فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع پر مثبت پیشرفت

ایڈیٹوریل  بدھ 1 مارچ 2017
فوجی عدالتوں سے متعلق آئینی ترمیم میں دیگر نکات پر بھی اتفاق کیاگیا ہے۔ فوٹو: فائل

فوجی عدالتوں سے متعلق آئینی ترمیم میں دیگر نکات پر بھی اتفاق کیاگیا ہے۔ فوٹو: فائل

فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کے حوالے سے مثبت پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ پارلیمانی جماعتیں فوجی عدالتوں کو دو سال توسیع دینے پر رضا مند ہو گئی ہیں۔ گو اس معاملے میں شکوے شکایات اور تحفظات موجود رہے ہیں تاہم حالات کی نزاکت کو تسلیم کیا گیا اور اسی حوالے سے فوجی عدالتوں کو توسیع دینے پر رضا مندی ظاہر کی گئی ہے۔

اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کے معاملے پر پارلیمانی رہنماؤںکے اجلاس میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے معاملے پر اتفاق کرلیا گیا ہے تاہم اجلاس میں پیپلز پارٹی شریک نہیں ہوئی۔پیپلز پارٹی نے 4مارچ کو آل پارٹیز کانفرنس بلا رکھی ہے جو اسی معاملے پر غور کرے گی۔

یہ آل پارٹیز کانفرنس اس حوالے سے کیا فیصلہ کرتی ہے‘ اس کا تو پتہ وقت آنے پر ہی چلے گا تاہم گزشتہ روز اسپیکر قومی اسمبلی کی سربراہی میں پارلیمانی پارٹیوںکے رہنماؤں کا جو اجلاس ہوا اس میں فوجی عدالتوں کی مدت میں 2 سال کے لیے توسیع کرنے کا فیصلہ کرلیاگیا ہے۔ فوجی عدالتوں سے متعلق آئینی ترمیم میں دیگر نکات پر بھی اتفاق کیاگیا ہے‘ اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ سب نے متفقہ طور پر فوجی عدالتوں میں توسیع کا فیصلہ کیا ہے، توقع ہے کہ پیپلز پارٹی بھی 4 مارچ  کو ہونے والی اے پی سی کے ذریعے اس پر اتفاق کرلے گی اور فوجی عدالتوں کی حمایت کرے گی۔

انھوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں توسیع کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے، اس کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس بلائے جائیں گے جہاں فوجی عدالتوں کا معاملہ زیر غور لایا جائے گا اور کسی نکتے میں تبدیلی پر سب راضی ہوئے تو قومی اسمبلی میں حتمی مسودہ طے کر لیں گے۔اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف کے ڈپٹی چئیرمین شاہ محمود قریشی نے کہا کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے معاملے پر غور کے لیے 8 اجلاس ہوئے جس میں تمام جماعتوں نیاپنا موقف تحمل سے بیان کیا، سب نے اتفاق کیاکہ فوجی عدالتیں پسندیدہ راستہ نہیںتاہم فوجی عدالتوں کی مدت 2 سال رکھنے پر اتفاق ہوا ہے، 2 سال بعد یہ مقدمات انسداد دہشت گردی عدالتوں کو منتقل ہوجائیں گے۔

فوجی عدالتوں کا قیام 7جنوری 2017سے تصور کیاجائے گا۔جماعت اسلامی کے رہنما صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ دہشت گرد دہشت گردہوتاہے، دہشت گردی کو مذہب سے نہ جوڑا جائے، ریاست کے خلاف بندوق اٹھانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے حاجی غلام احمد بلور نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں یہ معاملہ بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہے لیکن ہم نے مجبوری اورضرورت کے تحت فوجی عدالتوں کی حمایت کی ہے۔ قومی وطن پارٹی کے آفتاب شیر پاؤ نے کہا کہ اْمید کرتے ہیں اس بار فوجی عدالتوں کا قیام آخری بار ہوگا۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے معاملے پرحکومت کے ساتھ ہیں۔

پاکستان اس وقت جس قسم کے حالات سے دوچار ہے اس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے روایت سے ہٹ کر بھی فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔یہ امر خوش آیند ہے کہ جمہوریت پر یقین رکھنے والی جماعتوں کو بھی حالات کی نزاکت کا پورا ادراک ہے۔ جمہوریت کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ فیصلے کیے جائیں جو عوام کے مفاد میں ہوں۔

اس وقت دہشت گردی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور عوام کا مفاد اسی میں ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے اور اس مقصد کے لیے ہر وہ قدم اٹھایا جائے جو حالات اور وقت کی ضرورت ہے۔ فوجی عدالتیں بھی اسی ضرورت کا حصہ ہیں۔ اگر پارلیمنٹ ان عدالتوں کو توسیع دینے کی منظوری دے دیتی ہے تو یہ کسی طرح بھی ماورائے جمہوریت یا ماورائے آئین کام نہیں ہو گا۔

اس معاملے میں تاخیری حربے استعمال نہیں ہونے چاہئیں۔ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں اگر مگر چونکہ چنانچہ کی گردان سے معاملات پہلے بھی خراب ہوئے ہیں اور آیندہ بھی خراب ہوں گے۔ اگر جمہوریت دہشت گردی کے حوالے سے اپنا کردار ادا نہ کر سکی تو پھر اس کا مستقبل مخدوش ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اپنے اپنے مفادات اور تعصبات ہیں‘ یہ مفادات اور تعصبات ہی دہشت گردی کے خاتمے کی راہ میں اصل رکاوٹ ہیں۔کبھی لسانیت کا سہارا لیا جاتا ہے اور کبھی قومیت کا۔ اس قسم کے نعروں کی آڑ کا مقصد دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کو رکوانا ہے۔ یہ طرز عمل انتہائی خطرناک ہے اور اس طرز عمل کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔