ہم اچھوت ہیں!

اقبال خورشید  منگل 28 فروری 2017

جب خدمت گاروں کے بھیس میں لٹیروں ہو، تو خیر کی کیا امید۔ جب مصلح قاتل بن جائیں، تو بھلائی کا کیا امکان!

یہاں طاقت کا قانون ہے۔ نظام ناکارہ ہوا، عوام بے حیثیت ۔ اکثریت غریب ، جس کے لیے بیماری موت کا دوسرا نام ۔ اسپتال اور طبی مراکز کا فقدان۔ مریض پہنچ بھی گیا، تو سہولیات عنقا۔ اگر زیادہ سخت جان ہوا، تو غلط انجکشن اُسے ٹھکانے لگانے کو موجود ۔ نجی اسپتالوں میں علاج انتہائی مہنگا۔ اور پھر وہاں بھی فقط دعوے ۔ اونچی دکان، پھیکے پکوان۔ علاج کاروبار بن گیا۔ جعلی ادویہ کی بھرمار ہے۔ عوام شفا کے نام پر زہر پھانک رہے ہیں۔ اسپتالوں سے ماؤں کے لخت جگر اغوا ہوجاتے ہیں۔ انتہائی نگہداشت وارڈز میں کبھی تو آگ بڑھک اٹھتی ہے، کبھی آکسیجن کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے، اوردرجنوںمعصوم دم توڑ دیتے ہیں۔ انسانیت کی اس سے بڑی تذلیل بھلا کیا ہوگی۔

ہماری قسمت کے فیصلہ سازوں کو فقط اپنے مفادات عزیز۔ پانی ایک نعمت ،مگراس ملک کے باسی اِس نعمت سے محروم۔ دیہی علاقوں میں مجبوری کا یہ عالم کہ اسی تالاب کا پانی پیا جاتا ہے، جس سے جانور اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ شہری علاقے کے مکین بھی آج بوند بدند کو ترس رہے ہیں۔ ٹینکر مافیا کے رحم و کرم پر ہیں۔ اس گھناؤنے کاروبار کی سرپرستی خود اہل حکم کرتے ہیں۔خیرات میں جو پانی مہیا کیا جاتا ہے، وہ بھی پینے کے قابل نہیں ہوتا۔ مضر صحت اجزا اسے زہریلا بنا دیتے ہیں۔ پانی اب موت بن گیا ہے کہ یہاں خدمت گاروں کے بھیس میں لٹیرے ہیں۔

ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام بے نام و نشان ہیں۔ زندہ ہیں، تو حکمرانوں کے لیے فقط ایک ووٹ ۔ جب مر جاتے ہیں، تو ان کی لاش پر سیاست کی جاتی ہے۔( 2008 سے 2013 تک کراچی پر مسلط خونیں تکون نے یہ مکروہ کھیل خوب کھیلا!)ہمارے بچوں کو تعلیم میسر نہیں۔ سرکاری اسکول خستہ حالی کا شکار۔ کوئی اطاق بنا ہے، کوئی باڑا۔ بیش تر اساتذہ نااہل۔ گھوسٹ ملازمین کی بھرمار۔جو علم زیور تھا، وہ بوسیدہ نصاب اور میرٹ کے قتل عام سے اب بوجھ بن گیا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ڈگری یافتہ بے روزگار بڑھتے جارہے ہیں۔ کرب کی چادر دبیز ہوئی۔

مایوسی ہے کہ بڑھتی جاتی ہے۔ اور یہ حیرت انگیز نہیں کہ مصلح قاتل بن گئے، بھیڑیے بھیڑوں کی روپ میں آئے ہیں۔۔۔عدم تحفظ کا کہرا ہے ہر سوں۔ حکمرانوں کی سیکیورٹی پر سیکڑوں اہل کار تعینات، عوام دہشت گردوں کے رحم و کرم پر۔ٹریفک حادثے سے بچ گئے، تو دھماکے میں مارے جائیں گے، کسی گولی کا نشانہ بن جائیں گے، کوئی کریکر آپ کو اڑا دے گا۔ پھر یہ وزیر مشیر میتوں پر آئیں گے، جھوٹے آنسو بہائیں گے۔ کچھ دعوے، کچھ وعدے۔ اور کہانی تمام۔۔۔یہ ہے ہمارا حزنیہ۔ یہاں عوام کمتر، بے معنی، بدترین ہیں۔ اور حکمران افضل، برتر، بہترین۔اور نظام فرسودہ۔ یہ نظام آمروں کو مسلط ہونے سے نہیں روکتا ۔گو وہ ہمیشہ انقلاب کا نعرہ لیے آتے ہیں، مگرہمیشہ غربت، بے روزگاری اور عدم تحفظ ختم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

نہ تو نظام تعلیم کو سدھار پاتے ہیں، نہ ہی شعبۂ صحت کو۔جمہوریت قوموں کا مستقبل، مگر سیاست دانوں نے اِسے اپنا اور اپنے اہل خانہ کا مستقبل سنوارنے کا ذریعہ بنادیا۔جمہوریت کے نام پر دیہی علاقوں میں جاگیر داروں، وڈیروں کا راج، شہری علاقوں میں تاجروں اور جرائم پیشہ گروہوں کی حکمرانی۔ گذشتہ سات عشروں میں یہاں جس نظام کا تجربہ ہوا، اس نے طاقتور کو مزید مضبوط کیا، غریب پر غربت کا بوجھ بڑھایا۔ یوں لگتا ہے، یہاں عوام اچھوت ہیں، نچلی ذات کے۔ اور حکمران برہمن ، اونچی ذات کے۔وہی اصول لاگو ہوتے ہیں۔ نچلی ذات کے لیے لازم ہے کہ اونچی ذات والے کا احترام کرے،خدمت کرے، ہر حکم بجا لائے، سوال نہ کرے، چپ چاپ ظلم سہتا رہے ۔

ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب’’اچھوت لوگوں کا ادب‘‘ یاد آتی ہے، جس میں دلت تحریک ( جس کی بنیاد ڈاکٹر امبید کر نے رکھی تھی) سے جنم لینے والے ادب کا جائزہ لیا گیا تھا۔کتاب کے لیے دلت شعرا کی 23 نظموں کو رضی عابدی نے اردو روپ دیا ، جنھیں پڑھتے سمے بار بار دھیان اپنے ملک کے کچلے ہوئے طبقات کی سمت گیا، جو اپنے مسیحاؤں کے ہاتھ یرغمال بن گئے۔

کتاب کے پیش لفظ میں ڈاکٹر مبارک نے ان الفاظ کے ساتھ :’’ہمارے معاشرے میں ذات پات کی تقسیم، مذہبی بنیادوں پر ہندو مذہب کی طرح تو نہیں ہے، مگر سماجی اور ثقافتی طور پر ہم بھی اسی طرح ذات پات اورطبقوں میں بٹے ہوئے ہیں‘‘ یہ امید ظاہر کی کہ شاید دلت ادب ہمارے ادیبوں اور شاعروں کے لیے کسی راستے کاتعین کرسکے۔ان نظموں میں وہی کرب، گریہ اور شکوہ ، جو ہمارے بٹے ہوئے، بکھرتے ہوئے معاشرے میں نظر آتا ہے۔وہی درد ،جو ہم سہتے ہیں۔ ان ہی ناانصافیوں کا نوحہ ، جو ہمیں درپیش ہیں۔ کچلے اور دھتکارے جانے کا وہی احساس ، جس سے ہمارے عوام روز گزرتے ہیں۔ نام دیودھاسل کی نظم ’’سوشلزم ‘‘دیکھیں:

اس دنیا کا سوشلزم
اس دنیا کا کمیونزم

اور اس کی ساری باتیں
ہم نے انھیں آزمایا ہے

اور ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں
کہ صرف ہمارا سایہ ہی ہمارے پاؤں ڈھانپ سکتا ہے!

جو کرب ہے، وہ جے وی پوار کی نظم’’ افق سے سرخی‘‘ میں سرکشی بن جاتا ہے:

وہ اندر بھڑکتی ہوئی آگ کو کیسے بجھائیں گے
وہ سر میں اٹھتے ہوئے شعلوں کو کیسے دبائیں گے

اب حیل و حجت کی گنجائش نہیں
جنوں بہت کام آتا ہے

ایک مرتبہ افق پر سرخی آجائے
تو پھر دروازہ کھلا رکھنے میں کیا حرج ہے؟

اور پھرمسز بنسودے ’’میری شکایت‘‘ میں کہتی ہے:

ہم ٹھکراتے ہیں
اس غلیظ اور زہریلی زندگی کو

اور ان مصیبتوں سے نجات پانا چاہتے ہیں
کیا تم مجھے ایک چمکتا ہوا، مہربان چاند دو گے؟

میرے ہم وطنو، تمھاری عدالت میں
میں ایک شکایت لے کر آئی ہوں

کیا تم مجھے انصاف دو گے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔