دو موسموں کے درمیان

عبدالقادر حسن  منگل 28 فروری 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

میں ان دنوں ایک وقت میں دو موسموں سے لطف اندوز ہوتا ہوں، رہتا گرم میدانی علاقے کے مرکز لاہور میں ہوں لیکن رہنے والا ایک پہاڑی گاؤں کا ہوں جہاں ان دنوں اگرچہ سردی تو نہیں پڑ رہی لیکن گرمی بھی نہیں بس یوں سمجھئے کہ گرمی اور سردی کے موسم دونوں آتے جاتے رہتے ہیں۔

سورج غروب اور طلوع ہونے کے بعد صبح کو سردی شام کو سردی مگر دوپہر کو دھوپ کی وجہ سے قدرے گرمی۔ موسم کا یہ حال میں ان لوگوں کو سنا رہا ہوں جو خود اس موسم سے گزر رہے ہیں گویا ایک دن رات کی دیکھی کیفیت کو بیان کر رہا ہوں لیکن اصل میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ابھی ابھی جس ماحول سے گزر کر آ رہا ہوں وہ اگرچہ کچھ سردی سے مانوس ہو رہا تھا لیکن گرمی بھی اس کو سردی سے بچا رہی تھی وہ یوں کہ موقع پاتے ہی گرمی اس سردی کا پردہ چاک کر لیتی تھی اور اپنے باسیوں کو ایک آسان موسم میں لے آتی تھی، یہ موسم جو اب تک قدرے بہاریہ ہے لیکن بس چند دنوں کی بات ہے کہ مکان و لباس سب بدل جائیں گے اور دن رات ایک نئے رنگے کے ساتھ طلوع و غروب ہوں گے۔

مہنگائی کے اس موسم میں شدید خواہش ہے کہ گزشتہ گرمیوں کے محفوظ پڑے ہوئے کپڑے زندہ و سلامت ہوں کیڑے مکوڑوں سے بچے ہوئے ہوں اور ان کی آب و تاب گزشتہ موسم والی نہ سہی لیکن اس کی یاد دلاتی ہو۔ خوفناک گرانی کے اس دور میں موسم کی تبدیلی سے پریشانی ہوتی ہے لیکن سردی گرمی کا موسم تو قسمت کا لکھا ہے اس سے بھاگ کر کہاں جا سکتے ہیں، ایک سے بھاگیں گے تو دوسرا سامنے کھڑا ہو گا۔گرمی اورسردی یہ دو موسم ہیں جو ہماری قسمت میں ہیں بہار تو بس آتے ہی گزر جاتی ہے اور ہمیں گرمی کے حوالے کر جاتی ہے جس کا تصور بھی بڑی ہمت کا کام ہے اور اب تو اس موسم کے گزشتہ سال کے کپڑے بھی سلامت نہیں ہیں۔ کیا ہو گا دیکھا جائے گا۔

میں یہ پرانی باتیں آپ کو اچھے وقت کی یاد دلانے کے لیے کر رہا ہوں کہ اور کچھ نہیں تو یادیں ہی سہی اور اس بے اعتبار زندگی میں کتنے ہی لمحے ایسے آتے ہیں جب یہ یادیں ہی کچھ حوصلہ دلاتی ہیں، زندگی کے سفر کا اگلا قدم اٹھانے کے لیے جو کوئی انسان اپنی مختصر سی تاریخ میں قدم بڑھانے کے لیے اٹھاتا ہے گھسی پٹی یادوں کو زندہ رکھنے کے لیے۔

میں ان دنوں یادوں کا ذکر کچھ زیادہ ہی کرنے لگا ہوں اور اس کی ایک وجہ لاہور شہر کا ایک قیام ہے۔ میں اس شہر میں آتا جاتا رہتا ہوں کبھی نیم جوانی میں کبھی عنفوان شباب میں کبھی عمر رفتہ کو کاٹنے میں اور کبھی کسی آنے والی عمر کے استقبال میں۔ ماضی میں امیدیں ٹوٹتی گئیں اور پھر بنتی گئیں لیکن اس دوران ہمارے سیاستدان بھی بنتے بگڑتے سنورتے اور روتے پیٹتے رہے۔ سیاست ان دنوں عوام میں نہیں اخباروں میں ہے۔

ٹی وی وغیرہ بھی سرکاری ہیں اس لیے وہاں بھی آپ کو سیاست دکھائی نہیں دیتی البتہ کبھی کبھار سرکاری سیاست سامنے آ جاتی ہے۔ لیکن اخباروں کا روزگار تازہ سیاست پر چلتا ہے اس لیے ہم لوگ سیاست کو مرنا تو کجا کمزور اور مضمحل تک نہیں ہونے دیتے خود سیاستدان بھی میڈیا میں ہی سہی اپنی زندگی کے خواہاں ہوتے ہیں۔ سیاستدان اور میڈیا والے ایک ساتھ جیتے مرتے ہیں۔ خبر کی سرخی سیاستدان بناتا ہے اوراس سرخی کو رنگ و روغن میڈیا لگاتا ہے یعنی دونوں مل جل کر عوام کی خدمت کرتے ہیں اور انھیں حالات زمانہ سے باخبر رکھتے ہیں۔

آگے عوام کی قسمت کہ انھیں ان قائدین سے کیا ملتا ہے۔ وہ کیا کھوتے ہیں اور کیا پاتے ہیں اگرچہ عوام میڈیا والوں سے خوش نہیں ہوتے لیکن ایک لمحے کے لیے وہ سوچ لیں کہ اگر میڈیا نہ ہو تو پھر کیا ہو اس اندھیرے کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا جہاں اخبار اور دوسرے میڈیا کی روشنی نہ ہو۔

خبروں کی پیاس اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ہمارے ہاں کبھی صبح کا اخبار سہ پہر کو ملتا تھا اور وہ بھی اگر آمدورفت کی دستبرد سے محفوظ رہتا اور کسی دکان میں کھپ نہ جاتا تو دکاندار سے بچ کر قارئین کے پاس پہنچتا جن کے لیے اسے چھاپا جاتا تھا کیونکہ اخبار صرف مطالعے کے لیے نہیں دوسرے کئی کاموں میں بھی کام آتا ہے۔

پیکنگ کے علاوہ صفائی کے لیے بھی اور سامان باندھ کر رکھنے کے لیے بھی کیونکہ اخبار میں لپٹا ہوا سامان زیادہ قیمتی سمجھا جاتا ہے کہ کسی وجہ سے اسے خاص حفاظت میں رکھا گیا ہے۔ میں یہاں تک لکھ پایا تھا کہ نہ جانے مجھے کیا ہوا کہ مجھ سے مزید لکھا نہ گیا اور میں نے اپنی ایک نئی بیماری کا عذر لے لیا۔ ایسے ہی جیسے استاد امام دین گجراتی کو تکلیف ہوئی اور کسی نے ان سے خیریت پوچھی تو استاد نے جواب دیا

میرے گوڈے میں درد جگر مام دینا
اور یوں استاد کا درد ہنسی میں اڑ گیا

ضروری نوٹ! قارئین سے معذرت کہ میں کالم کا بوجہ ناغہ کروں گا اس کے لیے پیشگی معذرت۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔