کراچی کے کچھ تفریحی مقامات کی یادیں (پہلا حصہ)

شبیر احمد ارمان  منگل 28 فروری 2017
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

قیام پاکستان سے قبل اہلیان کراچی نے جہاں علمی، ادبی اور سماجی شعبوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وہاں فلم بینی و مختلف کھیلوں کرکٹ، ہاکی، فٹبال باکسنگ میں بھی حصہ لیتے رہے ہیں جو انھیں تفریح باہم پہچاتے تھے ۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے کچھ میں جدت آئی اور کچھ اپنی اصل صورت کھو گئے۔ آج ہم کراچی کے کچھ تفریح مقامات کا ذکر کررہے ہیں ۔ ہوا بندر ( کلفٹن ) تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔

ناؤمل ہوت چند کے مطابق یہ علاقہ کسی زمانے میں کیماڑی سے ملا ہوا تھا اور درمیان میں سمندر حا ئل نہ تھا بعد میں ایک شدید زلزلہ کی وجہ سے یہ علاقہ کیماڑی سے علیحدہ ہوگیا تھا ۔ اس علاقے کے قریب ہی گزری بندر واقع تھی جو ایک طویل عرصے تک رسل و رسائل کا اہم ذریعہ رہی۔

شروع دنوں میں سمندر تک پہنچنے میں لوگوں کوبڑی دشواری کا سامنا رہا تھا کیوں کہ راستہ پتھریلا، ناہموار اورطویل تھا ابتدا میں سمندر تک پہنچنے کے لیے ایک لکڑی کا پل تعمیر کیا گیا تھا بعد میں کراچی کے ایک مخیر شخص سر جہانگیر کوٹھاری نے تین لاکھ روپے کے مصارف سے لیڈی لا ئڈ پائر یعنی موجودہ خوبصورت پتھر کا پل نما راستہ 1921ء میں تعمیر کروایا۔ پھر کراچی میونسپلٹی نے یہاں باغ لگوا یا اور بیٹھنے کے لیے بینچوں کا انتظام کیا تاکہ لوگ ان پر بیٹھ کر بحیرہ عرب کی دلفریب موجوں کا نظارہ کرسکیں اور یہاں کی بھیگی بھیگی ہوا سے لطف اندوز ہوسکیں۔

الیگزینڈر ایف بیلی اپنی تصنیف Kurrachee Past Present and Futureمیں لکھتے ہیں کہ یہ نام ( کلفٹن) سندھ پر قبضہ کرنے والے انگریز جنرل چارلس نیپئر کی جائے ولادت سے منسوب ہے ۔ مگر I.N. Alenلکھتا ہے کہ اس مقام کا نام کلفٹن کسی یورپین لیڈی نے رکھا تھا۔

الیگز نیڈر ایف بیلی اپنی کتاب میں حضرت عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے علاوہ یہاں کے زمین دوز شیوا مندر کا بھی ذکر کیا ہے، یہ مندر آج بھی قائم ہے ۔ یادش بخیر ! لیاری سے ہوا بندر ( کلفٹن ) تک کوئی بس نہیں جاتی تھی، لیاری سے صدر تک ایک بس روٹ نمبر 22Aجایا کرتی تھی، ہم صدر میں اتر کر دوسری بس روٹ نمبر 20پر سوار ہوجایا کرتے تھے جو کلفٹن جانے والی واحد بس تھی، آج بھی چل رہی ہے،کھٹارا ہی سہی، اس وقت بس ٹکٹ پندرہ آنے تھا جو رفتہ رفتہ بڑھ کر سوا روپیہ ( ایک روپیہ پچیس پیسے ) تک پہنچ گیا تھا، آج کا ترقی یافتہ کلفٹن یقینا نئی نسل کے لیے بہتر ہوگا، ہم لیاری کے نامساعد حالات کے بھنور میں پھنس کر رہ گئے تھے۔

گزشتہ دس پندرہ سالوں میں کراچی کی ترقی کہاں سے کہاں تک پہنچی اس کا ادراک ہم لیاری والوں کو نہ ہوسکا، جب حالات جینے کے جیسے ہوگئے تو میں بھی لیاری کی بند گلیوں سے نکل آیا، آسمان کو دیکھا، سورج پر نظر کرنے کی ناکام کوشش کی، تازہ ہوا میں سانس لینے کے لیے ہوا بندر ( کلفٹن ) کا رخ کیا، جہاں ترقی کے مناظر دیکھ کر میری آنکھیں نم ہوگئیں، دل بھر آیا، کیوں کہ بچپن کی تمام یادیں مسمار ہوچکی تھیں، ساتھ لیے اپنے بچوں کو گلو گیر لہجے میں بتا رہا تھاکہ جب ہم ہوا بندر ( کلفٹن ) میں آتے تھے تو بس میں سوار ہماری نظر دور سے حضرت عبداللہ شاہ غازی کی مزار مبارک پر پڑتی تھی اور ہم خوشی سے جھوم اٹھتے تھے کہ ہوا بندر آگیا، وہ دیکھو بابا کا مزار، لیکن اب ناخداؤں نے ترقی اور تحفظ کے نام پر بابا کے سبز گنبد کو بھی چھپا لیا ہے۔

اس کے پورے مزار کو جدیدیت کے نام پر ڈھانپ لیا ہے، اس کے عقیدت مندوں سے ان کا وہ حق چھین لیا ہے جو دور سے بابا کے مزار کو دیکھ کر سلام کیا کرتے تھے، اب ایسا نہیں ہے، بابا تک پہنچنے کے لیے اب واک تھرو سے گزرنا پڑتا ہے، بابا کے مزار کے سبز گیٹ کے ساتھ پھول، تبرک اور نیاز کی دکانیں ہوتی تھیں، گیٹ میں داخل ہوتے ہی ملنگ اور فقیر گیر لیتے تھے، لوگ انھیں مایوس نہیں کرتے تھے، حسب توفیق انھیں کچھ نہ کچھ دیتے تھے، مرکزی دروازے کے بعد ایک اور دروازہ ہوا کرتا تھا جہاں دائیں بائیں کچھ قبریں موجود تھیں، جن کے برابر میں عین دروازے کے سائے تلے زائرین کے جوتے اور چپل رکھنے والے ہوا کرتے تھے جو چار آنا یا آٹھ آنے اس کام کا لیتے تھے۔

لال رنگ کی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے دونوں اطراف میں مزید قبریں تھیں جو اب بھی ہیں، بابا غازی کے مزار مبارک میں داخل ہوتے ہی روحانی طور پر عجیب کیفیت محسوس ہوتی تھی، اگر بتیوں کی مہک چا سو تھی اب بھی عالم یہی ہے لیکن بابا کے مزار کا وہ رنگ روپ بدل دیا گیا ہے جس سے ہماری یادیں وابستہ تھی، بابا کے مزار کی سلاخیں نما کھڑکیوںسے ہم سمندر کا دلکش نظارہ کرتے تھے، مزار کے پچھلے حصے میں غار نما چشمہ کا منظرپہلے کچھ تھا اب کچھ اور سا ہوگیا ہے، جس میں عقیدت مند پیسے ڈالتے تھے اس کھلے میدان میں فقیروں کے لیے لنگر اور قوالی کا اپنا الگ منظر تھا اب اس کی بھی صورت بدل دی گئی ہے۔

بابا کو سلام کرنے کے بعد جہاں ہم بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے، پھر سیر و تفریح کے لیے نکل جاتے تھے، گنبد نما چبوترے پر چڑھ کر وہاں سے ہم پھسل کر نیچے آجاتے تھے، اب اس کا حلیہ زمین دوز سڑک اور پل نے بگاڑ دیا ہے، ہر چند کہ یہاں اب بڑا سا سبزہ زار چوک بنایا گیا ہے جہاںہیلی پیڈ ہوا کرتا تھا، اسی مقام پر بس اسٹاف بھی تھا دیگر موٹر گاڑیاں بھی یہی کھڑی رہتی تھیں اور ساتھ میں چند دکانیں ہوتی تھیں، جہانگیر کوٹھاری پریڈ کے اس مقام پر سے ساحل سمندر کا نظارا بہت ہی دل کش ہواکرتا تھا اب سمندر یہاں سے بہت ہی دور دکھا ئی دیتا ہے۔

کوٹھاری کی یہ سیڑھیاں سمندر کنارے تک لے جاتی تھیں، اب ایسا نہیں ہے، ان سیڑھیوں کے نیچے ہم کھیلا کرتے تھے اب وہاں منوں مٹی جمع ہے اور یہ تاریخی سیڑھیاں دن بہ دن زمیں بوس ہورہی ہیں، مچھلی گھر کو مسمار کیا جا چکا ہے، مچھلی گھر کے اوپر فن لینڈ تھا جس کا دروازہ مین سڑک کی طرف تھا جہاں اب ساٹھ منزلہ عمارت زیر تعمیر ہے، اس فن لینڈ میں بچوں کے لیے الیکٹرانک ٹوکن والے جھولے ہوا کرتے تھے، اسی میں ایک طرف سیلف سروس ہوٹل بھی تھا جہاں کھانے پینے کی چیزیں خود اٹھانا پڑتی تھیں، جیسے آج کل سپر مارکیٹ اور بڑی مارکیٹ میں کرتے ہیں اور آگے جاکر رقم کی ادائیگی کی جاتی تھی۔

مچھلی گھر ائیر کنڈیشنڈ تھا، اس کا ٹکٹ تین سے پانچ روپے تھا، مچھلی گھر میں داخل ہوتے ہی سامنے ایک خوب صورت فوارہ استقبال کا منتظر تھا، مچھلی گھر کے اندر چاروں طرف بڑے بڑے ٹھوس شیشوں میں طرح طرح کی رنگ برنگی چھوٹی بڑی مچھلیاں دل خوش کرتی تھیں، برابر میں ایک منی اوپن سینما تھا وہ بھی ختم کیا جاچکا ہے، اس پورے کھلے میدان میں چاروں اطراف میں جھولے ہواکرتے تھے، درمیان میں سجاوٹ کی دکانیں ہوتی تھی، بیچ میں گراسی اور بینچ ہوتے تھے۔

موت کا کنواں جس میں ایک آدمی موٹر سائیکل میں سوار ہوکر گول گول گھوم کر اوپر کی طرف آتا تھا یہ واقعی موت کا کنواں تھا دیکھنے والوں کی سانسیں رک جاتی تھیں، ، ہو ا ئی جہاز والا جھولا، اونچی گول جھولا، موٹر کار، بنگالی جادو گر اور عیدین کی دنوں میں مزید جھولے قائم کیے جاتے تھے، جسے ہم میلہ کہتے تھے، یہ سب ہمارے دور میں ختم کردیے گئے تھے جس کے بدلے میں جد ید جھولے قائم کیے گئے، جن میں الیکڑونک کشتی، اولی گلی، سائیکل کشتی، غبارہ جھولا، سرکس، پی آئی اے جہاز ہوٹل، ریل گاڑی اور دیگر جھولے شامل تھے، پھر شہر کراچی میں سٹی حکومت قائم ہوئی جس نے ترقی کے نام پر ہمارے بچپن کی یادیں سب کچھ یک دم ملیا میٹ کردیا، اور ان مقامات پر ابن قاسم باغ بنا دیا جس کی تفصیل آگے بیان کروں گا۔

اب چند جھولے ایک چار دیواری میں قائم کردیے گئے ہیں، بچوں کو یہ پسند آیا لیکن مجھے اپنے بچپن والے جھولوں کی یاد ستا رہی تھی جس بنا پر میری آنکھیں نم ہوتی جارہی تھیں، گلوگیرلہجے میں بچوں کو بتارہا تھا کہ بچو! پہلے اس سے بھی اچھے جھولے ہوا کرتے تھے جو اب یہاں نہیں ۔ یہاں سے سمندر کی طرف جاتے ہوئے محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ہم کلفٹن کی سیر کررہے ہیں، وہ ریت اس کے بگولے غائب ہوگئے، ایسا لگتا ہے کہ کسی نئے شہر میں گھوم رہے ہیں، چاروں طرف بلند عمارات نے کلفٹن کی رونق کو ماند کردیا ہے، پہلے یہاں سے سمندر صاف نظر آتا تھا اب دور دور سے سمندر دکھائی نہیں دیتا ۔ (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔