حیاء کے قلعے پر حملہ

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 1 مارچ 2017
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

(گزشتہ سے پیوستہ)

مسز منصور کی پرجوش باتوں کے جواب میں پروفیسر زَیک نے کہا ’’امریکا اور یورپ میںخواتین سینے ڈھانپے بغیر بلکہ سینے تان کرپھرتی ہیں وہاں تو کوئی قیامت نہیں آگئی۔ ہمارے ہاں بھی اب دفتروں میں دوپٹو ں کے بغیر لڑکیاں پھرتی ہیں۔ کونسا طوفان آگیا ہے؟‘‘۔

اس پر منصور نے کہا ’’خواتین کے لباس پر مردوں کے ردّ ِ عمل کے بارے میں کئی قابل اعتبار اداروں کی سروے رپورٹس موجود ہیں جن کیمطابق نوّے فیصد مردوں کا کہنا ہے کہ’’باریک اور چُست لباس میںعورتوں کے جسم کے خدوخال اور ابھار دیکھ کر مردوں کے جنسی جذبات مشتعل ہوتے ہیں۔

ساٹھ فیصد نوجوانوں نے اقرار کیا کہ دفتروں اور تعلیمی اداروں میں سینے ڈھانپے بغیر پھرنے والی لڑکیوں کو ہم ہوسناک نظروں سے دیکھتے ہیںاور چھیڑتے بھی ہیں، ایسی لڑکیوں کو دیکھ کر دل کرتا ہے انھیں بانہوں میں بھینچ لیں۔‘‘ گھر یلو ملازموں کے ہاتھوں گھروں میں قتل ہونے والی خواتین کے بارے میں سروے رپورٹ کے مطابق اسّی فیصد کیسوں میں نوجوان ملازم خواتین کو نیم عریاں اور نامناسب لباس میں دیکھ کر درندے بن جاتے ہیں اور ان کی عزّت لوٹ کر انھیں قتل بھی کردیتے ہیں۔ سر اور سینہ ڈھانپنے والی خواتین کے بارے میں اسّی فیصد مردوں نے کہا کہ ’’انھیں دیکھ کر دل میں عزّت اور احترام کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور کسی قسم کے صنفی یا منفی جذبات پیدا نہیں ہوتے‘‘۔

میں والدین سے پوچھتا ہوں کہ وہ خود اپنی بیٹیوں کو اوباش لڑکوں کے لیے فیورٹ ٹارگٹ بناکر کیوں بھیجتے ہیں؟ کیا وہ خود اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ ان کی بیٹیوں کو ان کے اسکولوں اور کالجوں کے طلباء ھَوسناک نظروں سے دیکھیں،کیا شوہر اس بات پر مطمئن ہیں کہ ان کی بیویوں کو دیکھ کر دوسرے مردوں کے جنسی جذبات مشتعل ہوں اور ان کے دفتروں میں انھیں ہراساں کیا جائے؟‘‘۔

ان سرویز میں جب نوجوان لڑکیوں سے پوچھا گیا کہ اگر دفتروں میں کام کرنے والے نوجوان لڑکے اپنے سینے اور رانیں عریاں کرکے پھریں تو آپکو کیسا لگے گا؟ تودوپٹہ نہ لینے والی پچانوے فیصد لڑکیوں نے بھی اسے Indecent Exposureقرار دیا صرف 0.1فیصد لڑکیوں نے کہا ہمیں کوئی اعتراض نہیں، یہ وہ لڑکیاں ہیں جو منشیات کا استعمال کرتی ہیں اور جنکے کردار پر بھی لوگ انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ انسانی فطرت اور جذبات کے خالق نے عورتوں اور مردوں دونوں پر اپنے ستّر چھپانا لازم قرار دیا ہے اور جسم کے  Indecent Exposure سے منع فرمایا ہے۔ اس کی حکمت واضح طور پر ہر جگہ نظر آتی ہے۔

منصور نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ’’ یورپی معاشرے کے بارے میں یہ کہنا غلط ہے کہ نیم عریاں اور بیہودہ لباس پہننے والی خواتین وہاں محفوظ ہیں۔ ایسا لباس وہاں بھی دعوتِ عام کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ وہاں جذبات دل میں رکھنے کے بجائے لڑکی کا کوئی نہ کوئی بوائے فرینڈ اسے لے جاتا ہے اور ہوس کا نشانہ بنادیتا ہے۔ ہنگامہ اس لیے نہیں ہوتا کہ وہاں والدین اس تلخ حقیقت سے سمجھوتہ کرچکے ہیں کہ بیس بائیس سال کی عمر تک ان کی بیٹی کی عزّت و عصمت محفوظ نہیں رہیگی اور ان کی جوان بیٹیاں اسکولوں اور کالجوں میں ہی حاملہ ہوجائینگی۔ وہاں ریپ اور Sexual assaultکے کیس پاکستانی یا مشرقی معاشروں  سے کئی گنا زیادہ ہیں‘‘۔

اب مسز مریم منصور بات کو آگے بڑہاتے ہوئے بولیں ’’پروفیسر صاحب! یورپ میں بھی اعلیٰ خاندان کی خواتین نیم عریاں یا بیہودہ لباس نہیں پہنتیں۔ ان کی جوان لڑکیاں بھی ایسا لباس ہرگز نہیں پہنتیں جو بے حیائی کا مظہر ہو۔ اچھے تعلیمی اداروں میں ڈریس کوڈ مقرر ہوتاہے اور وہاں کی ٹیچرز گاؤن یا اوورآل پہنتی ہیں۔ بیہودہ لباس کا آغاز وہاں بھی شوبِز کی خواتین یا ماڈلز سے ہوتا ہے اور ہمارے جیسے ملکوں کے امیر گھرانوں (جو اخلاقی اقدار سے محروم ہوگئے ہیں اور جنکا دین اور ایمان صرف پیسہ بن چکا ہے) کی خواتین اُنکی اندھی تقلید شروع کردیتی ہیں۔

ہمارے برعکس باغیرت اقوام مثلاً ترک اور ایرانی مرعوبیّت کا شکار نہیں ہوتے اور اپنی اسلامی تہذیب اور اقدار پر فخر کرتے ہیں، چند مہینے پہلے میں پیرس میں خواتین کی ایک کانفرنس میںشریک تھی وہاں ایک جواں سال ترک خاتون سے ملاقات ہوئی جو استنبول یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں، لباس کا ذکر چھڑا تو انھوں نے زوردار انداز میں کہا ’’ حجاب ہماری پہچان اور ہمارے مسلم تشخّص کی علامت ہے، حیاء عورت کا حُسن اور اسکاسب سے قیمتی سرمایہ ہے اور حجاب ۔حیاء کا قلعہ ہے۔ اس قلعے کو مسمار کرنے کے لیے شیطانی قوتیں حملہ آور ہوچکی ہیں، ہمیں اس کی ہر قیمت پر حفاظت کرنی ہے۔یادرکھّیں حیاء کے زیور سے آراستہ مائیں ہی تین برّاِعظموں پر حکمرانی کرنے والے فاتح اور غازی پیدا کرتی ہیں، باحیامائیں ہی عظیم لیڈر پیدا کرتی ہیں، بے حیا عورتیں صرف ایکٹرز اور ڈانسرز ہی پیدا کرسکتی ہیں‘‘ ۔

اب پروفیسر زَیک کو دلائل ڈھونڈنے میں مشکل پیش آنے لگی۔ تھوڑی سی خاموشی کے بعد منصور گویا ہوا کہ ’’پاکستانی خواتین مرعوبیّت اور احساسِ کمتری کا زیادہ ہی شکارہیں، یورپ اور امریکا میں پڑھے لکھے لوگ حق کی تلاش میں جدوّجہد کرتے ہیں اور جب خالقِ کائنات کی سچّی کتاب تک ان کی رسائی ہوتی ہے تو سچائی کے نور سے ان کے دل و دماغ منوّر ہوجاتے ہیں، وہ کسی قسم کے Complexesکا شکار نہیں ہوتے اس لیے سوچ سمجھ کر اسلام قبول کرنے والے نو مسلم خواتین و حضرات اسلامی شعائر کا پورے اعتماد ، دلائل اور جرأت کے ساتھ دفاع کرتے ہیں۔

نو مسلم برطانوی صحافی ایوان دیڈلے کئی بار کہہ چکی ہیں کہ مغرب حجاب میںلپٹی پاکیزہ زندگی گزارنے والی خواتین سے خوفزدہ ہے، خدائے واحد پر ایمان اور اسلام ہی انسانی حقوق اور خصوصاً عورتوں کے حقوق کو تحفّظ دیتا ہے اور تعصّبات سے پاک منصفانہ زندگی کا ضامن ہے یہی احساس اسلام کی مقبولیت کا سبب بھی ہے‘‘۔ وہ اکثر کہتی ہیں ’’ میرا حجاب میرا قلعہ اور میرا سائبان ہے۔ یہ عورت کا محافظ اور باڈی گارڈ ہے‘‘ ۔

سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلیئر کی بیگم کی سگی بہن لارن بوتھ کی ایک تقریر میں نے خود سنی تھی، تقریب میں اس کی دونوں معصوم بیٹیاں اس کے ساتھ کھڑی تھیں اس نے حاضرین کو بتایا کہ ’’جب کافی مطالعے کے بعد میں اسلام کی طرف راغب ہوئی تو میں نے اپنی بیٹیوں کو بتایا کہ اب میں مسلمان ہونے جارہی ہوں، اس پر انھوں نے مجھ سے کچھ سوال پوچھے۔ ان کا پہلا سوال تھا Mom! will you keep on drinking alcohol? (امّی کیا آپ مسلمان ہونے کے بعد بھی شراب پیا کریں گی؟) میں نے کہا اب بالکل نہیں پیونگی۔

یہ سنکر میری بیٹیاں بہت خوش ہوئیں۔ پھر بڑی بیٹی نے پوچھا Mom! will you open your chest to the public? (امّی کیا آپ مسلمان ہونے کے بعد بھی سینہ نمایاں کرکے لوگوں میں پھریں گی ؟) میں نے کہا “Oh no I will cover my whole body” ( نہیں اب میں اپنا پورا جسم ڈھانپاکرونگی ) اس پر ان کی خوشی دیدنی تھی انھوں نے بڑے زور سے پُر مسرّت نعرہ لگایا”۔ پھر میڈم بوتھ سامعین سے مخاطب ہوئیں کہ ’’اس حجاب کے لیے مجھ پر کوئی جبر یا سختی نہیں ہے یہ تو میرے مسلمان ہونے کی علامت اور سمبل ہے، یہ میرے لیے شرف ا ور افتخار کا باعث ہے ۔ مجھے حجاب سے اس لیے محبّت ہے کہ میرے اﷲسبحانۂ تعالیٰ کی خوشی اور خوشنودی اِسمیں ہے‘‘۔

مسز منصور نے لقمہ دیتے ہوئے کہا ’’میری بھی ان سے ملاقات ہوچکی ہے، وہ اتنی خوبصورت گفتگو کرتی ہیں کہ دل چاہتا ہے انسان سنتا ہی رہے۔ ایک تقریب میںوہ مجھ سے بڑی گرمجوشی سے ملیں اور مجھے کہا کہ ’’پاکستانی خواتین کو جاکر بتائیں کہ عریاں اور ٹرانسپیرنٹ لباس اور لڑکیوں کا بازو ننگے کرکے اور سر اور سینہ ڈھانپے بغیر پھرنا ماڈرن اِزم ھرگز نہیں ہے یہ تو ہزاروں سال پرانا کلچرہے۔ یہ ابو جہل کے دور  کا کلچر ہے جب عورتیں عریاں پھرتی تھیں۔کیا مسلمان لڑکیاں پھر جہالت کے دور میں واپس جانا چاہتی ہیں؟۔ انھیں بتائیں کہ شیطان کا پہلا حملہ عورت کے لباس پر ہوتا ہے ، اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں صرف اہم ترین باتوں کا ذکر کیا ہے اور خواتین کے جسمانی اعضاء میں سےChest ڈھانپنااتنا اہم ہے کہ کائناتوں کے خالق اور مالک نے خود اس کا حکم  دینا ضروری سمجھا ۔ مسلم خواتین کو اپنی تہذیب اور اپنے کلچر پر فخر کرنا چاہیے۔

جو قوتیں مسلمان لڑکیوں کا حجاب اتروانا چاہتی ہیں میں انھیں بہت قریب سے جانتی ہوں وہ عورت کی عزّت نہیں کرتے وہ عورت کو صرف ہوس کی تسکین کا ذریعہ یا commercial comodityسمجھتے ہیں، یورپ اور امریکا اسلامی معاشروں  سے حیاء کا سرمایہ چھین کر مسلمان لڑکیوں کو بے حیا بنانا چاہتاہے، وہ مسلمانوں کی حمیّت ختم کرنے کے لیے حیاء کے قلعے کو مسمار کرنا چاہتے ہیں کیونکہ مسلم دشمن قوتیں جانتی ہیں کہ اگر مسلمان معاشرے حیاء سے محروم ہوگئے تو پھر وہ مغرب کے سامنے کھڑا ہونے کے قابل نہیں رہینگے ، پھران کا علیحدہ تشخّص اور identity ختم ہوجائیگی اورپھر وہ مغرب اور مغربی تہذیب کے پٹھّو اور پیروکار بنکر زندہ رہیں گے “۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔