پنجاب میں پختونوں کی گرفتاریوں کا ایشو

ایڈیٹوریل  بدھ 1 مارچ 2017
ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجاب پولیس اور سیکیورٹی ادارے ٹارگٹڈ آپریشن کریں۔ فوٹو؛ فائل

ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجاب پولیس اور سیکیورٹی ادارے ٹارگٹڈ آپریشن کریں۔ فوٹو؛ فائل

پنجاب میں افغانوں‘ فاٹا اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے افراد کی گرفتاریوں اور پولیس کی جانب سے مبینہ طور پر  تنگ کیے جانے کے ایشو پر گزشتہ روز خیبرپختونخوا کی اسمبلی نے قرار داد منظور کر لی‘ ارکان اسمبلی نے جذباتی اور غصہ بھری تقاریر کیں اور پنجابیوں کو خیبرپختونخوا سے نکالنے‘ پنجاب کی بجلی بند کرنے اور پارلیمنٹ کے باہر دھرنا دینے جیسی اشتعال انگیزتقریریں کیں‘ پنجاب کے بعض شہروں میں لاہور میں مال روڈ خود کش حملے کے بعد افغانوںاور فاٹا سے تعلق رکھنے والے مشکوک افراد کی گرفتاریاں عمل میں آئیں۔

دہشت گردی کے کسی سانحہ کے بعد کسی مخصوص قومیت یا کمیونٹی پر شک کرنا اور اس کمیونٹی کے بے گناہ افراد کو گرفتار کرنا یا ہراساں کرنا انتہائی قابل مذمت بات ہے‘ بلاشبہ سانحہ مال روڈ لاہور کے خود کش حملے کے سہولت کار انوار الحق کا تعلق باجوڑ سے ہے جب کہ خود کش حملہ آور کا تعلق افغانستان سے ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تمام پختون دہشت گرد ہیں یا وہ دہشت گردوں کے سہولت کار ہیں‘ سوشل میڈیا پر پولیس کی جانب سے جاری ہونے والے مبینہ سرکلرز نے بھی صورت حال کو خراب کیاحالانکہ بیانات جاری کرنے کے پہلے ان سرکلرز کی تصدیق کی جانی چاہیے تھی تاہم یہ امر خوش آیند ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے وضاحت کر دی ہے کہ پنجاب میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن پختونوں کے خلاف نہیں ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجاب پولیس اور سیکیورٹی ادارے ٹارگٹڈ آپریشن کریں‘ اندھا دھند کسی مخصوص کمیونٹی کے افراد کی گرفتاریاں مسائل کو جنم دیتی ہیں‘ ادھر سیاستدانوں اور پارلیمنٹیرینز کا فرض ہے کہ وہ وقتی سیاسی مفاد کی خاطر منفی اور اشتعال انگیز بیان بازی سے باز رہیں‘ دہشت گردی ایک ایسا عفریت ہے جسے مذہب‘ لسانیت یا قومیت کے پردے میں چھپنے نہ دیا جائے۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کا تعلق اسلام سے نہیں اسی طرح دہشت گرد  پنجابی ہوتا ہے نہ پختون اور نہ ہی سندھی یا بلوچ ہوتا ہے‘ وہ صرف دہشت گرد ہوتا ہے اور ملک وقوم کا مفاد اسی میں ہے کہ پاکستان میں بسنے والے تمام نسلی اور لسانی اور ثقافتی گروہ دہشت گردی کے خاتمے پر یکسو ہو جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔