ نہیں‘‘

عبداللہ نے دو رکعت نمازِ غرور کی نیت باندھی اور بعد از نماز دعا کو ہاتھ اٹھا دئیے:

’’اے مالک ارض و سما، اے جھرنوں سے گرنے والے پانی کے رب، اے پودوں میں لگنے والے پھلوں کے رب، اے بیچ کو زندگی دینے والے ان داتا، یا ذوالجلال والاکرام، تُو تو میرا غرور ہے، میں کیسے پیچھے ہٹ جاوں؟ میرا پیچھے ہٹنا بنتا نہیں ہے۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ سلام نمرود کی آگ سے پیچھے نہ ہٹے، جیسے حضرت موسٰی علیہ سلام نے فرعون کی نہ مانی، جیسے حضرتِ رِسالت پناہ صلیّ اللہ علیہ وسلام بدر سے نہ پلٹے، جیسے حضرت حسین رضی اللہ عنہم یزید کے سامنے ڈٹ گئے کہ وہ اپنا آپ نہیں، تجھے، تیرے دین کو پیش کر رہے تھے۔ تیرے ہی تو نمائندہ تھے، پیچھے ہٹنا بنتا نہیں تھا۔

میری اپنی ہی نادانیاں ہیں کہ میں آج وہیں کھڑا ہوں جہاں سے چلا تھا۔ ایک موقعہ اور دے، اک واری فر سہی۔ اس بار بھی ناکام ہو جاوں تو پھر سے معاف کردینا۔ لوگ تیرے دین کو میرے اعمال سے تولتے ہیں۔ میں خطا وار ہوں، تو لاج رکھ لے۔ مجھے خطا کرنے سے بچا لے، گناہوں کی لذت چھین لے، گناہوں کی وجہ ختم کردے۔ ایسے محفوظ فرما لے جیسے تُو نے صحابہ اکرام رضی اللہ عنہما کو محفوظ کردیا تھا کہ گناہ بڑی مشکل سے اُن تک پہنچ پاتے تھے اور پہنچ بھی جائیں تو تُو معاف کر دے۔

تُو تو میرا غرور ہے، تُو تو میرا مان ہے۔ میں نے ہر اک سے یہی سُنا ہے کہ بابا معاف کرو، اللہ دے گا۔ اب تیرے پاس آیا ہوں۔ تُو تو دے دے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی

ذیشان الحسن عثمانی

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ فیلو اور آئزن ہاور فیلو ہیں۔ ان کی تصانیف http://gufhtugu.com/authors/zeeshan-ul-hassan-usmani/ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور معاشرتی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل برکلے کیلی فورنیا، امریکہ میں ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔ آپ ان سے [email protected] پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔