ذاتی رہائش کا مسئلہ اور چند تجاویز

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  منگل 28 فروری 2017
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

آج کی تحریر حکمرانوں، سیاسی جماعتوں اور این جی اوز کی توجہ مبذول کرانے کے لیے ہے۔ آج کا موضوع بے گھر افراد کے بارے میں ہے۔ اس مسئلے پر پہلے بھی لکھا ہے تاہم آج اس مسئلے کے حل سے متعلق کچھ تجاویز پیش کی جارہی ہیں۔ راقم کے خیال میں تعلیم، صحت اور رہائش کے مسائل میں ذاتی رہائش کا نہ ہونا آج مڈل کلاس کا سب سے گمبھیر مسئلہ بن چکا ہے۔

حکمرانوں کی غفلت، غلط حکمت عملی اور سرمایہ داروں کا اس طرف سرمایہ داری میں لامحدود منافع کمانے کا کردار اس مسئلے کو آج اس سطح پر لے آیا ہے کہ اب انیس، بیس گریڈ کا ایک ایماندار سرکاری افسر بھی اپنا ذاتی گھر بنا نہیں سکتا۔ جیسا کہ راقم نے اپنے پچھلے کالموں میں بھی اس طرف توجہ دلائی تھی کہ شہروں خصوصاً کراچی میں جس تیزی سے جائیداد کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، وہیں کرائے کے نرخ بھی تیزی سے بڑھے ہیں۔ اور اب یہ حال ہے کہ جو شخص جس طبقے سے بھی تعلق رکھتا ہے، یعنی وہ لوئر مڈل کلاس کا ہو یا مڈل کلاس کا، کرائے کی مد میں اسے اپنی آدھی تنخواہ ہر مہینے مالک مکان کو دینی پڑتی ہے۔ آج ایک سو بیس گز کے پورشن مکان کا کرایہ بھی بیس ہزار سے بڑھ گیا ہے۔

عموماً کرایہ بڑھانے کی غرض سے کسی بہانے کرائے دار سے گھر بھی خالی کرایا جاتا ہے، کبھی خود مجبوراً کرایہ دار اپنا گھر تبدیل کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس شفٹنگ میں کم از کم پچاس ہزار روپے لگ جاتے ہیں، کوئی گاڑی والا سامان کا ایک چکر بھی ہزار روپے سے کم نہیں لگاتا ہے۔ مختصر یہ کہ کرائے دار کی زندگی کسی عذاب سے کم نہیں۔

اس مسئلے کے حل کے ضمن میں مذکورہ بالا قوتوں کی خدمت میں عرض ہے کہ کرائے پر رہنے والوں کو اقسام کے لحاظ سے ہم دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک حصہ الف، اس میں وہ تعداد ہے جو کچھ رقم تو اپنے پاس رکھتی ہے اور بلا سود قرضہ حاصل کرکے اپنا مکان بنا سکتی ہے۔

حصہ ب، اس میں کرائے پر رہنے والوں کی وہ تعداد شامل ہے جو کوئی جمع پونجی نہیں رکھتی مگر ماہانہ کرایہ نکال سکتی ہے۔

چنانچہ حصہ الف، کی تعداد جو اپنے پاس فلیٹ یا مکان خریدنے کے لیے کچھ رقم اپنے پاس رکھتی ہے، ان کو بلا سود قرضہ مندرجہ ذیل صورتوں میں دیا جاسکتا ہے۔

ایک صورت یا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ایسے افراد جو سرکاری ملازم ہوں، ان کو ان کا اپنا ادارہ خود اپنے پاس سے یا حکومتی بینک کے توسط سے مکان خریدنے کی مد میں پچاس سے 80 فیصد بلاسود قرضہ دے اور قرضہ کی وصولی کے لیے ملازمیں کی ماہانہ تنخواہوں سے قسط منہا کر لی جائے۔ یوں پانچ سے دس سال میں یہ قرضہ ختم ہوجائے گا اور قرضے کی واپسی کا بھی کوئی مسئلہ نہیں بنے گا۔

اسی طرح حصہ ب، یعنی وہ تعداد جو پرائیویٹ ملازم ہیں، ان کو بھی بلاسود (ہاؤس بلڈنگ فنانس کی طرز پر) مکان کی خریداری کے لیے پچاس فیصد قرضہ بلا سود دیا جائے، مگر ان پر قانونی پابندی عائد کردی جائے کہ قرضہ پر لی گئی جائیداد تیس سال تک قابل فروخت نہیں ہوگی۔ اس عمل سے صرف حقیقی بے گھر افراد ہی اس اسکیم سے فائدہ اٹھا سکیں گے، موقع پرست اپنی کارروائی نہیں دکھا سکیں گے۔ اس قسم کی بے گھر تعداد کے لیے ایک اور اسکیم یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ تعداد جو صرف بمشکل صرف ماہانہ کرایہ ہی نکال سکتی ہے، انھیں بنے بنائے مکانات قسطوں پر فراہم کرکے بیس، پچیس سال میں کل رقم وصول کرلی جائے۔

اسی طرح ایک اور تجویز یہ ہے کہ حکومت بلڈرز کو زمین اس شرط پر مفت فراہم کرے کہ وہ اس زمین کا گراؤنڈ فلور خود استعمال کرے اور فروخت کرے مگر فرسٹ فلورکے رہائشی یونٹ بنا کر کرائے پر رہنے والوں کو فوری قبضے پر دے اور ان سے ماہانہ آسان قسطوں پر رقم وصول کرے۔ اور اس اسکیم میں بھی رہائشی یونٹ فروخت کرنے پر کم از کم بیس سال تک پابندی عائد ہو۔

درحقیقت کرائے کے مکانات میں رہنے والوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ماہانہ ایک معقول رقم تو ادا کرسکتے ہیں مگر ان کے پاس اتنی رقم نہیں کہ وہ یکمشت ادا کرکے کوئی فلیٹ یا مکان وغیرہ خرید سکیں۔ ویسے بھی ہر کرایہ دار ماہانہ کرایے کی رقم تو ادا کرتا ہی ہے، اب صرف اتنا سا مسئلہ ہے کہ کسی طرح انھیں قبضہ پہلے دے دیا جائے، کل رقم وہ مکان میں رہتے ہوئے ماہانہ کرائے یعنی قسط کی شکل میں ادا کرتا رہے گا۔

اس ضمن میں چیٹنگ یا ناجائز فائدہ اٹھانے سے روکنے اور حق دار کو رہائش فراہم کرنے کے لیے دو طریقے بہت کارگر ثابت ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ نادرا سے ریکارڈ لیا جائے کہ کون کون کرائے دار ہے؟ اور دوسرا یہ کہ اس قسم کی اسکیم کے تحت مکان کی فروخت پر بیس سال تک کی پابندی عائد ہو، نیز اسی طرح سے ووٹر نمبر بھی طلب کیا جائے، اس عمل سے حقیقی شہری کو یہ سہولت مل سکے گی اور کوئی ڈبل مکان بھی حاصل نہیں کرسکے گا۔

راقم نے یہاں جو تجاویز دی ہیں ان پر حکومت کی جانب سے بھی عمل کیا جاسکتا ہے، کوئی این جی اوز بھی عمل کرسکتی ہے (چاہے وہ سو پچاس افراد ہی کو مکان فراہم کرسکے) اور بلڈرز حضرات بھی یہ کام کرسکتے ہیں، جب کہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے لیے بھی کوئی مشکل کام نہیں، تھوڑی بہت تعداد کی یہ بھی مدد کرسکتے ہیں ان تجاویز کی شکل میں۔ ہر صاحب حیثیت اپنی گنجائش کے مطابق اپنے شناسا لوگوں کو یہ سہولت پہنچا سکتا ہے، خاص کر مذہبی ذہن رکھنے والے یہ عمل کرکے بہت بڑی نیکی کما سکتے ہیں، کیونکہ بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ سود پر قرضہ لینا اللہ اور اس کے رسول سے جنگ ہے اور جو کوئی کسی دوسرے کو بلا سود قرضہ دے دے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے سود کے حوالے سے یہ جنگ ختم کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔

(واعظ اور تبلیغ کرنے والے خاص کر ایسی شخصیات جو کسی بھی لحاظ سے اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں وہ ان مالک مکان سے اپیل کریں کہ خدارا مکان کے کرایوں میں اس قدر تیزی سے اضافہ نہ کریں کہ کرائے داروں کے لیے جینا مشکل ہوجائے۔ گزشتہ چند برسوں میں کراچی شہر میں جائیداد کی قیمتوں میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کے بعد سب لوگوں نے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے کرایوں میں بھی بے پناہ اضافہ کردیا ہے جو قانونی طور پر بھی اور مذہبی و اخلاقی طور پر بھی قطعی غلط ہے۔)

راقم نے اس سے قبل جو کالم لکھا تھا اس کے جواب میں ممبر قومی اسمبلی کشور زہرہ کا اچھا ردعمل آیا تھا، انھوں نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ اس سلسلے میں فنانس ڈویژن سے بات کریں گی کہ کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ ایک منتخب عوامی نمایندے کو عوام کے ایک اہم مسئلے کا اس قدر احساس ہے اور ان کی خواہش بھی ہے کہ وہ اس ضمن میں کوئی عملی کردار ادا کر سکیں۔

راقم کی دیگر عوامی نمایندوں سے بھی گزارش ہے کہ خدارا اس اہم مسئلے کو نظر انداز نہ کریں اور غور کریں کہ جب ایک اٹھارہ، انیس گریڈ کا ریٹائر ہونے والا افسر بھی اپنی جمع پونجی سے اس شہر میں ایک چھوٹا پلاٹ بھی خریدنے کی سکت نہ رکھتا ہو تو باقی شہریوں کی کیا حالت ہوگی؟ آئیے غور کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔